پی سی پاک سرچ سدھن آپریشن
پی سی پاک سرچ سدھن آپریشن انگریزی PC Pak Search Sudhan Operation ، پاک افواج کی تاریخ کا سب سے پہلا اور اہم تہرین آپریشن ہے یہ آپریشن آزاد کشمیر کے سدوزئ سدھن پختون قبائل کی بغاوت کو کچلنے کے لیے یکم مارچ 1950ء سے 1956ء تک مختلف سدھن علاقہ جات جن میں آزاد کشمیر کے ضلع سدھنوتی ضلع پونچھ ضلع باغ اور ضلع کوٹلی کے جنوبی سدھن علاقہ جات کے باغیوں کے خلاف کیا گیا[1]
پی سی آپریشن
ترمیمپی سی جیسے آپریشن کی بنیاد صدر آزاد کشمیر سردار ابراھیم خان اور حکومت پاکستان کے درمیان عدم اعتماد جیسی بنیادی وجوہات اختلافات بنے کیونکہ یکم جنوری 1949 معاہدہ جنگ بندی کے بعد حکومت پاکستان اور صدر آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوئے حکومت پاکستان سے سردار محمد ابراھیم خان نے معاہدہ جنگ بندی کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا سردار ابراھیم چاہتے تھے کشمیر مکمل آزاد ہونے تک جنگ بندی نہ ہو مگر پاکستان کے حکمرانوں نے صدر آزاد کشمیر کی کسی بات پر کوئی توجہ دیے بغیر پاک بھارت معاہدہ جنگ بندی کر لیا اس کے بعد معاہدہ کراچی صدر آزاد کشمیر کی مرضی کے خلاف کیے جانے پر سردار ابراھیم اور حکومت پاکستان کے درمیان مزید اختلافات پیدا ہو گے جس کے باعث حکومت پاکستان نے سردار ابراھیم کو 21 مئی 1950 کو صدارت آزاد کشمیر سے معطل کر دیا[6]
سردار ابرھیم کا رد عمل
ترمیمسردار ابراھیم خان نے حکومت پاکستان کے اس غیر جمہوری اقدام پر آزاد کشمیر میں جمہوریت کی تحریک شروع کر دی جو بل آخر مسلح بغاوت میں تبدیل ہو گئی جس کے بعد آزاد کشمیر حکومت مفلوج ہو کر راہ گئی، سردار ابراھیم خان کے قبیلے کے لوگوں نے آزاد کشمیر سے تمام پولیس چوکیاں ختم کر کے آزاد کشمیر کے 80% فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا جس کے بعد سردار ابراھیم خان نے ضلع پونچھ راولاکوٹ آزاد کشمیر کے مقام پر اپنی باغی حکومت کا اعلان کر دیا[7][8]
پاکستان کا رد عمل
ترمیمآزاد کشمیر میں سدوزئیوں کی اس بغاوت پر حکومت پاکستان کو فوجی آپریشن کرنا پڑا جو پاک فوج کی تاریخ کا سب سے پہلا آپریشن تھا اس آپریشن کا نام پی سی پاک سرچ آپریشن رکھا کر وفاقی حکومت نے بریگیڈئیر رضا خان کی زیر کمان پاک سرچ آپریشن شروع کیا آپریشن کا بنیادی مقصد تشدد دہشت گردی اور بغاوت کو کچل کر امن و امان قائم کرنا تھا کیونکہ آزاد کشمیر میں مسلح بغاوت بانی آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم خان کی صدارت آزاد کشمیر سے مطعلی کے فورن بعد سدھنوتی پونچھ باغ اور کوٹلی جیسے اہم چاروں اضلاع میں ابراھیم خان کی سربراہی میں اُن کے قبیلے کے لوگوں نے شروع کر رکھی تھی جو آزاد کشمیر کے 80 فیصد علاقے پر قبضہ کرکے باقی آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں پر حملہ آور ہو رہے تھے اس لیے آزاد کشمیر کی مفلوج حکومت کی اپیل پر وفاقی حکومت پاکستان نے بریگیڈر رضا خان کی سربراہی میں پی سی پاک سرچ آپریشن شروع کیا جس میں 600 سدوزئ مارے گئے 3000 زخمی اور 5000 گرفتاریاں ہوئی پاک فوج کے 448 فوجی شہید 1204 زخمی ہوئے 140 اغوا ہوئے جن میں میجر جنرل عثمانی جو بنگلہ دیش کے پہلے چیف آف آرمی سٹاف بنے یہ بھی باغیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے جنہیں بعد باغی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا گیا[9]
سردار ابراھیم اور حکومت پاکستان کہ مذاکرات
ترمیمسردار ابراھیم اور حکومت پاکستان کے درمیان 4 اپریل 1952 کو مذاکرات ہوئے جس کے بعد 10 سدوزئی گرپوں نے ضلع پونچھ راولاکوٹ کے مقام پر سردار ابراھیم خان کی زیر کمان ہتھیار ڈال کر حکومت پاکستان سے صلاح صفائی کر لی جس کے بعد ضلع باغ اور ضلع سدھنوتی کے سدوزئ سرداروں نے سردار ابراھیم خان کے اس مذاکراتی فیصلے سے انکار کر دیا جس کہ بعد سدھنوتی اور باغ کے سردار ضلع باغ، سدھنوتی اور ضلع کوٹلی میں پاکستان مخالف کارروائیوں میں مصروف رہے مگر جب پاک افواج نے ضلع باغ اور سدھنوتی کے تمام میدانی علاقوں پر قبضہ کر لیا تو سردار عبد العزیز خان جس نے ضلع باغ میں اپنی باغی حکومت قائم کر رکھی تھی انھوں نے 2 جنوری 1955ء ملوٹ کے مقام پر حکومت پاکستان سے مذاکرات کر کے ہتھیار ڈال دیے جس کے بعد باغیوں کے حوصلے پست پڑ گے مگر باجود اس کے ضلع سدھنوتی کے پہاڑی علاقہ جات کے سدوزئ سرداروں نے معاہدہ بارل 1956 تک نہ ہتھیار ڈالے نہ ہی کسی مذاکرات پر آمادہ ہوئے.[10]
معاہدہ بارل
ترمیم1950ء کی دہائی کے آخری باغی رہنما غازی شیر دل خان مع 2000 سدوزئی باغیوں کا حکومت پاکستان اور آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے ساتھ اس وقت کے صدر آزاد کشمیر سردار محمد عبد القیوم خان اور وزیر امور کشمیر پاکستان مشتاق احمد گورمانی و دیگر حکومتی اکابرین کے درمیان 20 ستمبر 1956 بمقام وادی بارل میں ہوا جس کے بعد سدھنوتی کے باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے یہ معاہدہ صدر آزاد کشمیر سردار محمد عبد القیوم خان کی ذاتی کوشش و محنتوں سے ممکن پایا وادی بارل کے سدوزئیوں اور صدر آزاد کشمیر سردار عبد القیوم خان کے درمیان کافی کرابت و دوستانہ تعلقات جہاد کشمیر 1947 کے زمانے سے تھے جس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب مقدمہ کشمیر میں بھی لکھا ہے حالانکہ حکومت پاکستان و آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے پی سی پاک سرچ سدھن آپریشن پر کوئی کتاب لکھنے یا کسی اخبارات میں کوئی مضمون یا کسی ٹی وی چینل پروگرام میں مطلقہ عنوانات سے پروگرام کرنے پر سخت ترین پابندی عائد ہے[11] [12]
- ↑ In Defence of Marxism۔ "Kashmir's Ordeal - Chapter Six" (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 ستمبر 2016
- ↑ Christopher Snedden۔ Kashmir - The Untold Story۔ HarperCollins India۔ صفحہ: 120, 121, 122۔ ISBN 9789350298985
- ↑ Usman Khan Yousafzai (18 March 2021)۔ "The forgotten Poonch revolt: A stain on our history"۔ tribune.com.pk۔ The Express Tribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2021
- ↑ Christopher Snedden۔ Kashmir - The Untold Story۔ HarperCollins India۔ صفحہ: 120, 121, 122۔ ISBN 9789350298985
- ↑ {{cite web |url=https://tribune.com.pk/article/97333/the-forgotten-poonch-revolt-a-stain-on-our-history |title=The forgotten Poonch revolt: A stain on our history |last=Khan Yousafzai |first=Usman |date=18 March 2021 |website=tribune.com.pk |publisher=The Express Tribune |access-date=20 June 2021}
- ↑ Zeba Zubair (2020)، From Mutiny to Mountbatten، Routledge، صفحہ: xliv، ISBN 9781317847991
- ↑ Christopher Snedden۔ Kashmir - The Untold Story۔ HarperCollins India۔ صفحہ: 120, 121, 122۔ ISBN 9789350298985
- ↑ Usman Khan Yousafzai (18 March 2021)۔ "The forgotten Poonch revolt: A stain on our history"۔ tribune.com.pk۔ The Express Tribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2021
- ↑ Christopher Snedden (2015)۔ "Jammu and Jammutis"۔ Understanding Kashmir and Kashmiris۔ HarperCollins India۔ ISBN 9781849043427
- ↑ Manohar Lal Kapur، Kapur (1980)۔ History of Jammu and Kashmir State: The making of the State۔ India: Kashmir History Publications۔ صفحہ: 52
- ↑ Ausaf Hussain (26 October 2012)۔ "Renaming Frontier Force Regiment"۔ Pakistan Today
- ↑ "Furqan Force"۔ Persecution.org۔ 02 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2012