پاکستان
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان - انگریزی میں: PAKISTAN ) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں (33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان Islamic Republic of Pakistan | |
---|---|
پرچم پاکستان | پاکستان کی ریاستی علامت |
ترانہ: قومی ترانہ | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 30°N 71°E / 30°N 71°E [1] |
بلند مقام | کے ٹو (8610 ) |
پست مقام | بحیرہ عرب (0 میٹر ) |
رقبہ | 881913 مربع کلومیٹر |
دارالحکومت | اسلام آباد |
سرکاری زبان | انگریزی [2]، اردو [2] |
آبادی | 223773700 (2021)[3] |
|
106018220 (2017)[4] سانچہ:مسافة |
|
101344632 (2017)[4] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | وفاقی جمہوریہ ، پارلیمانی جمہوریہ |
اعلی ترین منصب | آصف علی زرداری (2024–) |
سربراہ حکومت | میاں محمد شہباز شریف (11 اپریل 2022–) |
مقننہ | مجلس شوریٰ پاکستان |
عدلیہ | عدالت عظمیٰ پاکستان ، عدالت عظمیٰ آزاد کشمیر ، عدالت عظمیٰ گلگت بلتستان |
مجلس عاملہ | حکومت پاکستان |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 14 اگست 1947 |
عمر کی حدبندیاں | |
شرح بے روزگاری | 5 فیصد (2014)[5] |
دیگر اعداد و شمار | |
کرنسی | پاکستانی روپیا |
مرکزی بینک | بینک دولت پاکستان |
ہنگامی فوننمبر | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+05:00 ایشیا/کراچی [8] |
ٹریفک سمت | بائیں [9] |
ڈومین نیم | pk. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | PK |
بین الاقوامی فون کوڈ | +92 |
درستی - ترمیم |
موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانی عرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا. 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔
پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے پانچ صوبے ہیں اور کچھ علاقے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 42 https://www.worlddata.info/asia/pakistan/economy.php ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔[10]
اشتقاقیات
ترمیمپاکستان کے لفظی معنی پاک لوگوں کی سر زمین ہے، پاک کے اردو اور فارسی میں معنی خالص اور صاف کے ہیں اور ستان کا مطلب زمین یا وطن کا ہے- 1933ء میں چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ اب یا کبھی نہیں شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا۔
لفظ پاکستان اس وقت پانچ مسلم علاقوں کے ناموں کا سرنامیہ ہے۔ پ پنجاب، ا خیبر پختونخوا (افغانیہ)، ک کشمیر، س سندھ، تان بلوچستان۔
تاريخ
ترمیم711ء میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں محمد بن قاسم برصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوں برصغیر (موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی عرب ریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کا دار الحکومت دمشق، زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر عرب دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
سن 1947ء سے پہلے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی کالونیاں تھیں اور برّصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی (انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران میں ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحت تحریک پاکستان وجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادت محمد علی جناح نے کی۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔
تقسیم برصغیر پاک و ہند کے دوران میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان میں 1948ء اور 1965ء میں کشمیر کے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔
اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریا بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو 1960ء میں انڈیا کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں، ستلج، بیاس اور راوی سے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہ دریائے سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔
1947ء سے لے کر 1948ء تک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان پنجم نے اس وقت پاکستان کی مالی مدد کی۔
پاکستانی حکمران
ترمیمپاکستان بطور برطانوی ڈامنینئن آزاد ہوا تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے۔ پاکستان کی عبوری حکومت ١١ اگست ١٩٤٧ کو تشکیل دی گئی تھی۔ 1948 میں قائد اعظم ٹی بی سے وفات پا گئے۔ 1951ء میں پستول کی گولی کا شانہ بنا کر[لیاقت علی خان]] کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔
پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جنرل ایوب کے دور آمریت میں بنائے گئے۔ جنرل ایوب کے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ 1963ء میں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگر مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علاحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انھوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی۔ 1971ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحییٰ خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہو گیا اور مشرقی پاکستان ایک علاحدہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔
1972ء سے لے کر 1977ء تک پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم رہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں 1977ء میں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔
اگلا دور 1977ء تا 1988ء مارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق تھے۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے 1988ء میں ضیاءالحق نے برطرف کر دیا- 1988ء میں صدر مملکت کا طیارہ گر گیا اور ضیاءالحق کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔
اس کے بعد 1988ء میں انتخابات ہوئے اور بينظير بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990ء میں نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ 1993ء میں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔
اگلے انتخابات 1993ء میں ہوئے اور ان میں دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس وقت پاکستان کے صدر فاروق احمد خان لغاری تھے۔ صدر فاروق احمد خان لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔ 1997ء میں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1999ء میں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکت پرويز مشرف بنے اور 2001ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بنے۔
2004ء میں جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فيصلہ کیا۔ مختصر عرصہ کے لیے چوہدرى شجاعت حسين نے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سر انجام دیں اور شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ شوکت عزیز قومی اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007ء کو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16 نومبر 2007ء کو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔
فروری 2008ء میں الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم نامزد کیا، جنھوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 22 جون 2012ء کو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم بنے۔
مئی 2013ء میں عام انتحابات ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ ن ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسرے بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔
28 جولائی 2017ء کو عدالت عظمیٰ نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک اور وزیر اعظم نوازشریف کو پانامالیکس فیصلے میں تا حیات نا اہل قرار دے کر برطرف کر دیا اور یوں پاکستان مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی نئے وزیر اعظم بن گئے۔ 17 اگست 2018ء کو عمران خان 176 ووٹ حاصل کر کے بائیسویں وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔
آئین، حکومت اور سياست
ترمیمپاکستان کا اعلیٰ اساسی قانون آئین پاکستان کہلاتا ہے۔ آئین، پاکستان کا وہ اعلیٰ قانون ہے جو ریاست پاکستان کے اندر تمام اہم چیزوں اور فیصلوں کا تعین کرتا ہے۔ ملک میں چار مرتبہ مارشل لا لگا جس سے دو مرتبہ آئین معطل ہوا، ایک مرتبہ 1956ء کا آئین اور دوسری مرتبہ 1962ء کا آئین۔ 1972ء میں مشرقی پاکستان میں مخالفین نے سازشیں کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام میں احساس محرومی بڑھ گئی جس کی نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ اس وقت غور کیا گیا تو ملک ٹوٹنے کی بہت سے وجوہات تھیں۔ اسی بنا پر 1973ء کا آئین بنایا گیا۔آئین بنانے کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دے دی گئی اور آئین میں ہر شعبے اور اہم امور کے لیے اصول بنے، آئین میں ریاست کی تمام بڑے فیصلوں کے لیے قوانین بنائے گئے، حکومت اور ریاست کا پورا تشکیل بیان کیا گیا۔ مسودہ تیار ہونے کے بعد اسے قومی اسمبلی سے پاس کرایا گیا۔
پاکستانی سیاست کی بنیاد کو آئین پاکستان نے قائم کیا ہے۔ آئین کے مطابق پاکستان ایک جمہوری اور قومی ریاست ہے۔ آئین پاکستان نے ایک وفاق اور اس کے ماتحت صوبائی حکومتیں قائم کی ہیں۔ آئین کا پہلا آرٹیکل بیان کرتا ہے کہ "مملکت پاکستان ایک وفاقی جمہوریت ہوگا جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا اور جسے بعد ازیں پاکستان کہا جائے گا"۔
پاکستان کی مختلف علاقہ جات کے متعلق آئین پاکستان کا دوسرا آرٹیکل بیان کرتا ہے:
پاکستان کے علاقے مندرجہ ذیل پر مشتمل ہوں گے:
- (الف) صوبہ جات: بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ
- (ب) وفاقی دار الحکومت اسلام آباد
- (ج) وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات
- (د) ایسے علاقے اور ریاستیں جو الحاق کے ذریعے پاکستان میں شامل ہیں یا ہو جائے[11]
آرٹیکل 1 میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی کوئی واضح حیثیت تو بیان نہیں کی گئی لیکن 2009ء میں قومی اسمبلی سے ایک اور بل منظور ہوا جس نے واضح طور پر گلگت بلتستان کو نیم-صوبے کا درجہ دیا اور یہاں باقاعدہ صوبائی حکومت کو قائم کیا گیا، جس کے تمام بنیادی شاخ (اسمبلی، عدلیہ، وزارتیں، وغیرہ) قائم کیے گئے۔[12]
آئین نے مزید ملک میں دو قانون ساز ایوان قائم کیے ایک قومی اسمبلی اور دوسرا سینٹ۔ قومی اسمبلی کی بنیاد آبادی کے لحاظ سے ہے یعنی جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں زیادہ نشستیں رکھی جائے گی اور قومی اسمبلی کے ارکان کو براہ راست عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ سینٹ میں تمام صوبوں کو برابر کے نشستیں دیے گئے ہیں چاہے صوبہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ سینٹ کے ارکان کو سینیٹر کہا جاتا ہے اور ان سینیٹرز کو چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنے ووٹ سے منتخب کر سکتے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات
ترمیمکسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کا سلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور، دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے، ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہ خارجہ پالیسی میں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاص ہے۔ پاکستان ہر معاملے میں ایک آزاد خارجہ پالیسی رکھتا ہے خاص طور پر نیوکلیائی ہتھیاروں کا معاملہ ہو یا اسلحے کی خرید و فروخت کا۔
افواج
ترمیمپاکستان کی دفاع کا ذمہ ملک کے مسلح افواج پر ہے جس کی بنیادی طور پر تین شاخیں ہیں:
1947ء میں قیام پاکستان سے پہلے پاک عسکریہ، ہندوستانی فوج کا حصہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کے تاج برطانیہ کے زیر اثر پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں بھی حصہ لیا ہے۔ تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستانی فوج پاکستان اور بھارت میں بالترتیب 36% اور 64% کے تناسب میں تقسیم ہو گئی۔ اس وقت اعلان ہوا کہ کوئی بھی فوجی جس بھی فوج میں جانا چاہتا ہے تو اسے مکمل اجازت ہے۔ اس وقت بہت سے مسلمان فوجی، پاک عسکریہ میں شامل ہو گئے۔ تقسیم کے وقت بھارت میں 16 آرڈیننس فیکٹریاں تھیں جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں تھی۔ اب پاکستان کافی حد تک دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہو گیا ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے
ترمیمپاکستان میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے ادارے شامل ہیں جن میں سول ادارے بھی ہیں اور فوجی بھی۔ فوج اداروں میں پاک فوج، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ شامل ہیں جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں، قدرتی آفت میں متاثرین کی امداد وغیرہ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیگر نیم فوجی ادارے بھی قانون نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ان نیم فوجی داروں میں فرنٹیئر کانسٹبلری، سرحد کور، پاکستان رینجرز شامل ہیں۔ پاکستان رینجرز کو ملک کے دو مشرقی صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس لیے اس ادارے کے مزید دو شاخ بنائے گئے ہیں یعنی پنجاب رینجرز اور سندھ رینجرز۔ اسی طرح سرحد کور اور فرنٹیئر کانسٹبلری کو ملک کے مغربی صوبوں یعنی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اسی ادارے کو مزید دو شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پختونخوا کانسٹبلری اور بلوچستان کانسٹبلری۔
اس کے علاوہ ہر انتظامی اکائی میں مختلف پولیس فورسز بنائی گئی ہیں جن میں خیبر پختونخوا پولیس، پنجاب پولیس، سندھ پولیس، بلوچستان پولیس، آزاد کشمیر پولیس اور گلگت بلتستان پولیس شامل ہیں۔پولیس فورس میں ایک الگ شاخ بھی بنایا گیا ہے جسے پولیس قومی رضا کار کہا جاتا ہے، اس فورس کا مقصد تمام صوبوں میں جہاں ضرورت پڑے وہاں کام کرنا ہے۔ ایئرپورٹ پولیس کا کام ایئرپورٹ کے امور سر انجام دینا ہے اسی طرح موٹروے پولیس اور قومی شاہراہ پولیس کا کام سڑکوں کی حفاظت ہے۔
تحقیقات کے لیے وفاقی ادارۂ تحقیقات (ایف آئی اے) اور دیگر تحقیقاتی ادارے موجود ہیں۔ مخابرات اور ملک کے بیرون خطرات سے نمٹنے کے لیے بھی مخابراتی ادارے (جیسے آئی ایس آئی، وغیرہ) موجود ہیں۔
انتظامی تقسیم
ترمیمپاکستان ميں 5 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نے گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔ صوبہ جات کی تقسیم یکم جولائی 1970ء کو کی گئی۔ صوبہ بلوچستان کا کل رقبہ 347,190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2011ء میں آبادی 79 لاکھ 14 ہزار تھی۔ صوبہ پنجاب کا کل رقبہ 205,344 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2013ء میں آبادی 10 کروڑ 10لاکھ تھی۔ صوبہ خیبر پختونخوا کا کل رقبہ 74,521 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2012ء میں آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ تھی۔ صوبہ سندھ کا کل رقبہ 140,914 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2012ء میں آبادی 4 کروڑ 24 لاکھ تھی۔ گلگت بلتستان (سابق شمالی علاقہ جات) کا کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جبکہ 2008ء میں آبادی 18 لاکھ تھی۔
انتظامی تقسیم
ترمیمانتظامی اکائی | دار الحکومت | آبادی | |
---|---|---|---|
آزاد کشمیر | مظفر آباد | 40،45،366 | |
بلوچستان | کوئٹہ | 1،23،44،408 | |
پنجاب | لاہور | 1،10،012،442 | |
خیبر پختونخوا | پشاور | 3،55،25،047 | |
سندھ | کراچی | 4،78،86،051 | |
گلگت بلتستان | گلگت | 14،92،924 | |
وفاقی دار الحکومت | اسلام آباد | 20،06،572 |
پاکستان کا جغرافيہ، ماحولیات اور آب و ہوا
ترمیمجغرافیائی طور پر پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور آب و ہوا انتہائی متنوع ہے، پاکستان بے شمار جانداروں کا گھر ہے، بلکہ کہیں جانور اور پرندے ایسے بھی ہیں جو صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 796,095 مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔پاکستان کے مشرقی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں جبکہ مغربی اور شمالی علاقے پہاڑی ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا دریا دریائے سندھ ہے۔ یہ دریا پاکستان کے شمال سے شروع ہوتا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ سے گذر کر سمندر میں گرتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقے، صوبہ سندھ کے وسطی علاقے اور پنجاب کے شمالی، وسطی اور جنوبی علاقے میدانی ہیں۔ یہ علاقے نہری ہیں اور زیر کاشت ہیں۔ صوبہ سندھ کے مشرقی اور صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ زیادہ تر بلوچستان پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے لیکن بلوچستان کا سبی علاقہ میدانی اور صحرائی ہے۔ خیبر پختونخوا کے مغربی علاقوں میں نیچے پہاڑ ہیں جبکہ شمالی خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادی زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔
-
کے ٹو دنیا کا دوسرا بلند پہاڑ ہے۔
-
قلعہ سکردو کا منظر دریائے سندھ کے قریب
پاکستان کی سرحدیں
ترمیمپاکستان کا سمندری ساحل تقریباً 1,046 کلومیٹر ہے اور 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے، زمینی سرحد میں سے 2,430 کلومیٹر سرحد افغانستان کے ساتھ، 523 کلومیٹر چین کے ساتھ، 2,912 بھارت کے ساتھ اور 909 ایران کے ساتھ لگا ہوا ہے۔
معيشت
ترمیمپاکستان دنيا کا ايک ترقی پزیر ملک ہے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات ميں فوج كى مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کو تعلیم سے محروم رکھنے کی نفسیاتی اور خود غرضانہ فطرت (تاکہ بیگار اور سستے پڑاؤ (Labor Camp) قائم رکھے جاسکیں)، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيلیے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلے پاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعت پر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانی کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا [حوالہ درکار]۔ اِس وقت پاکستان کی معيشت مستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے [حوالہ درکار]۔ کراچی سٹاک ایکسچینج کے کے ايس سی انڈکس گزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے [حوالہ درکار]۔
اعداد و شمار
ترمیمپاکستان آبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصد اہل تشیع، 77 فيصد اہل سنت اور تقریباً 3 فيصد ديگر فقہ سے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانی مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب وسرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، جبکہ زيادہ تر دفتری کام انگريزی ميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود اردو پاکستان کی عوامی و قومی زبان ہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئی اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميں پنجابی، سرائیکی، سندھی، گجراتی، بلوچی، براہوی، پہاڑی، پشتو اور ہندکو زبانیں قابلِ ذکر ہيں۔
پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سرائیکی، سندھی، پٹھان، بلوچی اور مہاجر قوم ہيں، ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مابین فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔
ثقافت اور معاشرہ
ترمیمتہذیب
ترمیمپاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميں دراوڑ، آريا، ہن، ايرانی، يونانی، عرب، ترک اور منگول لوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھ موسم اور آب و ہوا کا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايک اسلامی تہذيب کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔
پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔ کلاسيکی موسيقی، نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک، ان سب کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميں قوالی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امرا اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جگہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکاؤ اسلام اور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔
پاکستانيوں کی بڑی تعداد امريکہ، برطانيہ، آسٹريليا، کینیڈا اور مشرق وسطی ميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہت سرمايہ کاری بھی کی ہے۔
پاکستان کا سب سے پسنديدہ کھيل کرکٹ ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميں ہاکی بھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کے شمالی علاقہ جات كے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدائش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھیلی جاتی ہے۔
لباس، فن اور فیشن
ترمیمپاکستان میں سب سے عام لباس شلوار قمیض ہے جس کو قومی لباس کا درجہ حاصل ہے، شلوار قمیص کو پاکستان کے چاروں صوبوں بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا سمیت قبائلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پہنا جاتا ہے۔ تاہم پھر ہر صوبے اور علاقے میں شلوار قمیص پہننے کا طرز تھوڑا مختلف بھی ہوتا ہے ہر کوئی اپنے مقامی انداز میں پہنتا ہے۔
شلوار قمیص کے علاوہ اور بھی بہت سے لباس پاکستان میں میں پہنے جاتے ہیں جن میں سوٹ اور نیکٹائی بھی عام ہے جن کا استعمال اسکول، کالج، جامعات، دفاتر، وغیرہ میں ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں شہروں کے بہ نسبت سوٹ اور ٹائی کا استعمال کم ہوتا ہے۔ شیروانی کا استعمال خاص کر تقاریب اور خوشیوں کے مواقع پر کیا جاتا ہے۔
پاکستانی خواتین میں بھی شلوار قمیض کا استعمال ہوتا ہے تاہم خواتین شلوار قمیض کے علاوہ انارکلی، لہنگا، گاگرہ، وغیرہ بھی پہنتی ہیں۔
میڈیا
ترمیمپاکستان میں بہت سے ذرائع ابلاغ موجود ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا دونوں میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔اس سے پہلے پی ٹی وی ملک کا واحد چینل نیٹ ورک ہوتا تھا اور حکومت پاکستان اس نیٹ ورک کو چلا رہی تھی۔ 2002ء کے بعد الیکٹرونک میڈیا نے ترقی کی اور پے در پے نئے نجی چینل آتے رہے۔اس وقت پاکستان میں 50 سے بھی زیادہ صرف نجی چینلز موجود ہیں جن کی نشریات 24 گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، علاقائی اور بہت سے چینلز موجود ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر چینلز کے نشریات اردو میں ہوتے ہیں تاہم ملک کے علاقائی زبانوں (پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری، سرائیکی وغیرہ) کے بھی ٹی وی چینلز موجود ہیں۔ پی ٹی وی ورلڈ پاکستان کا پہلا انگریزی چینل ہے۔
اردو فلم انڈسٹری لالی وڈ کی صدر مقامات لاہور، کراچی اور پشاور میں واقع ہے۔ لالی وڈ نے اب تک بہت سے فلمیں ریلیز کی ہیں اور کر رہا ہے۔ پاکستان میں سب سے عام اردو ڈراما سیریلز ہیں جو مختلف چینلز پر چلائے جاتے ہیں۔
فن تعمیرات
ترمیمپاکستان کے فن تعمیرات ان مختلف عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مختلف ادوار میں موجودہ پاکستان کے علاقوں میں بنائے گئے ہیں۔ وادئ سندھ کی تہذیب کے شروع ہونے کے ساتھ ہی جو 3500 قبل مسیح تھا، موجودہ پاکستان کے علاقے میں شہری ثقافت کا ارتقا ہوا جس میں بڑی عمارتیں تھیں جن میں سے کچھ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے بعد گندھارا طرز کا بدھ طرز تعمیر آیا جس میں قدیم یونان کے اجزاء بھی شامل تہے۔ اس کے بقایا جات گندھارا کے صدر مقام ٹیکسلا میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان میں مغل اور انگریزی طرز تعمیر کی مثالیں بھی موجود ہیں جو نہایت ہی اہم ہیں۔
آزادی کے بعد کا فن تعمیر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان نے اپنی نئیحاصلکی گئی آزادی اور شناخت کو فن تعمیر کے ذریعے سے ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان خود کو جدید عمارتوں میں ظاہر کرتا ہے مثلاً فیصل مسجد جو وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں واقع ہے اس مسجد کو 1960ء میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری عمارتیں بھی قابل ذکر ہیں جیسے مینار پاکستان، سفید ماربل سے بنا مزار قائد اعظم۔ یہ عمارتیں نئی ریاست کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ملکی دار الخلافہ اسلام آباد میں موجود قومی یادگار تہذیب، آزادی اور جدید فن تعمیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔
پاکستان میں اس وقت چھ (6) جگہیں ایسی ہیں جنہیں عالمی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔
- موہن جو دڑو کے اثریاتی کھنڈر
- تخت بائی اور پڑوسی شہر شہر بہلول کے بدھ مت کے کھنڈر
- شاہی قلعہ لاہور اور شالیمار باغ لاہور
- ٹھٹھہ کی تاریخی یادگاریں
- قلعہ روہتاس
- ٹیکسلا
سیاحت
ترمیمپاکستان اپنے نظاروں، لوگوں اور تہذیبوں کے حوالے سے ایک وسیع ملک ہے اور اسی وجہ سے سال 2012ء میں یہاں دس (10) لاکھ سیاح آئے۔ پاکستان کی سیاحت کی صنعت 1970ء کے عشرے کے دوران میں عروج پر تھی جب یہاں ایک بہت بڑی تعداد میں سیاح آتے تھے۔ ان سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ قابل دلچسپی جگہیں خیبر پاس، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی تھیں۔ اس ملک کی حامل کشش جگہوں میں موہنجو داڑو، ٹیکسلا اور ہڑپہ جیسی تہذیبوں کے کھنڈر سے لے کر کوہ ہمالیہ کے پہاڑی مقامات تک ہیں۔ پاکستان 7000 میٹر سے زیادہ بلند کئی چوٹیوں کا مسکن ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کئی پرانے قلعے ہیں، پرانے زمانے کی فن تعمیر، ہنزہ اور چترال کی وادیاں جو ایک چھوٹی سی غیر مسلم سماجی گروہ کیلاش کا مسکن ہے جو خود کو سکندر اعظم کی اولاد سے بتاتے ہیں۔
پاکستان کے ثقافتی مرکز و صدر مقام لاہور میں مغل فن تعمیر کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے بادشاہی مسجد، شالیمار باغ، مقبرہ جہانگیر اور قلعہ لاہور شامل ہیں جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ عالمی معاشی بحران سے پہلے پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ (5) لاکھ سیاح آتے تھے۔ تاہم سال 2008ء سے پاکستان میں اندرونی غیریقینی صورت حال کی وجہ سے یہ تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔
اکتوبر 2006ءمیں کشمیر کے زلزلے کے بعد رسالہ دی گارڈین نے پاکستان کے پانچ مقبول ترین سیاحتی مقامات کے نام سے ایک مضمون شائع کیا تاکہ پاکستان کی سیاحتی کی صنعت کی مدد کر سکے۔ یہ پانچ مقامات ٹیکسلا، لاہور، شاہراہ قراقرم، کریم آباد اور جھیل سیف الملوک تہے۔ عالمی معاشی فورم کے سفر اور سیاحت کے مقابلے کی رپورٹ نے پاکستان کو مقبول ترین 25 فیصد سیاحتی مقامات کا اعزاز عالمی ورثہ کے مقامات کے طور پر مقرر کیا۔ سیاحتی مقامات کی پہنچ جنوب میں مینگروو جنگلات سے وادئ سندھ کی تہذیب کے موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے 5000 سال پرانے شہروں تک ہے۔
خور و نوش
ترمیمپاکستانی کھانے جنوبی ایشیا کے مختلف علاقائی کھانوں کا حسین امتزاج ہیں۔ پاکستانی کھانوں میں شمالی ھندوستانی، وسط ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے کھانے شامل ہیں لیکن یہاں کے کھانوں میں گوشت کا استعمال زیادہ ہے۔ پاکستان میں اشیائے خور و نوش کے نام بہت آسان ہیں۔
پاکستان میں ایک علاقے کے کھانے دوسرے علاقے کے کھانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہیں جس سے اس ملک کی ثقافتی اور لسانی تنوع جھلکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے کھانے مصالحے دار ہوتے ہیں جو جنوبی ایشیا کے کھانوں کی خاصیت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں کے کھانے مثلاً خیبر پختونخوا، بلوچستان، قبائیلی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور کشمیر کے کھانے بھی اپنی اپنی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اور ان پر بھی مختلف علاقائی رنگ غالب ہوتے ہیں۔
کھیل
ترمیمپاکستان میں کھیلے جانے والے بیشتر کھیلوں کا آغاز برطانیہ میں ہوا اور برطانویوں نے انھیں ہندوستان میں متعارف کرایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اس نے 1960ء، 1968ء اور 1984ء میں کھیلے گئے اولمپک کھیلوں میں تین سونے کے طمغے حاصل کیے ہیں۔ پاکستان نے ہاکی کا عالمی کپ بھی چار بار جیتا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان نے ہاکی کا عالمی کپ 1971ء، 1978ء، 1982ء اور 1994ء میں جیتا ہے۔ تاہم، کرکٹ پاکستان کا سب سے زیادہ مشہور کھیل ہے۔ پاکستان کرکٹ کے ٹیم، جنہیں شاہین کہا جاتا ہے، نے 1992ء میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تھا۔ 1999ءمیں شاھین دوسرے نمبر پر رہے۔ اور 1987ء اور 1996ء میں عالمی کپ کے مقابلے جزوی طور پر پاکستان میں ہوئے۔ پاکستان ٹی 20 قسم کے کھیل کے پہلے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہے جو سال 2007ء میں جنوبی افریقا میں کھیلا گیا تھا۔ اور سال 2009ء میں اسی قسم کے کھیل میں پہلے نمبر پر رہے اور عالمی کپ جیتا جو برطانیہ میں کھیلا گیا تھا۔ سال 2009ء کے مارچ کے مہینے میں دہشت گردوں نے سری لنکا کے کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا جو پاکستان کے دورے پر لاہور میں موجود تھی اور اسی کے ساتھ پاکستان میں عالمی کرکٹ عارضی طور پر بند ہو گئی۔ تاہم چھ سالوں کے طویل انتظار کے بعد مئی 2015ء میں عالمی کرکٹ پاکستان میں اس وقت بحال ہوئی جب زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ تمام مقابلے سخت حفاظتی حصار میں لاہور میں ہوئے اور تمام مقابلوں کے لیے ٹکٹ سارے بک چکے تھے اور کرسیاں ساری بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس نے دوسری ٹیموں کے آنے کے لیے بھی راہ ہموار کر لی۔ ورزشی کھیلوں میں عبد الخالق نے سال 1954ء اور سال 1958ء کے ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا۔ اس نے 35 سونے کے طمغے اور 15 عالمی چاندی اور پیتل کے طمغے پاکستان کے لیے حاصل کیے۔
اسکواش میں پاکستان کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی جہانگیر خان ہیں جن کو عالمی معیار کا کھلاڑی اور کھیلوں کی تاریخ میں عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے اور ساتھ ہی جانشیر خان ہیں جنھوں نے عالمی اسکواش کے مقابلوں میں کئی بار پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔
صحت عامہ
ترمیمدیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ پاکستان میں رہنے والے ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج درمیانے سے لے کر اعلیٰ طبقے کے ليے مخصوص ہے۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی حالت ابتر ہے۔
تعطيلات
ترمیمتعطيل | نام | وجہ |
---|---|---|
12 ربیع الاول | جشن عید میلاد النبی | ولادت نبی کریم حضرت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ |
10 ذوالحجۃ | عيد الاضحى | حضرت ابراہيم علیہ السلام کی قربانی کی ياد ميں |
1 شوال | عيد الفطر | رمضان کے اختتام پر اللہ كى نعمتوں كى شكرگزارى كا دن |
1 مئی | يوم مزدور | مزدوروں کا عالمی دن |
14 اگست | يوم آزادی | اس دن 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا ہوا |
6ستمبر | یوم دفاع | 1965 کی تاریخی فتخ |
11ستمبر | وفات قائد | قائد اعظم کی وفات کا دن |
28ستمبر | یوم تکبیر | پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے |
25 دسمبر | ولادت قائد | قائد اعظم کی ولادت کا دن |
23 مارچ | يوم پاکستان | 1940میں اس روز منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی |
5 فروری | یومِ یکجہتیِ کشمیر | کشمیری عوام کیساتھ یکجہتی کا دن |
قومی چیزیں
ترمیمپاکستان کی قومی علامات | |
---|---|
پرچم | ّپرچم |
نشان | پاکستان کی ریاستی علامت |
قومی ترانہ | پاک سر زمین |
جانور | مارخور |
پرندہ | چکور |
پھول | یاسمین |
درخت | دیودار |
مشروب | گنے کا رس |
کھیل | ہاکی |
لباس | شلوار قمیض |
ماخذ: [14] | |
- قومی دن – یوم پاکستان، 23 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور اسی دن پاکستان کا پہلا آئین 1956ء میں منظور ہوا۔
- قومی شاعر – حکیم الامت حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
- قومی پرچم - اصل مضمون کے لیے دیکھیں قومی پرچم
- گہرا سبز رنگ جس پر ہلال اور پانچ کونوں والا ستارہ بنا ہوا ہے۔ جھنڈے میں شامل سبز رنگ مسلمانوں کی، سفید رنگ کی پٹی پاکستان میں آباد مختلف مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ قومی پرچم گیارہ اگست 1947ء کو لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا۔
- قومی پھول - پاکستان کا قوی پھول چنبیلی (یاسمین) ہے۔ دیگر 45 پھولوں کے نام بھی جان سکتے ہیں۔
- قومی پھل - پاکستان کا قومی پھل آم ہے۔ دیگر 45 پھلوں کے نام بھی جان سکتے ہیں۔
- قومی لباس - شلوار قمیض، جناح کیپ، شیروانی (سردیوں میں)
- جانور – مارخور قومی جانور ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں پائے جانے والے منفرد جانور نیل گائے، چنکارہ، کالا ہرن، ہرن، چیتا، لومڑی، مارکوپولو بھیڑ، سبز کچھوا، نابینا ڈولفن، مگرمچھ ہیں۔
- قومی پرندہ - پاکستان کا قومی پرندہ چکور ہے۔
- قومی مشروب – گنے کا رس
- قومی کھانا - غیر سرکاری طور پر نہاری۔
- قومی نعرہ - پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ
- یہ نعرہ مشہور شاعر اصغر سودائی نے 1944ء میں لگایا جو تحریک پاکستان کے دوران میں بہت جلد زبان زدوعام ہو گیا۔ (قابل اعتبار حوالہ درکار ہے) ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔
- قومی ترانہ - قومی ترانے کے لیے دیکھیں مضمون قومی ترانہ
ریاستی نشان
ترمیمریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔
چاند اور ستارہ جو روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔ شیلڈ کے اردگرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔ علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔
آبادیات
ترمیمآبادی
ترمیمپاکستان کی زیادہ تر آبادی ملک کی وسطی علاقوں میں ہے، ملک کے جنوب میں زیادہ آباد مقامات اکثر دریائے سندھ کے آس پاس پر واقع ہے جن میں سب سے زیادہ آبادی والا علاقہ کراچی ہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔
بلحاظ سال آبادی
ترمیمسال | آبادی | افرادی اضافہ | فیصد اضافہ |
---|---|---|---|
1950 | 40,381,000 | ||
1951 | 41,347,000 | 965,000 | 2.39 |
1952 | 42,342,000 | 995,000 | 2.41 |
1953 | 43,372,000 | 1,030,000 | 2.43 |
1954 | 44,434,000 | 1,062,000 | 2.45 |
1955 | 45,536,000 | 1,102,000 | 2.48 |
1956 | 46,680,000 | 1,144,000 | 2.51 |
1957 | 47,869,000 | 1,189,000 | 2.55 |
1958 | 49,104,000 | 1,235,000 | 2.58 |
1959 | 50,387,000 | 1,283,000 | 2.61 |
1960 | 51,719,000 | 1,332,000 | 2.64 |
1961 | 53,101,000 | 1,382,000 | 2.67 |
1962 | 54,524,000 | 1,423,000 | 2.68 |
1963 | 55,988,000 | 1,464,000 | 2.69 |
1964 | 57,495,000 | 1,507,000 | 2.69 |
1965 | 59,046,000 | 1,551,000 | 2.70 |
1966 | 60,642,000 | 1,596,000 | 2.70 |
1967 | 62,282,000 | 1,640,000 | 2.70 |
1968 | 63,970,000 | 1,688,000 | 2.71 |
1969 | 65,706,000 | 1,736,000 | 2.71 |
1970 | 67,491,000 | 1,785,000 | 2.72 |
1971 | 69,326,000 | 1,835,000 | 2.72 |
1972 | 71,121,000 | 1,795,000 | 2.59 |
1973 | 72,912,000 | 1,791,000 | 2.52 |
1974 | 74,712,000 | 1,800,000 | 2.47 |
1975 | 76,456,000 | 1,744,000 | 2.33 |
1976 | 78,153,000 | 1,697,000 | 2.22 |
1977 | 80,051,000 | 1,898,000 | 2.43 |
1978 | 82,374,000 | 2,323,000 | 2.90 |
1979 | 85,219,000 | 2,845,000 | 3.45 |
1980 | 88,097,000 | 2,878,000 | 3.38 |
1981 | 90,975,000 | 2,878,000 | 3.27 |
1982 | 94,096,000 | 3,121,000 | 3.43 |
1983 | 96,881,000 | 2,785,000 | 2.96 |
1984 | 99,354,000 | 2,473,000 | 2.55 |
1985 | 102,079,000 | 2,725,000 | 2.74 |
1986 | 105,240,000 | 3,161,000 | 3.10 |
1987 | 108,584,000 | 3,344,000 | 3.18 |
1988 | 112,021,000 | 3,437,000 | 3.17 |
1989 | 115,419,000 | 3,398,000 | 3.03 |
1990 | 118,816,000 | 3,397,000 | 2.94 |
1991 | 122,248,000 | 3,432,000 | 2.89 |
1992 | 124,962,000 | 2,714,000 | 2.22 |
1993 | 127,563,000 | 2,601,000 | 2.08 |
1994 | 130,746,000 | 3,183,000 | 2.50 |
1995 | 134,185,000 | 3,439,000 | 2.63 |
1996 | 137,911,000 | 3,726,000 | 2.78 |
1997 | 141,445,000 | 3,534,000 | 2.56 |
1998 | 144,885,000 | 3,440,000 | 2.43 |
1999 | 148,379,000 | 3,494,000 | 2.41 |
2000 | 152,429,000 | 4,050,000 | 2.73 |
2001 | 156,795,000 | 4,366,000 | 2.86 |
2002 | 160,269,000 | 3,474,000 | 2.22 |
2003 | 163,166,000 | 2,897,000 | 1.81 |
2004 | 166,224,000 | 3,058,000 | 1.87 |
2005 | 169,279,000 | 3,055,000 | 1.84 |
2006 | 172,382,000 | 3,103,000 | 1.83 |
2007 | 175,495,000 | 3,113,000 | 1.81 |
2008 | 178,479,000 | 2,984,000 | 1.70 |
2009 | 181,457,000 | 2,978,000 | 1.67 |
2010 | 184,405,000 | 2,948,000 | 1.62 |
2011 | 187,343,000 | 2,938,000 | 1.59 |
2012 | 190,284,285 | 2,941,285 | 1.57 |
2013 | 193,271,748 | 2,987,463 | 1.55 |
2014 | 196,228,805 | 2,957,057 | 1.53 |
اقوام متحدہ کی اعداد و شمار
ترمیمکُل آبادی (ہزروں میں) | آبادی عمر 0–14 (%) | آبادی عمر 15–64 (%) | آبادی عمر 65+ (%) | |
---|---|---|---|---|
1950 | 37,547 | 40.3 | 54.1 | 5.6 |
1955 | 41,109 | 40.3 | 54.8 | 4.9 |
1960 | 45,920 | 40.4 | 55.3 | 4.3 |
1965 | 51,993 | 41.6 | 54.5 | 3.9 |
1970 | 59,383 | 42.6 | 53.6 | 3.8 |
1975 | 68,483 | 43.2 | 53.1 | 3.7 |
1980 | 80,493 | 43.4 | 52.9 | 3.7 |
1985 | 95,470 | 43.4 | 52.9 | 3.8 |
1990 | 111,845 | 43.7 | 52.5 | 3.8 |
1995 | 127,347 | 43.3 | 52.9 | 3.8 |
2000 | 144,522 | 41.4 | 54.7 | 3.9 |
2005 | 158,645 | 38.1 | 57.8 | 4.1 |
2011 | 173,593 | 35.4 | 60.3 | 4.3 |
زبانیں
ترمیمپاکستان آپسی محبت اور اتحاد کا ایک اعلیٰ مثال ہے کیونکہ یہاں پہ مختلف علاقوں اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ متحد رہتے ہیں۔ جہاں پہ ہماری بہت سے زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے ایک ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے علاوہ چار صوبائی زبانیں اور بہت سے اور زبانیں بولی جاتی ہیں۔
پاکستان میں کئی زبانیں بولی، لکھی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 65 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی پاکستان کی سرکاری زبان ہے، تمام معاہدے اور سرکاری کام انگریزی زبان میں ہی طے کیے جاتے ہیں، جبکہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔
پاکستان کی صوبائی زبانوں میں پنجابی صوبہ پنجاب، پشتو صوبہ خیبر پختونخوا، سندھی صوبہ سندھ، بلوچی صوبہ بلوچستان اور شینا صوبہ گلگت بلتستان میں تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ [16]
پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں، آیر، سرائیکی زبان، بدیشی، باگڑی، بلتی، بٹیری، بھایا، براہوی، بروشسکی، چلیسو، دامیڑی، دیہواری، دھاتکی، ڈوماکی، فارسی، دری، گواربتی، گھیرا، گوریا، گوورو، گجراتی، گوجری، گرگلا، ہزاراگی، ہندکو، جدگلی، جنداوڑا، کبوترا، کچھی، کالامی، کالاشہ، کلکوٹی، کامویری، کشمیری، کاٹی، کھیترانی، کھوار، انڈس کوہستانی، کولی (تین لہجے)، لہندا لاسی، لوارکی، مارواڑی، میمنی، اوڈ، اورمڑی، پوٹھواری، پھالولہ، سانسی، ساوی، شینا (دو لہجے)، توروالی، اوشوجو، واگھری، وخی، وانیسی اور یدغہ شامل ہیں۔[17]
ان زبانوں میں بعض کو عالمی طور پر خطرے میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ان زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد نسبتاً نہایت قلیل رہ گئی ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند فارس شاخ اور ہند یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان کے ضلع چترال کو دنیا کا کثیرالسانی خطہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس ضلع میں کل چودہ زبانیں بولی جاتی ہیں- ي سرا سنکے عمران خان سب سے اچھا ہے
تعلیم یافتگی
ترمیمجنس | شرح تعلیم (2008ء) |
---|---|
مرد | 70% |
خواتین | 45% |
کُل آبادی | 60% |
تعلیمی ادارے بلحاظ زمرہ جات
ترمیمزمرہ | تعداد |
---|---|
پرائمری اسکول | 156,592 |
مڈل اسکول | 320,611 |
ہائی اسکول | 23,964 |
آرٹ اور سائنس کالج | 3,213 |
ڈگری کالج | 1,202 |
تکنیکی اور وکیشنل انسٹی ٹیوٹ | 3,125 |
یونیورسٹی | 188 |
ویکی ذخائر پر پاکستان سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
اہم شہر
ترمیم2017ء کی مردم شماری کے مطابق، دو بڑے شہر ہیں، جن کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے اور 100 شہر ہیں جن کی آبادی 100,000 یا اس سے زیادہ ہے۔ ان 100 شہروں میں سے 58 ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں، 22 سندھ میں، 11 خیبرپختونخوا میں، چھ بلوچستان میں، دو آزاد کشمیر میں اور ایک اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ میں واقع ہے۔ گلگت بلتستان نے ابھی تک 2017ء کی مردم شماری کے کوئی نتائج عوامی طور پر جاری نہیں کیے ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر گلگت تھا، جس کی آبادی 56,701 تھی۔
- صوبائی دار الحکومت
- وفاقی دار الحکومت
- ڈویژنل دار الحکومت
درجہ | شہر | آبادی (مردم شماری 2017ء)[18][19][20] |
آبادی (1998 کی مردم شماری)[18][21][20] |
تبدیلی | صوبہ |
---|---|---|---|---|---|
1 | کراچی | 14,916,456 | 9,339,023 | +59.72% | سندھ |
2 | لاہور | 11,126,285 | 5,209,088 | +113.59% | پنجاب، پاکستان |
3 | فیصل آباد | 3,204,726 | 2,008,861 | +59.53% | پنجاب، پاکستان |
4 | راولپنڈی | 2,098,231 | 1,409,768 | +48.84% | پنجاب، پاکستان |
5 | گوجرانوالہ | 2,027,001 | 1,132,509 | +78.98% | پنجاب، پاکستان |
6 | پشاور | 1,970,042 | 982,816 | +100.45% | خیبر پختونخوا |
7 | ملتان | 1,871,843 | 1,197,384 | +56.33% | پنجاب، پاکستان |
8 | حیدرآباد | 1,734,309 | 1,166,894 | +48.63% | سندھ |
9 | اسلام آباد | 1,009,832 | 529,180 | +90.83% | وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد |
10 | کوئٹہ | 1,001,205 | 565,137 | +77.16% | بلوچستان |
11 | بہاولپور | 762,111 | 408,395 | +86.61% | پنجاب، پاکستان |
12 | سرگودھا | 659,862 | 458,440 | +43.94% | پنجاب، پاکستان |
13 | سیالکوٹ | 655,852 | 421,502 | +55.60% | پنجاب، پاکستان |
14 | سکھر | 499,900 | 335,551 | +48.98% | سندھ |
15 | لاڑکانہ | 490,508 | 270,283 | +81.48% | سندھ |
16 | شیخوپورہ | 473,129 | 280,263 | +68.82% | پنجاب، پاکستان |
17 | رحیم یار خان | 420,419 | 233,537 | +80.02% | پنجاب، پاکستان |
18 | جھنگ | 414,131 | 293,366 | +41.17% | پنجاب، پاکستان |
19 | ڈیرہ غازی خان | 399,064 | 190,542 | +109.44% | پنجاب، پاکستان |
20 | گجرات | 390,533 | 251,792 | +55.10% | پنجاب، پاکستان |
فہرست متعلقہ مضامین پاکستان
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "صفحہ پاکستان في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اکتوبر 2024ء
- ↑ باب: 251
- ↑ https://www.worldometers.info/world-population/pakistan-population/
- ^ ا ب https://www.pbs.gov.pk/sites/default/files/population/2017/national.pdf
- ↑ http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
- ↑ مدیر: عالمی ٹیلی مواصلاتی اتحاد — International Numbering Resources Database — اخذ شدہ بتاریخ: 8 جولائی 2016
- ↑ مدیر: عالمی ٹیلی مواصلاتی اتحاد — International Numbering Resources Database — اخذ شدہ بتاریخ: 10 جولائی 2016
- ↑ https://data.iana.org/time-zones/tzdb-2021e/asia
- ↑ http://chartsbin.com/view/edr
- ↑ https://books.google.no/books?id=OTMy0B9OZjAC&printsec=frontcover&dq=pakistan&hl=no&sa=X&ved=0ahUKEwjVrI6T183lAhUExqYKHWsrDh8Q6AEIPjAC#v=onepage&q=pakistan&f=false
- ↑ آئین پاکستان (اردو میں)
- ↑ https://gbtribune.files.wordpress.com/2012/09/self-governance-order-2009.pdf
- ^ ا ب "Pakistan: largest cities and towns and statistics of their population"۔ World Gazetteer۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اگست 2012
- ↑ "National Symbols of Pakistan"۔ Ministry of Culture, Government of Pakistan۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2011
- ↑ عقیل عباس جعفری (2010)۔ پاکستان کرونیکل (بزبان اردو) (First ایڈیشن)۔ 94/1, 26th St.، Ph. 6, D.H.A.، کراچی: Wirsa Publications۔ صفحہ: 880۔ ISBN 9789699454004
- ↑ "پاکستان کی زبانیں"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2009
- ↑ گارڈن، ریمنڈ (2005)۔ "پاکستان کی علاقائی زبانیں"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2009
- ^ ا ب
- ↑
- ^ ا ب "PAKISTAN: Provinces and Major Cities"۔ PAKISTAN: Provinces and Major Cities۔ citypopulation.de۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مئی 2020
- ↑ "AZAD JAMMU & KASHMIR AT A GLANCE 2014" (PDF)۔ AJK at a glance 2014.pdf۔ AZAD GOVERNMENT OF THE STATE OF JAMMU & KASHMIR۔ 11 February 2017۔ 30 جون 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2020
بیرونی روابط
ترمیم
|