پی ٹی آئی غیر ملکی عطیات تنازعہ
پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس یا محض فارن فنڈنگ کیس پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر ایک الزام ہے جس کے مطابق اس جماعت نے غیر ملکی شہریوں اور کمپنیوں سے فنڈز حاصل کیے، فنڈز کو کم تخمینہ لگایا اور 53 بینک اکاؤنٹس چھپائے۔ [1]
پانچ سال میں 70 سے زائد سماعتیں۔[2]
تحریکِ انصاف کی جانب سے جمع کروائی گئی کم از کم 30 درخواستِ التوا اور پانچ مختلف اعلی عدالتوں کے پاس الیکشن کمیشن میں سماعت کے خلاف دائر درخواستیں۔[2]
الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کو اکاونٹس کا ریکارڈ جمع کروانے کے لیے دیے گئے 21 نوٹس۔[2]
پس منظر
ترمیمپی ٹی آئی کے سابق رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں الیکشن کمیشن میں پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس پر ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی نے عدالت میں 96 سماعتیں کیں۔
چار دسمبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فارن فنڈنگ کیس میں درخواست گزار اور تحریک انصاف کے سابق عہدے دار اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کا رکن قرار دیتے ہوئے اس کیس کو مزید شنوائی کے لیے واپس الیکشن کمیشن آف پاکستان بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا۔-[3]
بابر نے الزام لگایا کہ دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے اور پی ٹی آئی نے ان بینک اکاؤنٹس کو الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔ [4] [5] [6]
اکبر ایس بابر کے مطابق،تحریک انصاف کے بیرونی ممالک میں اکاوئنٹس اور کمپنیوں کے دعوے،-[3]
- امریکا میں دو لمٹیڈ لائیبلٹی کمپنیاں (ایل ایل سی) نمبر 5957 اور ایل ایل سی نمبر 6160 عمران خان کے دستخط سے رجسڑڈ کروائی گئیں اور ان سے 1,998,700 ڈالر اور 669,000 ڈالر پارٹی کو منتقل ہوئے۔
- آسڑیلیا میں انصاف آسڑیلیا انکارپوریٹڈ کے نام سے رجسڑ کروایا گیا۔ جس کا بزنس نمبر 45838549859 ہے۔ آسڑیلیا، نیوزی لینڈ بیکنگ گروپ کے ذریعے سے 35, 200 آسڑیلین ڈالر پاکستان منگوائے گئے تھے۔
- برطانیہ میں تحریک انصاف یو کے کو رجسڑ کروایا گیا اور دو بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوائے گے۔ وہاں سے بھی رقوم پاکستان منتقل ہوئیں۔
- ڈنمارک سے 249,669 کرونا منگوائے گئے۔
- سعودی عرب سے 8,370,880 روپے منگوائے گے۔ اسی طرح سعودی عرب سے سالانہ 25.6 ملین روپے آتے رہے۔
- متحدہ عرب امارات سے سالانہ 22.42 ملین روپے آتے رہے۔
- کویت سے سالانہ 2.89 ملین روپے آئے۔
- قطر سے سالانہ 0.80 ملین روپے آئے۔
- بحرین سے سالانہ 930,123 روپے آئے۔-[3]
اکبر ایس بابر کا دعوی تھا کہ ان سب اکاوئنٹس کی کاپیاں درخواست کے ساتھ منسلک ہیں اور یہ ان رقوم کی تفصیل ہے جو بینکوں کے ذریعے سے آئی ہے۔
ان کا دعوی تھا کہ تحریکِ انصاف ہر سال 52 ملین روپے ہنڈی کے ذریعے منگواتی تھی اور اس کے ثبوت بھی انھوں نے فراہم کیے۔-[3]
الیکشن کمیشن کی کارروائی
ترمیمعمران خان نے بطور پارٹی چیئرمین ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے۔--[3]
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے برعکس اکبر ایس بابر کا سنہ 2011 سے پاکستان تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی جانب سے پارٹی چھوڑتے وقت پارٹی چیئرمین کو جو ای میل کی گئی تھی وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کا اختیار استعمال کرتے ہوئے متنازع حقائق پر فیصلہ نہیں دے سکتی جبکہ اکبر ایس بابر فارن فنڈنگ کیس میں متاثرہ فریق بھی نہیں ہیں۔-[3]
الیکشن کمیشن اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ
ترمیمالیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے قائم کردہ اسکروٹنی کمیٹی کی 225 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن میں 12 بینک اکاؤنٹس کا انکشاف کیا جب کہ 53 اکاؤنٹس کو پوشیدہ رکھا۔ اس کے علاوہ 31 کروڑ روپے سے زائد کے عطیات بھی الیکشن کمیشن کو ظاہر نہیں کیے ۔ پی ٹی آئی نے 77 میں سے صرف 12 بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ اور کینیڈا کے اکاؤنٹس تک رسائی نہیں دی گئی۔ [7] [8]
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2008 اور 2009، 2012 اور 2013 میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 1.33 ارب روپے کے عطیات ظاہر کیے ۔ ای سی پی کو عطیات کے حوالے سے غلط معلومات دی گئیں کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بیان میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی نے 1.64 ارب روپے کے عطیات وصول کیے جن میں سے 31 کروڑ روپے چھپائے گئے۔ [9] [10]
پاکستان تحریک انصاف کا موقف
ترمیم2 اگست 2022 کے اس فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے تمام الزامات کا بھرپور جواب دیا ۔ [11]
تاہم رواں برس تحریک انصاف کی طرف سے جو بیان الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کو پیش کیا گیا اس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اگر بیرون ممالک سے حاصل ہونے والے چندے میں کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اُس ایجنٹ پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات اس کام کے لیے حاصل کی جاتی ہیں۔۔ [11]
تحریک انصاف کے سیکرٹری فنانس سردار اظہر طارق خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اکبر ایس بابر کی جانب سے لگائے گے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں-[3]
ان کے مطابق اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا گیا تھا جس کے بعد وہ ذاتی رنجش کا بدلہ لینے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔
’اس کیس کو فارن فنڈنگ کا نام دینا ہی بڑی بدنیتی ہے۔ تحریک انصاف نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے جو فنڈز حاصل کیے ہیں وہ ان ممالک کے قوانین اور پاکستان کے قوانین کے مطابق حاصل کیے ہیں جن کا مکمل ریکارڈ موجود ہے اور اس کا آڈٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کیا گیا ہے۔-[3]
خط زمانی
ترمیمکیس میں پیشرفت
ترمیم- اکبر ایس بابر نے 14 نومبر 2014 کو درخواست دائر کی تھی۔ اس کی ابتدائی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کو سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔
- الیکشن کمیشن میں ابتدائی سماعت کے بعد باقاعدہ سماعت ہوئی۔ یکم اپریل 2015 کو الیکشن کمیشن نے حکم جاری کیا کہ تحریک انصاف نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں حاصل ہونے والے فنڈز اور ان کے ذرائع کی تمام تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
- تحریک انصاف نے اس فیصلے کو الیکشن کمیشن کے سامنے ہی چیلنج اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اکاؤنٹ کا آڈٹ کرے۔
- الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کی یہ درخواست خارج کردی۔
- 26 نومبر 2015 کو تحریک انصاف نے اسلام ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ کار اور درخوست گزار اکبر ایس بابر کی حیثیت کو چیلنج کر دیا۔ یہ مقدمہ تقریباً ایک سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہا۔
- 17فروری 2017 کو یہ کیس دوبارہ الیکشن کمیشن کو اس حکم کے ساتھ بھجوا دیا گیا کہ وہ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی حیثیت کی جانچ کریں۔
- الیکشن کمیشن نے دوبارہ سماعت کی اور انھیں اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف سے نکالے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
- 10 نومبر 2015 کو تحریک انصاف کے فنڈز کی سکروٹنی ہونی تھی جس پر پارٹی نے دوبارہ عدالتوں سے رجوع کیا۔
- 26 نومبر 2015 کو عمران خان نے پٹیشن دائر کی کہ وہ فنڈز کی سکروٹنی کے حوالے سے عام شہریوں کو جوابدہ نہیں ہیں۔
- تحریک انصاف کی جانب سے مختلف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کے سبب الیکشن کمیشن میں سماعت عارضی طور پر رک گئی۔-[3]
الیکشن کمیشن میں کارروائی
ترمیم- اعلیٰ عدالتوں سے حکم امتناعی خارج ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن کمیشن میں سماعت کا آغاز ہوا۔ مارچ 2018 میں فنڈز کی سکروٹنی کے لیے کمیٹی قائم کر دی۔
- تین جولائی 2018 کو الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ تحریک انصاف ضروری تفصیلات فراہم نہیں کر رہی ہے جس پر سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 2009 سے لے کر 2013 تک تحریک انصاف کے بینک اکاوئنٹ طلب کیے گئے۔
- سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تحریک انصاف کے 23 بینک اکاوئنٹس کی تفصیلات فراہم کی گئیں جبکہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے پاس آٹھ اکاوئنٹس کی تفصیلات فراہم کی تھیں۔
- اکتوبر 2018 میں سکروٹنی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔
- ایک آڈیٹر کی تبدیلی کے بعد دوسرے آڈیٹر کی نامزدگی کی گئی۔
- نئی سکروٹنی کمیٹی کا اجلاس مارچ 2019 میں ہوا جس میں تحریک انصاف سے 10 مالیاتی دستاویزات طلب کی گئیں۔
- مئی میں ایک اور اجلاس ہوا مگر کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔ اسی اجلاس کے دوران تحریک انصاف نے سکروٹنی کمیٹی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی کہ سکروٹنی کے عمل کو خفیہ رکھا جائے۔
- اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 10 اکتوبر کو تحریک انصاف کو نوٹس لکھ کر تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے سکروٹنی کمیٹی کو کارروائی جاری رکھنے کا کہا گیا۔
- 29 اکتوبر 2019 کو کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ تحریک انصاف کے اکاؤنٹنٹ تو پیش ہوئے مگر وکلا نے بائیکاٹ کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ ان کی ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
- نومبر 2019 میں بھی اجلاس کی کارروائی نہ چل سکی۔ تحریک انصاف کے وکل کی جانب سے موقف پیش کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے۔
- -[3]
- 2 اگست 2022 کو الیکشن کمیشن نے عمران خان کے خلاف فیصلہ سنایا ۔
مزید پڑھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Syed Irfan Raza | Iftikhar A. Khan (January 5, 2022)۔ "PTI tried to keep lid on foreign accounts, reveals ECP"۔ DAWN.COM
- ^ ا ب پ "پاکستان تحریکِ انصاف کے خلاف دائر فارن فنڈنگ کیس: ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟"۔ 11-26-2019
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ "فارن فنڈنگ کیس: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا"۔ بی بی سی اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 01-25-2022
- ↑ "Foreign funding case: Imran Khan's 'friend' offered to make me chairman Senate, says Akbar S Babar"۔ www.thenews.com.pk
- ↑ "PTI received prohibited funding from 12 countries, claims Akbar S. Babar"۔ Dunya News
- ↑ "Babar issues report on PTI foreign funding"۔ 13 July 2021
- ↑ Iftikhar A. Khan (January 19, 2022)۔ "ECP declassifies key documents in PTI foreign funding case"۔ DAWN.COM
- ↑ "PTI foreign funding: Millions of dollars transactions not shared with ECP"۔ www.thenews.com.pk
- ↑ "PTI foreign funding case: Source of $0.43m transactions remains unexplained"۔ www.thenews.com.pk
- ↑ Iftikhar A. Khan (March 1, 2022)۔ "Bank delayed revealing PTI's foreign donations until 2018 polls"۔ DAWN.COM
- ^ ا ب "پی ٹی آئی پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈنگ کا الزام ثابت، الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس جاری کر دیا"۔ بی بی سی اردو۔ 8-2-2022