گوتم بدھ کے وضع کردہ مذہب کے کلیدی فکری نظام کی پوری عمارت جس بنیاد پر استوار ہے اس کی تشکیل چار عظیم سچائیاں کرتی ہیں۔ یہ سچائیاں بدھ فکر میں اساسی درجہ کی حامل ہیں جن میں گوتم کا بنیادی فلسفہ مضمر ہے۔ ان حقائق کو مہاتما بدھ نے شب نجات تیسرے پہر نروان حاصل کرنے سے کچھ دیر پہلے دریافت کیا۔ ان سچائیوں کی تشریح کے لیے گوتم کی تعلیمات میں جو حصہ ہمیشہ سند گردانا جاتا رہا ہے وہ ان کا پہلا اپدیش یا وعظ ہے۔[1][2] اس وعظ میں گوتم نے اپنے منحرف شاگردوں سے جو کچھ کہا اس کے مطابق ”چار عظیم سچائیاں“ مندرجہ ذیل ہیں:

  1. دکھ: زندگی میں تکلیف ہیں۔
  2. سمُدے: تکلیف کی وجہ ہے۔
  3. نرودھ: تکلیف سے نجات ہے۔
  4. مارگ: نجات پانے کا راستہ ہے۔

پہلی عظیم سچائی: دُکھ

ترمیم

پہلی عظیم سچائی ”دُکھ“ ہے۔ یہ زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ گوتم بدھ کے خیال میں جسمانی تکالیف، بیماری، ذہنی پریشانی، حالات کا جبر، عزیزوں سے جدائی اور قابل نفرت لوگوں کی صحبت کے علاوہ زندگی کی عارضی مسرتیں اور عیاشیاں بھی آخر کار دکھ کا باعث ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ خوشیاں مستقل نہیں ہوتیں اسی لیے جب غم ان کی جگہ گھیرتا ہے تو دُکھ کی افزائش ہوتی ہے۔ تغیر پزیر، کسی مستقل عنصر سے محروم اور کھوکھلی زندگی بجائے خود دُکھ کا بڑا باعث اور اِنسان کے لیے غیر تسلی بخش صورت حال پیدا کرنے کی محرک ہوتی ہے۔[3]

دُکھ کی اقسام

ترمیم

بدھ مت میں پہلی سچائی یعنی ”دُکھ“ کی تین مختلف اِقسام بتائی گئی ہیں جو کچھ اِس طرح ہیں۔

  1. وہ دُکھ جسے اس کے عمومی مظاہر کے ساتھ ہر شخص محسوس کرتا ہے۔
  2. وہ دُکھ جسے زندگی میں مستقل عنصر کی موجودگی کے بغیر ایک سلسلہ علت و معلول کی پابند نمود کے باعث محسوس کیا جائے۔
  3. وہ دکھ جو بے ثبات اور تغیر پزیر زندگی کے باعث پیدا ہوتا ہے۔

گوتم بدھ کا فرمان

ترمیم
بھکشوؤ! یہی دُکھ ہے، یہ اولین سچائی ہے۔ پیدائش بھی دُکھ، بیماری بھی دُکھ اور موت بھی دُکھ۔[3]

دوسری عظیم سچائی: دُکھ کی علت

ترمیم

دوسرا عظیم سچ یہ ہے کہ دُکھ کے اس ازلی اور ابدی کارواں کی کہیں نہ کہیں کوئی بنیادی اور حقیقی علت ضرور ہوتا ہے۔ دُکھ کے لامحدود سلسلے کا اصلی سبب اور علت گوتم کے مطابق خواہش ہے۔ یہی خواہش، طلب اور آرزو انسان کو اس دنیا میں جنم لینے پر مجبور کرتی ہے اور پھر زندگی بھر اسے مختلف صورتوں میں اپنی تسکین کے سامان ڈھونڈنے پر لگائے رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان جس طرح ناآسودہ اس دنیا میں آتا ہے اسی طرح غیر مطمئن رخصت ہوجاتا ہے، لیکن طلب کے جال اسے کسی اور جنم پھنسا کر پھر اس لافانی دنیا میں لا پھینکتے ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ ازل تا ابد قائم رہتا ہے۔ نہ کسی انسان کے اولین جنم کی معلوم ہوتی ہے اور نہ جنم مرن کے اس چکر کی انتہا ہی کسی کی سمجھ میں آتی ہے۔ گوتم کے مطابق اس جنم در جنم سلسلے کے پس منظر میں بھی قوت محرکہ کے طور پر خواہش ہی کار فرما ہے۔[4]

گوتم بدھ کا فرمان

ترمیم
بھکشوؤ! میری نظر میں خواہش اور طلب جیسی اور کوئی چیز نہیں ہے جس سے بندھی ہوئی مخلوقات ایک کے بعد دوسرے جنم میں طویل عرصہ سے چکر کاٹ رہی ہیں۔ یقین جانو بھکشوؤ! اسی خواہش کی زنجیر میں جکڑی ہوئی مخلوقات وجودوں کی طلسمی نگری میں منڈلاتی رہتی ہیں۔

تیسری عظیم سچائی: دُکھ کی انسداد

ترمیم

تیسری عظیم سچائی یہ ہے کہ دُکھ کے اس سلسلے کا اگر کوئی بنیادی سبب ہے جیسا کہ دوسری سچائی سے ثابت ہے تو پھر اس کا انسداد بھی ممکن ہے۔ خواہش یا حرص و آز کو صرف جاری زندگی یا آئندہ زندگیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دُکھ کا بنیادی سبب قرار دینا اس لیے بھی مناسب ہے کہ جاری زندگی میں اگر اس علت کو کسی ڈھنگ سے متاثر کر دیا جائے تو بقیہ زندگی اور آئندہ جنم میں دُکھ کا انسداد ناممکن الحصول امر رہتا۔ البتہ گذشتہ جنموں کے اسباب چونکہ پہلے سے متعین ہو چکے ہوتے ہیں لہٰذا اس سچائی کا اطلاق ماضی کی بجائے صرف حال اور مستقبل کی زندگی پر ہی ہو سکتا ہے۔ اس سچائی کے مطابق خواہش کو متاثر کر کے دُکھ کا ازلی اور ابدی جال توڑا جا سکتا ہے اور انسان جنم اور مرن کے چکر سے ہمیشہ کے لیے نجات پاکر نروان کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔

گوتم کے بقول یہ اسی لیے ممکن ہے اگر سبب اور مسبب کے فطری قانون کے تحت وجود کا کاروان درجہ بدرجہ سفر کرتا ہے تو اسی منطق کی رو سے ایک سبب غائب ہونے پر اس کا مسبب بھی ختم ہو جائے گا۔ تیسرے عظیم سچ کا مقصد ہے دُکھ کے سبب کے خاتمہ سے سلسلہ دکھ کا مکمل خاتمہ۔[5]

چوتھی عظیم سچائی: دُکھ سے نجات کا راستہ

ترمیم

چوتھی عظیم سچائی وہ آٹھ نکاتی راستہ ہے جس پر چل کر دکھوں کے سلسلہ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی تین سچائیاں بدھ مت کے نظریاتی اصولوں سے متعلق ہیں اور چوتھی سچائی وہ عملی طریقہ بیان کرتی ہے جن کے اختیار کرنے سے دکھ دور ہوتے ہیں اور نجات قریب آ جاتی ہے۔ دکھ سے نجات کا یہ ہشت پہلو راستہ چونکہ آٹھ عملی اصولوں پر مشتمل ہے لہٰذا اسے ”اشٹانگ مارگ“ کہا جاتا ہے۔[6]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. The Four Noble Truths by Dalai Lama ISBN 978-0-7225-3550-9
  2. Gyatso, L., The Four Noble Truths (Snow Lion, 1994).
  3. ^ ا ب Harvey, Peter. “Dukkha, Non-Self, and the Teaching on the Four ‘Noble Truths.’” In A Companion to Buddhist Philosophy. 1st ed. Edited by Steven M. Emmanuel, 26–45. Blackwell Companions to Philosophy 50. Chichester, UK: Wiley-Blackwell, 2013b.
  4. Thich Nhat Hanh, The Heart of the Buddha's Teaching (Broadway Books, 1999).
  5. Venerable Ajahn Sumedho, The Four Noble Truths (Aruna Publications, 2017).
  6. Osho, The Dhammapada Vol. 6. (The Rebel Publishing House, 1991).