چاہ یوسف
نواح شام میں، طبریہ کے نزدیک، ایک کنواں۔ روایت ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی ان کو سیر کرانے کے بہانے جنگل میں لے گئے اور باہم مشورہ کرکے انھیں ایک ایسے کنویں میں ڈال دیا جو عرصے سے خشک پڑا تھا۔ حجازی اسماعیلیوں کا ایک قافلہ سامان تجارت لیے شام سے مصر کی طرف جا رہا تھا۔ کنواں دیکھ کر اہل قافلہ نے پانی کے لیے اس میں ڈول ڈالا جسے پکڑ کر حضرت یوسف کنویں سے باہر آ گئے۔ قافلے والوں نے انھیں غلام کے طور پر اپنے قافلے میں شامل کر لیا اور مصر لے گئے۔[1]
ادب میں چاہ یوسف
ترمیماردو ادب میں چاہ یوسف کا استعارہ کثرت سے استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ اردو شاعری میں میر تقی میر، الطاف حسین حالی، میر حسن، سلامت علی دبیر، یکتا امروہی، جواد حسین شمیم امروہی، میر انیس، یوسف تقی، میر ضامن علی جلال اور حمایت علی شاعر نے چاہ یوسف کو اپنی شاعری میں پیش کیا۔
- میر تقی میر
ہماری چاہ نہ یوسفؑ ہی پر ہے کچھ موقوف | نہیں ہے وہ تو کوئی اور اس کا بھائی ہو |
الطاف حسین حالی کا مشہور زمانہ شعر ہے
آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا | دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت |
مثنوی سحرالبیان میں مہر حسن نے قصہ یوسف زلیخا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ کئی اشعار میں چاہ یوسف کا ذکر کیا۔
کہاں چاہ والے ہیں یوسف عزیز | اری باولی! چاہ میں کر تمیز |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ چاہ یوسف - اردو_لغت[مردہ ربط]
- ↑ میر تقی میر۔ "خدا کرے کہ بتوں سے نہ آشنائی ہو"۔ ریختہ۔ مجلس ترقی ادب۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-05-22
- ↑ https://rekhta.org/ghazals/go-javaanii-men-thii-kaj-raaii-bahut-altaf-hussain-hali-ghazals?lang=ur چاہ یوسف سے صدا، حالی
- ↑ میر حسن۔ "مثنوی سحر البیان"۔ مجلس ترقی ادب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-05-22