میر انیس

(پیدائش: ١٨٠۳، فیض آباد-----وفات: ١٨٧٤، لکھنؤ)

میر انیس ؔ – میر ببر علی انیسؔ ( پیدائش: 1800– وفات: 10 دسمبر 1874ء) اردو زبان کے ممتاز ترین مرثیہ نگار، ، مرثیہ خواں شاعرتھے۔ میر انیس کی وجہ ٔ شہرت مرثیہ نگاری ہے جس میں آج تک اُن کے مقامِ سخن کو اُردو کا کوئی شاعر نہیں پہنچ سکا۔ انیسویں صدی میں مرثیے کو عروج تک لے جانے اور اُس کے مقامات کو نظم کرنے میں انیس کا کردار بہت زیادہ ہے۔انیس کا شمار دبستان لکھنؤ کے عظیم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔

میر انیس
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1800ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فیض آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 دسمبر 1874ء (73–74 سال)[1][3][4][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ [5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش لکھنؤ
فیض آباد   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر [7][4]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو [1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

حلیہ

ترمیم

انیس کا قد میانہ مائل بہ درازی تھا۔ ورزش کا شوق تھا جس کی وجہ سے بدن ٹھوس اور اعضاء چست و متناسب تھے۔ چھریرا بدن‘ چوڑا سینہ ‘ صراحی دار گردن‘ خوبصورت کتابی چہرہ‘ بڑی بڑی آنکھیں اور گیہواں رنگ تھا۔ مونچھیں ذرا بڑی رکھتے تھے اور داڑھی اِتنی باریک کترواتے تھے کہ دور سے مُنڈی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔[8]

لباس

ترمیم

میر انیس اپنی وضع اور اپنے اوقات کے بہت پابند تھے۔چوگوشیا ٹوپی، نیچا گھیر دار کُرتا، ڈھیلی مہری کا پائجامہ‘ درگھتیلا جوتا بالعموم پہنتے تھے۔ انیس کے زمانے میں ذی علیم اور ثِقَّہ ، شرفاء اور صلحاء کا یہی لباس ہوتا تھا۔ ہاتھ میں چھڑی اور رومال بھی ضرور ہوتا تھا۔[9]

مذہب

ترمیم

میر انیس کا آبائی اور خاندانی مذہب مذہبِ شیعہ تھا۔اِسی لحاظ سے انیس کی شہرت مرثیہ نگاری کی وجہ سے ہوئی کیونکہ اثناعشری عقائد کے مطابق شیعی پیروکار علی ابن ابی طالب اور حسین ابن علی سے زیادہ عقیدت رکھتے ہیں۔ اِسی بابت میر انیس کی حسین ابن علی کی شہادت سے متاثر ہوتے ہوئے مرثیہ نگاری کی ابتدا کی تھی۔[9]

تعلیم

ترمیم

مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے عربی، فارسی پڑھی۔ فنونِ سپہ گری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ فنِ شہسواری سے بخوبی واقف تھے۔

شاعری و مرثیہ گوئی

ترمیم

شعر میں اپنے والد سے اصلاح لیتے تھے۔ پہلے حزیں تخلص تھا۔ شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیسؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں غزل کہتے تھے۔ مگر والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اور پھر کبھی غزل کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس خاندان میں شاعری کئی پشتوں سے چلی آتی تھی۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ میر امامی شاہ جہاں کے عہد میں ایران سے ہند میں آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر اعلیٰ منصب پر متمکن تھے۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولاد فصیح اردو زبان بولنے لگی۔ میر انیس کے پردادا اور میر حسن کے والد میر غلام حسین ضاحک اردو کے صاحبِ دیوان اور غزل گوشاعر تھے۔ گویا میر انیس کے گھر انے کی اردو شاعری کا معیار تین نسلوں سے متقاضی تھا کہ وہاں میر انیس جیسا صاحب سخن پروان چڑھے اور تا قیامت اہلِ ادب اُسے خدائے سخن کے نام سے پکارتے رہیں۔

غزل سے مرثیے تک

ترمیم

میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ

والد کی فرماں برداری میں غزل کو ایسا چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا۔

ناصر لکھنوی نے خوش معرکہء زیبا (مرتّبہ مشفق خواجہ کراچی ) میں لکھا ہے کہ غزلیں انھوں نے دانستہ ضاِئع کر دی تھیں مگر پندرہ سولہ غزلیں جو محققین کو دستیاب ہوئی ہیں وہ انیس کی غزل گوئی پر فنی قدرت کی واضح ترین دلیل ہیں۔ چند شعر دیکھیے

شہیدِ عشق ہوئے قیسِ نامور کی طرح
جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح
کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر کی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح
انیس یوں ہوا حالِ جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت گِرے ثمر کی طرح

یہ اشعار بھی دیکھیے

نزع میں ہوں مری مشکل کرو آساں یارو
کھولو تعویذِ شفا جلد مِرے بازو سے

………

انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

اپنے بیٹے میر نفیس کی ولادت کے بعد پہلے 1859ء میں مرثیہ پڑھنے عظیم آباد گئے۔ اور پھر 1871ء میں نواب تہور جنگ کے اصرار پر حیدر آباد دکن کا سفر کیا۔

وفات

ترمیم

میر انیس کا اِنتقال 29 شوال المکرم 1291 ھ مطابق بروز جمعرات10 دسمبر 1874ء کو دِن غروبِ آفتاب سے کچھ پہلے ہوا۔ رات کو غسل دیا گیا اور صبح سے کچھ پہلے (شبِ جمعہ) کو دفن کیے گئے۔[10]

لکھنوی ماحول اور انیس

ترمیم

مرثیہ کی میراث انیس کو اجداد سے منتقل ہوئی تھی مگر ان کی طبعِ رواں ذاتی لیاقت کربلا سے ایمانی وابستگی اور شاہانِ اودھ کے عہد حکومت میں لکھنؤ کے اندرعزاداری کے لیے مثالی ماحول کی دستیابی نے انیس کو مرثیہ نویسی اور مرثیہ خوانی کے فن میں طاقِ روزگار بنا دیا اور کچھ ہی عرصہ میں انیس نے سلاستِ زبان، ادائیگی اور حسنِ بیان میں اپنے عہد کے راسخ البیان مرثیہ گو استادجناب میرزا سلامت علی دبیر اور دیگر اساتذہ ٔفن کو بھی مقبولیت میں قدرے پیچھے چھوڑ دیا۔ انیس کا معمول تھا کہ شب بھر جاگتے اور مطالعہ و تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ ان کے پاس دوہزار سے زائد قیمتی اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود تھا۔ نمازِ صبح پڑھ کر کچھ گھنٹے آرام کرتے تھے۔ بعدِ دوپہر بیٹوں اور شاگردوں کے کلام کی اصلاح کرتے تھے۔ محفلِ احباب میں عقائد اور علوم وعرفانیات پر گفتگو کرتے تھے۔

مراثیِ انیس کی تعداد

ترمیم

میر ببر علی انیس کو دشت کربلا کا عظیم ترین سیّاح قرار دیا گیا ہے۔ اُن کے مرثیوں کی تعدا د بارہ سو (1200) کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے۔ مجلّہ نقوش انیس نمبر میں بہ تحقیقِ عمیق میر انیس کے 26 نایاب اور غیر مطبوعہ مراثی طبع کیے گئے ہیں۔ محققین کے مطابق ان کے کئی مرثیے ابھی تک غیر مطبوعہ حالت میں مختلف بیاضوں کے اندر موجود ہیں۔ میر انیس نے روایتی مرثیہ کے علاوہ سلام، قصائد، نوحہ اور رباعیات کا بھی کثیر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ رباعیاتِ انیس کی تعداد محققین کے مطابق چھ سو(600) کے برابر ہے۔ میر انیس کے کئی مراثی میں معجزاتی کرشمہ کاری کا عنصر ملتا ہے۔ آپ کے ایک نواسے میر عارف کی تحریری یادداشت سے پتہ چلتا ہے کہ 1857ء کے اواخر میں میر انیس نے ایک سو ستاون (157) بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی (1182) مصرعوں کا یہ شاہکار مرثیہ جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے ایک ہی شب میں لکھا اوراپنے خاندان کے عشرۂ مجالس میں پڑھا۔ میر انیس کے تین فرزندان تھے میر نفیس، میر جلیس اور میر سلیس اور یہ تینوں منجھے ہوئے شاعر و مرثیہ نگار تھے۔ والد کے بعد میر نفیس کا مرثیہ اعلٰی پائے کی مرثیہ نگاری میں شمار ہوا ہے۔

مرثیے کی ترقی

ترمیم

انیس نے مرثیے کو ترقی کے اعلیٰ درجے پر پہنچایا۔ اردو میں رزمیہ شاعری کی کمی پوری کی۔ انسانی جذبات و مناظر قدرت کی مصوری کے ذریعے زبان میں وسعت نکالی۔ سلام اور رباعیوں کا شمار نہیں۔ مرثیوں کی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں۔

میر انیس کے مرثیوں کا مختصر فنّی جائزہ

ترمیم

جنابِ انیس کے رقم کردہ مرثیے اب تک کروڑوں آنکھوں، زبانوں اور سماعتوں کو اپنے ملکوتی خصائل کا گواہ بنا چکے ہیں۔ انیس کے کہے ہوئے مرثیوں میں آیات و روایات، تاریخ، تخیئل، ماحول، سراپا، رَجَز، مظلومیت، آہ و بکا، مکالمات، اعداد و شمار، منطق و فلسفہ، علومِ جہانی اور اصول و عقائد کے مفاہیم کی ایسی متوازن آمیزش ملتی ہے کہ انیس کے علم و فضل کی وسعتیں بیکراں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ انیس نے دبیر کے مقابلہ میں سلیس زبان استعمال کی۔ اس کے باوجود اردو ادب کے محققین کے مطابق طولِ تاریخ میں تراکیب و فرہنگ کا سب سے عظیم ذخیرۂ الفاظ میر انیس کے کلام میں ملتا ہے۔ عروض و قوافی، صرف و نحو، تراکیب، صنائع و بدائع ،محاکات، محاورات اور بندشیں ان کے یہاں دست بستہ نظر آتے ہیں۔ مرثیہ بیانیہ شاعری کا نام ہے۔ انیس نے اس میں ایک ناظر کی حیثیت سے خارجی اندازِ ملاحظہ اور مرثیے کے کرداروں کی اپنی داخلی کیفیات کو بیک وقت یک جا کر کے واقعہ نگاری کو معجزاتی انداز تک متحرّک اور بے نظیر بنا دیا ہے۔ میر انیس کا اجتماعی کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مرثیہ نگاری کو ایک سماجی رسم کے درجہ سے اٹھا کے نفیس ترین ادبی صنف اور مرثیہ گوئی کو فنِّ لطیف میں بدل دیا ہے۔

میر انیس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ ان کے مرثیے ایک خاص تاریخی واقعے سے تعلق رکھتے ہیں اور چونکہ اس تاریخی واقعے کاتعلق مذہبی جذبات سے ہے اس لیے انھوں نے اپنے مراثی میں فنکارانہ اصولوں کی پابندی سے زیادہ اپنے جذبات کو جگہ دی ہے اس طرح یہ جذباتیت ان کی واقعہ نگاری کوعمودی(Vertical) طور پر پرُاثر توضرور بنا دیتی ہے مگر افقی (Horizontal) طور پر شاعرانہ حسن کو فوت کر دیتی ہے[11]. مگرڈاکٹرفرحت نادر رضوی نے اپنی  کتاب  "میر انیس اور قصہ گوئی کا فن"  [12] میں جو ان کی اس تحقیقی کاوش کا ثمرہ ہے جو انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں اپنی ڈاکٹریٹ کی ریسرچ کے درمیان انجام دی اور جس کی اشاعت لکھنؤ ایجوکیشنل اینڈ ڈیویلپمنٹ ٹرسٹ نے کی ہے[13][14][15] یہ دعویٰ کیا ہے کہ  میر انیس کے مرثیے اپنے اندر وہ تمام صفات بدرجہ اتم رکھتے ہیں جو کسی واقعے کے بیان کو ایک کامیاب قصے کے درجے پر فایض کرنے کے لیے ضروری ہیں اور وہ اجزا ہیں: اسرار، تجسّس، خلش، تصادم اور منتہائے بیان۔  یہ تمام اجزا نہ صرف یہ کہ انیس کے مرثیوں میں موجود ہیں بلکہ احسن طریقے پر موجود ہیں اور کہیں کہیں تو میر انیس بیانِ قصہ میں داستان اور مثنوی سے بھی بہت آگے نکل گئے ہیں درآں حالیکہ مرثیوں میں پیش کیا جانے والا قصہ ایک حقیقی تاریخی واقعہ ہے اور اس اعتبار سے میر انیس بڑی مجبوریوں کے اسیر ہیں کہ تاریخی واقعات  سے پرے وہ تخیل کی وہ دنیا آراستہ نہیں کر سکتے جس کے ذریعہ داستان گویوں اور مثنوی نگاروں نے اپنی تخلیقات کو معرکتہ الا را اثرانگیزی بخشی ہے۔ ‘‘ بقول پروفیسر شبیر حسن رضوی: "مثلاً شیکسپیئر کو تعمیر واقعات وتخلیق اشخاص میں جو آزادی تھی وہ انیس کو نہ تھی انیس کا موضوع تاریخی واقعات میں محدودتھا ۔۔۔ شیکسپیئرکا کمال یہ تھا کہ فرضی واقعات اور موہوم کرداروں کی ایسی پیچیدہ تعمیرو تخلیق کی جو واقعی صورت حال اور حقیقی شخصیتوں سے متوقع ہے ۔۔۔ انیس کا کمال یہ ہے کہ تاریخ کے متحجرواقعات اور سوانح و سیر کے سادہ خاکوں میں زندگی کا رنگ بھر کراس طرح نگاہوں کے سامنے پیش کر دیا کہ نہ صرف سامع و قاری کے توقعات بدرجۂ اتم پورے ہوں بلکہ انھیں اُن واقعات وشخصیات کو بچشمِ خود دیکھنے کا احساس ہونے لگے ۔۔۔ اس وقت شیکسپئر کے ڈراموں ۔۔۔ وغیرہ سے اردو مرثیوں کا موازنہ مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اتنا کہنا چاہتاہوں کہ عالمی ادب کے ان کارناموں کے مقابل اردو میں اگر کوئی چیز ہے تو میر انیس کے مرثیے ہیں۔"[16]

میر انیسؔ کی مرثیہ خوانی (تحت اللفظ خوانی)

ترمیم

میر انیس ایک اعلیٰ سخنور ہونے کے علاوہ نہایت خوش آواز بھی تھے۔ نقوش کے میر انیس نمبر میں روایت نقل ہے کہ لکھنؤ کے ایک بزرگ سید محمد جعفر مرثیہ خوان تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ

میں نے بچپن میں میر انیس کو با رہا مرثیہ خوانی کرتے ہوئے سنا ہے۔ انیس کی آواز میں جو دلکشی تھی وہ کسی انسان کا تو کیا ذکر، کسی خوش الحان پرند اور باجے کی آواز میں بھی نہیں ہے۔ جب کبھی وہ بے تکلّف احباب کی صحبت میں بند کمرے کے اندر اپنے دادا میر حسن کی مثنوی پڑھتے تھے تو راہ گیر کھڑے ہو کے دیر دیر تک سنا کرتے تھے۔

منبر پہ مرثیہ تحت اللفظ میں پڑھنے میں بھی میر انیس کی مثل کوئی دوسرا نہ بن سکا۔ انیس پر لکھی گِئی کتب میں اس شانِ ادائیگی کا تذکرہ کئی راویوں کی زبان سے نقل ہوا ہے۔ کتاب واقعاتِ انیس میں علی مرزا پٹنے کا بیان ہے کہ وہ انیس کے متواتر سننے والوں میں سے تھے اور انیس بہ کمالِ توجّہ منبر سے انھیں مخاطب بھی کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:

’’جب وہ مرثیے کا کوئی مقامِ رقّت انگیز پڑھتے تھے تو جوشِ رقت میں خود بھی بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ ضبطِ گریہ کی غرض سے نیچے کے ہونٹ کو دانتوں سے دبا لیتے تھے جس سے داہنی جانب کا رخسار متحرّک ہو جاتا تھا۔‘‘

مولانا محمد حسین آزاد نے انیس کو لکھنؤ میں خود دیکھا تھا۔ آبِ حیات میں انھوں نے انیس کے لیے لکھا ہے:

کمال اور کلام کی کیا کیفیت بیان کروں۔ محویت کا عالم تھا وہ شخص منبر پر بیٹھا پڑھ رہا تھا اور معلوم یہ ہوتا تھا کہ جادو کر رہا ہے۔ انیس کی آواز، اُن کا قد و قامت اُن کی شکل وصورت کا انداز غرض ہر شے مرثیہ خوانی کے لیے ٹھیک اور موزوں واقع ہوئی تھی۔

مولوی عبد الحلیم شرر گزشتہء لکھنؤ میں لکھتے ہیں کہ:

میر انیس نے مرثیہ گوئی کے ساتھ مرثیہ خوانی کو بھی ایک فن بنا دیا۔

بیسویں صدی کے مرثیہ نگار شاعرجوش ملیح آبادی نے میر انیس کے لیے کہا:

تیری ہر موجِ نفَس روح الامیں کی جان ہے

تُو مِری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے


اشعار

ترمیم


امام حسینؑ میدانِ کربلا میں فوجِ یزید کو اپنا تعارف کراتے ہیں
میں ہوں سردارِ شبابِ چمنِ خلدِ بریں
میں ہوں خالقِ کی قسم دوشِ محمدؑ کا مکیں
مجھ سے روشن ہے فلک، مجھ سے منوّر ہے زمیں
میں ہوں انگشترِ پیغمبرِ خاتم (ص) کا نگیں
ابھی نظروں سے نہاں نور جو میرا ہوجائے
محفلِ عالَمِ امکاں میں اندھیرا ہوجائے
صبحِ عاشورہ کا منظر
پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زارِ صبح
گلزارِ شب خزاں ہوا آئی بہارِ صبح
کرنے لگا فلک زرِ انجم نثارِ صبح
سرگرمِ ذکرِ حق ہوئے طاعت گزارِ صبح
تھا چرخِ اخضری پہ یہ رنگ آفتاب کا
کِھلتا ہے جیسے پھول چمن میں گلاب کا
جانشینِ رسولؐ حضرت امام علیؑ کی مدحت
خورشیدِ حقیقت رخِ زیبائے علیؑ ہے
معراجِ امامت قدِ بالائے علیؑ ہے
ایماں جسے کہتے ہیں تولّائے علیؑ ہے
اکسیر جو ہے خاکِ کفِ پائے علیؑ ہے
ہے نام رقم عرش پہ ہمنامِ خدا کا
کیا مرتبہ ہے ذوجِ بتولِ عُذَرا کا

وفات

ترمیم

لکھنؤ میں انتقال کیا۔ اور اپنے سکونتی مکان واقع محلہ سبزی منڈی میں دفن ہوئے۔

شاعر ضیاء الحسن رضوی نے میر انیسؔ کے ایک مشہور سلام کے مقطعے کے دوسرے مصرعے سے میر انیسؔ کا مصرعۂ تاریخِ وفات نکالا جو 1874 عیسوی ہے۔


اپنے بارے میں حسنؔ فرما گئے ہیں جو انیسؔ

اُس سے بہتر سالِ رحلت اور ہو سکتا نہیں

اک صدی کے بعد بھی تاریخ دیتی ہے صدا

’’جوہری بھی اس طرح موتی پرو سکتا نہیں‘‘ (1874)


مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb14443720h — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/71293 — بنام: Mir Babbar Ali Anis — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. مصنف: آرون سوارٹز — او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL2844A?mode=all — بنام: Mir Babbar Ali Anis — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. ^ ا ب http://www.poemhunter.com/poem/karbala-part-i/
  5. http://timesofindia.indiatimes.com/city/lucknow/Here-lies-the-epitome-of-poetic-injustice/articleshow/41893733.cms
  6. https://rekhta.org/poets/meer-anees/profile
  7. http://www.poemhunter.com/poem/karbala-part-i/comments.asp
  8. نقوش: انیس نمبر، صفحہ 635۔
  9. ^ ا ب نقوش: انیس نمبر، صفحہ 635۔
  10. نقوش: انیس نمبر، صفحہ 706-707۔
  11. قمر توحید"میرانیس میرے تعصب کے آئینے میں" مجلہ میرانیس، پیشکش: غالب کلب پٹنہ، ہند 20 جولائ1972ء صفحہ 108
  12. Mir Anis Aur Qissa Goi Ka Fan By Dr. Farhat Nadir Rizvi ISBN 978-1-977566-80-5 / آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ booksprice.com (Error: unknown archive URL) ISBN 1-977566-80-4
  13. روزنامہ قومی خبریں لکھنؤ مورخہ 9 نومبر 2017 صفحہ 3
  14. "روزنامہ قومی تنظیم لکھنؤ مورخہ 9 نومبر 2017 صفحہ 3"۔ 13 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2017 
  15. ہفت روزہ نوائے وقت فیملی میگزین، لاہور 10 تا 16 دسمبر 2017 صفحہ 46
  16. پروفیسر شبیر حسن رضوی"میرانیس کا شعورِ تناسب" مجلہ میرانیس، پیشکش: غالب کلب پٹنہ، ہند 20 جولائ1972ء صفحہ75

بیرونی روابط

ترمیم