چند ہم عصر بابائے اردو مولوی عبدالحق کے لکھے ہوئے شخصی خاکوں کی کتاب ہے۔ کتاب میں مشہور و غیر معروف 24

چند ہم عصر
مصنفمولوی عبد الحق
ملکبرطانوئی ہند
زباناردو
صنفخاکہ
تاریخ نشر1935

شخصیات کے خاکے تحریر شامل ہیں جو ان شخصیات کی وفات کے بعد لکھی گئی ہیں۔ اس کتاب کی زبان کا اسلوب شستہ اور سلیس ہے۔ اس میں مولوی عبد الحق کی نثرنگاری عروج پر نظر آتی ہے نیز کتاب میں مولوی صاحب کا کرداروں سے ہمدردی، غیر جانبداری اور اپنے جذبات وخیالات کے اوصاف نظر آتے ہیں۔ اس کے کتاب کے متلعق بھارتی نقاد صابرہ سعید کہتی ہیں کہ "مولوی صاحب صرف "چند ہمعصر" ہی لکھتے اور کچھ بھی نہ لکھتے تب بھی اردو میں ان کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے صاحب طرز انشاء پرزوں کے ساتھ لیا جاتا"۔



یہ کتاب پہلی بار 1935ء،[1] میں اس کے بعد اردو اکیڈمی سندھ نے 1959ء میں کراچی سے شائع کی پھر[2] بھارت سے ؛ انجمن ترقی اردو، ہند نے 1966ء میں شائع کیا۔[3]

کردار ترمیم

محمد علی جوہر ترمیم

ان کی سیرت کے برے اور اچھے پہلو دونوں نمایا کیے گئے ہیں یوں مولوی صاحب بے باک انداز میں ان کی سیرت کا مرقع کھینچھتے ہیں اور قاری حقیقت پر مبنی شخصیت کو جان پاتا ہے۔

سر سید ترمیم

کے متعلق بھی وہ غیر جانبداری سے نقشہ کھنچتے ہیں۔ کتاب میں سب سے طویل مضمون انھیں پر ہے جو ان سے ان کے عقیدت کو ظاہر کرتی ہے۔

دیو مالی ترمیم

نور خان کی طرح رم دیو بھی ایک غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والا کردار ہے لیکن نور خان شرفاء میں سے تھے جبکہ رام دیو ایک مالی تھا جو کے نچلی زات کا ہندو تھا۔ اسے اپنے کام سے بہت لگن تھی اور بے اولاد ہونے بعد بقول مصنف اپنے پودوں کو اولاد کی طرح چاہتا تھا۔ ایک دن شہد کی مکھیوں کا ھملہ ہوا اپنے کام میں مگن اس ھملہ سے بے خبر دیومکھیوں کے زہر سے جانبر نہ ہو سکا۔

مقبرے کا باغ میری نگرانی میں تھا۔ میرے رہنے کا مکان بھی باغ کے احاطے ہی میں تھا۔ میں نے اپنے بنگلے کے سامنے چمن بنانے کا کام نام دیو کے سپرد کیا۔ میں اندر کمرے میں کام کرتا رہتا تھا۔ میری میز کے سامنے بڑی سی کھڑکی تھی۔ اس میں سے چمن صاف نظر آتا تھا۔لکھتے لکھتے کبھی نظر اٹھا کر دیکھا تو نام دیو کو ہمہ تن اپنے کام میں مصروف پاتا۔ بعض دفعہ اس کی حرکتیں دیکھ کر بہت تعجب ہوتا۔ مثلاً کیا دیکھتا ہوں کہ نام دیو ایک پودے کے سامنے بیٹھا اس کا تھانولا صاف کر رہا ہے۔ تھانولا صاف کرکے حوض سے پانی لیا اور آہستہ آہستہ ڈالنا شروع کیا۔ پانی ڈال کر ڈول درست کی اور ہر رُخ سے پودے کو مڑ مڑ کر دیکھتا۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ دیکھتا جاتا تھا اور مسکراتا اور خوش ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ کام اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں لذت آنے لگے۔ بے مزہ کام، کام نہیں بیگار ہے۔

اب مجھے اس سے دلچسپی ہونے لگی۔ یہاں تک کہ بعض وقت اپنا کام چھوڑ کر اسے دیکھا کرتا۔ مگر اسے خبر نہ ہوتی کہ کوئی دیکھ رہا ہے یا اس کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتا۔ اس کے کوئی اولاد نہ تھی وہ اپنے پودوں اور پیڑوں ہی کو اپنی اولاد سمجھتا تھا اور اولاد کی طرح ان کی پرورش اور نگہداشت کرتا۔ ان کو سبز اور شاداب دیکھ کر ایسا ہی خوش ہوتا جیسے ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ وہ ایک ایک پودے کے پاس بیٹھتا، ان کو پیار کرتا، جھک جھک کے دیکھتا اور ایسا معلوم ہوتا گویا ان سے چپکے چپکے باتیں کر رہا ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑھتے، پھولتے پھلتے اس کا دل بھی بڑھتا اور پھولتا پھلتا تھا، ان کو توانا اور ٹانٹا دیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ کبھی کسی پودے میں اتفاق سے کیڑا لگ جاتا یا کوئی اور روگ پیدا ہوجاتا تو اسے بڑا فکر ہوتا"


کتاب کے دیگر کرداروں میں منشی امیر احمد ، پروفیسر مرزا حیرت، سید محمود، مولوی چراغ علی، مولوی محمد عزیز، مولوی سید علی بلگرامی، خواجہ غلام شقلین، حکیم امتیاز الدین، مولانا وحیدالدین سلیم، گڈری کالال- نور خان، محسن الملک، غلام قادر گرامی اور حالی شامل ہیں۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "اردو لغت - Urdu Lughat - پرکھنا"۔ 27 ستمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اگست 2016 
  2. چند ہم عصر، ڈاکٹر مولوی عبد الحق، ریختہ ویب، بھارت
  3. http://ci.nii.ac.jp/ncid/BA68810753?l=en