چیلے واہن
'چیلے واہن 'تحریر و تحقیق=
ملک حسن امتیاز ڈیوا جٹ بھٹی سکنہ چیلے واہن خاص.رابطہ نمبر=03003536780
تعارف= ملک پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع لودھراں کی تحصیل کہروڑپکا میں موجود ایک یونین کونسل کا نام چیلے واہن ہے۔ چیلے واہن کی وجہ تسمیہ: چیلا ہندی زبان کا لفظ ہے جو سراٸیکی میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے چیلا کا مطلب ہے شاگرد اورچیلا کی جمع ہے چیلے یعنی کافی سارے شاگرد اور چیلے کا الٹ لفظ ہے گرو یعنی استاد، پیر شریعت محمدی کی تعلیم دینے والے کو پیر کہتے ہیں حالانکہ پیر کے لفظی معنی عمر رسیدہ بزرگ کے ہیں اور واہن کا مطلب ہے مسکن یا رہنے کی جگہ تو چیلے واہن کامطلب ہوا شاگردوں کامسکن یا وہ جگہ/بستی جہاں بہت سارے شاگرد رہتے ہیں۔۔قیام پاکستان سے پہلٕے یہاں مسلم اور ہندو بکثرت آباد تھے اور گاؤں چیلے واہن قدیم زمانے سے ہی ارد گرد کی باقی آبادیوں سے کافی زیادہ ترقی پزیر تھا ہر لحاظ سے، نیز یہ ہندو اور مسلمانوں دونوں کی تعلیم و تربیت کا مرکز تھا ہندو گرو جہاں اپنے چیلوں کو شکشہ (تعلیم و تربیت) دیتے تھے ا س جگہ کا نام تھا "گیان تھلہ " گیان کامطب ہے علم ومعرفت یہ گیان تھلہ آج کل کے ملانہ ہاؤس یا مدرسی اشرفیہ اشاعت القران نزد جنازہ گاہ کے قریب واقع تھا اور اس کے پاس ہندوؤں کی ماڑیاں/کوٹھیاں تھیں اورقبرستان پیر محمود کے قریب ہندوؤں کا شمشان گھاٹ تھا جہانپر وہ اپنی ارتھیاں یا مردے جلاتے تھے اس مقصد کے لیے جہاں پر ہندو کافی ساری لکڑیاں یا درختوں کے تنے منڈھ یا مسمان جہانپر رکھتے تھے وہ جگہ آج بھی مسماناں والا کے نام سے جانی جاتی ہے۔اور ماڑیاں والا کھوہ جنازہ گاہ کے قریب بستی فاروق آباد کیجانب تھا جسے پرانے لوکل لوگ خوب جانتے ہیں۔مسلم پیر جس جگہ اپنے چیلوں /شاگردوں کو تعلیم دیتے تھے وہ جگہ ہماری خانقاہ مبارک ہے۔شنید ہے کہ خانقاہ مبارک میں مسلم انسانی بچوں کے ساتھ جنات کے بچے بھی انسانی بچونکے روپ میں علم حاصل کرتے تھے۔ خواجہ خدا بخش خیر پوری جیسے بزرگ بھی تعلیم و تربیت کی غرض سے چیلے واہن میں قیام فرماتے تھے۔ نیز چیلے واہن ماضی قریب میں بھی حفاظ کی بستی کے طور پر مشہور تھا۔یہاں کے حفاظ کرام طویل و عریض کے علاقوں تک بہت مشہور تھے۔ پھر ایکمرتبہ کسی لڑاٸی میں مسلمانوں کے کہچھ پیر/گرو اور شاگرد/چیلے شہید ہو گٸے تھے پھر ان مسلم گروؤں/پیروں اور ان کے چیلوں کو جس جگہ دفنایا گیا وہ قبرستان آجتک پیر چیلے شہید کے نام سے جانا جاتا ہے جو بستی درخواست کی مغربی ساٸیڈ پہ موجود ہے قیام پاکستان سے پہلے اور کہچھ عرصہ بعد تک وہاں ان پیر اور چیلوں کی یاد میں ہر سال زور شور سے میلہ لگتا تھا۔ جس کا اہتمام ڈیوا برادری کے بزرگ کرتے تھے جنمیں ملک گل محمد ڈیوا ذیلدار خاندان کے افراداور ملک دارا ڈیوا اور اس کا پوتا ملک سردار ڈیوا حاجی ملک غلام محمد نمبر دار ڈیوا اس کا پوتا ملک جمال محمد ڈیوااور جوٸیہ قبیلہ کے لوگ بھی پیش پیش ہوتے تھے۔ اس چیلے واہن میں ڈیوا جٹ بھٹی قبیلہ کے لوگ بکثرت آباد ہیں بنسبت دیگر مختلف قباٸل کے نیز مغل دور حکومت میں یہ گاؤں بطور چیلے واہن ڈیواں والا کے شناخت کیا جاتا تھا کیونکہ اس دور میں چیلے واہن ایک ذیل تھااور اس ذیل کا پہلا ذیلدار ملک درمحمد ڈیوا تھا اس کے بعد اس کا بیٹا ملک گل محمدذیلدار بنا پھر تقریباً 1850میں مہتہ چمنہ مل اس ذیل کا ذیلدار بنا اس وقت چمنہ مل کی رہاٸش قادر پور میں تھی اور یہ گاؤں قادر خاں دادپوترا کی نسبت سے قادرپور مشہور تھا جب1850میں مہتہ چمنہ مل ذیلدار بنا اس وقت قادرپور کیساتھ چمنہ کا اضافہ ہوا تو تب سے اس گاؤں کا نام قادرپور چمنہ چلا آتا ہے چمنہ مل کی وفات کے بعد مہتہ چیتن داس اس چیلے واہن ذیل کا ذیلدار بنااور یہ اس علاقے کا آخری ذیلدار تھا۔چیلے واہن ذیل میں غالباًفتح پور سے لے کر ٹبی وڈاں تک کا علاقہ شامل تھا اور اس ذیل میں نمبردار بھی ڈیوا قبیلہ کے زیادہ تھے نیز نون جوٸیہ اور کانجووغیرہ قبیلہ کے لوگ بھی اس ذیل میں نمبردار تھے۔
چیلے واہن شریف تحصیل کہروڑ پکا کے چند مقامات اور ان کی مختصر تاریخ۔
1=خانقاہ حافظ غلام حسن اسرإ بھٹی صاحب:
یہ خانقاہ یہاں کے مسلمانوں کی ایک قدیم دینی درسگاہ ہے جہاں پر دور دراز سے اسلامی تعلیم کے لیے طالب علم (چیلے/شاگرد )تشریف لاتے تھے خصوصاً حفظ قران کے لیے یہ درس گاہ بہت مشہور تھی جس میں خواجہ خدا بخش خیرپوری جیسے اللہ والے درس وتدریس کے لیے قیام پزیر رہتے تھے۔سنا گیا ہے کہ یہ خانقاہ مغل بادشاہ بابر سے بھی بہت پہلے یہانپر موجود تھی نیز یہیں کے قریبی بھڑ شدہ ٹبہ پر قدیم چیلے واہن کی آبادی تھی۔ ظہیر الدین بابر منگول حکمران تیمور کی نسل میں سے تھے جن کی فرگانہ کے گورنر عمر شیخ مرزا کے گھر ولادت ہوئی۔ ظہیر الدین کو 1494 میں فرگانہ کا حکمران منتخب کیا گیا، انھوں نے 1496 میں ثمرقند فتح کیا لیکن جلد ہی بغاوت کے باعث اس سے محروم ہونا پڑا۔
شکست کے بعد ظہیر الدین بابر نے 1504 میں کابل کو فتح کیا اور اس کے بعد ابراہیم لودھی کو 1526 میں پانی پت کے میدان میں شکست دے کر بھارت میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ آج کل یہ خانقاہ شریف اسرإ جٹ بھٹی قبیلے کی ملکیت ہے جس میں زیادہ تر قبور اسرإ بھٹی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہی ہیں جنمیں سے قابل ذکر افراد درج ذیل ہیں۔ الحاج حافظ میاں پیر صالح محمد اسرإ بھٹی صاحب حافظ میاں پیرحسام الدین صاحب اسرإ بھٹی صاحب الحاج حافظ میاں پیرنور جہانیاں پسر میاں حسام الدین اسرإ بھٹی صاحب
2آخری آرام گاہ حافظ میاں نورجہانیاں صاحب اسرإ بھٹی تصویر بالاالحاج حافظ میاں پیرنور جہانیاں صاحب پسر میاں پیر حسام الدین صاحب اسرإ بھٹی صاحب کی قبر مبارک کی ہے۔اور اسپر جو تختی لگی ہے وہ صوبیدار راؤ عبد الجبار قوم بھٹی راجپوت صاحب نے لگواٸ ہے جسپر انھوں نے مرثیہ کی صورت میں اپنے ہم قبیلہ دوست سے الفت و محبت کا ثبوت دیا ہے 3=تصویر بالا خانقاہ مبارک کے احاطے میں موجود قبور کی ہے جنمیں سے نظر آنیوالی قبروں میں درج ذیل افراد کی قبریں شامل ہیں 1,ملک گل محمد ذیلدار قوم ڈیوا جٹ بھٹی 2,ملک در محمد ذیلدار قوم ڈیوا جٹ بھٹی 3,ملک جمال محمد قوم ڈیوا جٹ بھٹی
5=درج بالا تصویر میں بغیر چھت کے نظر آنیوالا کمرہ خانقاہ مبارک کے احاطے میں موجود ہے جس میں دو تین قدیم بزرگوں کی قبور مبارکہ ہیں جن کے آبا و اجداد یا قوم قبیلے کے بارے میں فی الحال معلومات میسر نہیں ہو سکیں۔ہاں مگر اتنا پتہ چلا ہے اس کمرے پر چھت ڈالنے کی کوشش کی گٸ مگر یہ ہستیا ں اپنے اوپر چھت قاٸم نہیں رہنے دیتیں۔
6=تصویر بالا خانقاہ مبارک کے احاطے میں موجود ایک قبر کی ہے۔ جو ملک بھاگو خان قوم جوٸیہ کی ہے۔جس کے نام پر آج کل یوسی نوقابل واہ کا ایک موضع ماڑی بھاگو خان آباد ہے اور جو سابق MPA ملک سجاد حسین خاں جوٸیہ کے اجداد میں سے ہے۔ واضح رہے کہ یوسی نوقابل واہ اور ماڑی بھاگو خان وغیرہ گاؤں پہلے یوسی چیلے واہن کا ہی حصہ تھے۔جنہیں بعد میں الگ یوسی کا درجہ دیا گیا۔ 7=تصویر بالا مزار حافظ پیر محمود کی ہے جن کے نام سے چیلے واہن خاص گاؤں کا قبرستان مشہور ہے۔ان کے بارے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں اور انشااللہ بعد میں کبھی بوقت فرصت مزید تفصیلات احاطہ تحریر میں لاٸ جاٸیںگی۔ 8=تصویر بالا قبرستان حافظ پیر محمود کے نزدیک موجود مدرسہ اشرفیہ اشاعت القران کی ہے اس کے مہتمم دو سگے بھاٸ قاری محمد اقبال اور قاری محمد اسماعیل قوم اراٸیں ہیں جو اس مدرسے کو بڑی جانفشانی سے چلا رہے ہیں۔یہاں طالب علموں کے قیام وطعام کا بندوبست بھی ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے اس مدرسہ سے جانب جنوب تھوڑے فاصلے پر ہندوؤں کی تعلیمی درس گاہ بنامی گیان تھلہ جناب محمد اسلم قوم ملانہ درکھان کے گھر کے پاس موجود تھی۔ ۔ 9=تصویر بالا جامع مسجد چیلے واہن شریف خاص کی ہے جس کے بارے میں انشااللہ بعد میں کبھی بوقت فرصت مزید تفصیلات احاطہ تحریر میں لاٸ جاٸیںگی 10=تصویر بالا ایک قدیم مسجد کی ہے جو قبرستان حافظ پیر محمود کے نزدیک واقع ہے۔۔اس کے بارے میں بھی تحقیقات ابھی جاری ہیں اور انشااللہ بعد میں کبھی بوقت فرصت مزید تفصیلات احاطہ تحریر میں لاٸ جاٸیںگی۔ Note کسی بھی انسان کی کوٸ بھی تحقیق، تاریخ یا کسی بھی طرح کا کوٸ کام سو فیصد مکمل ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا کاملیت صرف اور صرف وصف خداوندی ہے مخلوق میں سے کوٸ بھی اس وصف کا حامل ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتا اور میں اپنی اس خامی، کمزوری یا کمی کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں اور آپ سب وسیبی دوستوں سے معلومات کے تبادلے کی اپیل بھی کرتا ہوں نیز مہجھ سمیت ہر انسان جتنا جانتا ہے اس سے کہیں زیادہ وہ نہیں جانتا پھر یہ کہ جو کہچھ وہ جانتا ہے ضروری نہیں کہ وہ سو فیصد درست ہو۔ یہ بات ہر ایک انسان کیساتھ ساتھ محجھ پر بھی فٹ آتی ہے۔ جو بھاٸ بھی چیلے واہن وسیب کے بارٕ ے کہچھ معلومات رکھتا ہواس سے گزارش ہے کہ وہ محجھ سے ضرور شیٸر کرئے تاکہ ہم سب ملکر چیلے واہن وسیب کی تاریخ پر کو ئ کتاب لکھ سکیں.
Note; ۔Obaid Raza آپ پلیز محجھ سے رابطہ کریں میرے پاس مقامی تاریخ کے بارے میں کافی سارا مواد موجود ہے۔ملک حسن ڈیوا03003536780
حوالہ جات
ترمیم
|
|