چین پاکستان معاہدہ، 1963ء


چین پاکستان معاہدہ 1963ء (انگریزی: Sino-Pakistan Agreement) حکومت پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی اُمور پر طے پانے والا ایک معاہدہ تھا جس پر دونوں ملکوں نے 2 مارچ 1963ء کو دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان اور چین کی سرحدوں کا تعین کیا گیا تھا۔

معاہدے[مردہ ربط] کے تحت کے ٹو کی چوٹی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔
سرحد[مردہ ربط] سے ملحقہ کشمیر کا خطہ۔

تاریخی پس منظر

ترمیم

13 اکتوبر 1962ء کو حکومت چین اور حکومت پاکستان کے مابین سرحدی اُمور پر بحث و مباحثہ کا آغاز ہوا۔ یہ مباحثہ دونوں حکومتوں کے درمیان یکم مارچ 1963ء تک جاری رہا اور 2 مارچ 1963ء کو یہ معاہدہ عمل میں آیا۔ اِس معاہدے کے تحت چین نے نے 1,942 سے 5,180 مربع کلومیٹر کا رقبہ پاکستان کے حوالے کر دیا اور کشمیر اور لداخ کے متعدد علاقے چین کی تحویل میں چلے گئے۔ یہ معاہدہ بھارت کو گراں گذرا اور اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اِن تعلقات پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ سرحدی اُمور طے کرنے والا یہ معاہدہ ایک منصفانہ معاہدہ تھا جس کے مطابق سرحد پر واقع دریا یا دروں کے عین نصف کو حد بندی کی لکیر قرار دیا گیا نیز یہ بھی طے پایا کہ کشمیر کے مسئلے پر حکومت پاکستان اور حکومت بھارت کے مابین تصفیہ ہوجانے پر اِن دونوں حکومتوں سے دوبارہ اِس سرحدی معاملے پر معاہدہ کیا جائے گا اور اگر اِس علاقے پر پاکستان کا قبضہ برقرا رہا تو اِسی معاہدے پر دوبارہ دستخط کردیے جائیں گے۔ اِس معاہدے کے تحت چین نے کے ٹو کی چوٹی پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا۔ اِس معاہدے کے نتیجے میں کئی ممالک کو تشویش بھی پیدا ہوئی، خاص کر امریکہ نے پاکستان کی اِمداد کے منصوبہ پر نظر ثانی کی اور بھارت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے اِس معاہدے پر ناگوار ردِ عمل پیش کیا اور اِسے پاکستان کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان چین کے تعاون سے ہماری مشکلات سے فائدہ اُٹھانے کا تہیہ کر رہا ہے۔[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. پاکستان میں حکومت و سیاست: صفحہ 701/702۔