ڈپٹی نذیر احمد

اردو کے اولین ناول نگار

شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد (ریاست حیدرآباد سے انہیں غیور جنگ کا خطاب دیا گیا تھا جسے انہوں نے قبول نہیں کیا) (پیدائش: 1836ء یا 6 دسمبر 1831ء،[1] وفات: 3 مئی 1912ء)[2] ضلع بجنور کی تحصیل نگینہ کے ایک گاؤں ریہر میں پیدا ہوئے۔ ایک مشہور بزرگ شاہ عبد الغفور اعظم پوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ کے والد مولوی سعادت علی غریب آدمی تھے اور یو پی کے ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔

ڈپٹی نذیر احمد

ادیب
پیدائشی نامنذیر احمد
ولادت6 دسمبر، 1836ء ریہر
وفات3 مئی، 1912ء دہلی
اصناف ادبناول
معروف تصانیفمرآۃ العروس، توبۃ النصوح، بنات النعش

تعلیم ترميم

شروع کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی۔ چودہ برس کے ہوئے تو دلی آ گئے اور یہاں اورنگ آبادی مسجد کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ مولوی عبدالخالق ان کے استاد تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ دہلی کے آس پاس برائے نام مغل بادشاہت قائم تھی۔ دینی مدرسوں کے طالب علم محلوں کے گھروں سے روٹیاں لا کر پیٹ بھرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نذ یر احمد کو بھی یہی کچھ کرنا پڑتا تھا، بلکہ ان کے لیے تو ایک پریشانی یہ تھی کہ وہ جس گھر سے روٹی لاتے تھے اس میں ایک ایسی لڑکی رہتی تھی جو پہلے ان سے ہانڈی کے لیے مصالحہ یعنی مرچیں، دھنیا اور پیاز وغیرہ پسواتی تھی اور پھر روٹی دیتی تھی اور اگر کام کرتے ہوئے سُستی کرتے تھے تو ان کی انگلیوں پر سل کا بٹہ مارتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔

کچھ عرصہ بعد دلی کالج میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی ۔

ملازمت ترميم

مولوی نذیر احمد نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مدرس کی حیثیت سے کیا لیکن خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے جلد ہی ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب نے انگریزی میں بھی خاصی استعداد پیدا کر لی اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے صلے میں آپ کو تحصیلدار مقرر کیا گیا۔ پھر ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔ نظام دکن نے ان کی شہرت سن کر ان کی خدمات ریاست میں منتقل کرا لیں جہاں انہیں آٹھ سو روپے ماہوار پر افسر بندوبست مقرر کیا گیا۔

ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مولوی صاحب نے اپنی زندگی تصنیف و تالف میں گزاری۔ اس علمی و ادبی میدان میں بھی حکومت نے انہیں 1897ء شمس العلماء کا خطاب دیا اور 1902ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1910ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ او۔ ایل کی ڈگری عطا کی۔ آپ کا انتقال 3 مئی 1912ء میں ہوا۔ آپ اردو کے پہلے ناول نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔

تصانیف ترميم

تراجم ترميم

آپ کی ترجمہ کی ہوئی کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

وفات ترميم

آخری عمر میں ڈپٹی نذیر احمد پر فالج کا حملہ ہوا اور 3 مئی 1912ء میں دلی میں وفات پا گئے۔

اقتباس ترميم

  • شاہد احمد دہلوی ڈپٹی نذیر احمد کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ ’’آپ اپنی تحریر میں محاورات کے روڑے نہیں بلکہ پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔"[3]

حوالہ جات ترميم

  1. کتاب: راہ گلزار اردو برائے گیارھویں جماعت، مصنف: پروفیسر محمد نیاز صدیقی اور سید مشاہد علی، احمد اکیڈمی، ص-271
  2. "ڈپٹی نذیر احمد ~ Bio-Bibliograpy". 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر، 2015. 
  3. Notes-Set 3 (Matriculation)

بیرونی روابط ترميم