تعزیرات ہند
تعزیرات ہند سے بھارت کا اہم ضابطہ فوجداری مراد ہے۔ یہ فوجداری قوانین کا ایک جامع مجموعہ ہے جس کا مقصد قانون فوجداری کے تمام اہم مسائل کا احاطہ کرنا ہے۔ اس قانون کا مسودہ 1860ء میں تیار کیا گیا تھا جس کے پیچھے برطانوی بھارت کے پہلے قانونی کمیشن کی سفارشات کارفرما تھیں۔ یہ کمیشن 1834ء میں چارٹر ایکٹ 1833ء کے تحت تھامس باربنگٹن میکالے کی صدارت میں قائم ہوا تھا۔[1][2][3] یہ فوجداری قانون برطانوی بھارت میں 1862ء نافذ کیا گیا تھا۔ تاہم یہ قوانین نوابی ریاستوں میں نافذ نہیں کیے گئے، ان کے پاس 1940ء کی دہائی تک ان کی اپنی عدالتیں اور قانونی نظام قائم تھے۔ تعزیرات ہند ہی پر مبنی جموں و کشمیر میں ایک علاحدہ ضابطہ فوجداری نافذ کیا گیا جسے رنبیر ضابطہ تعزیرات کہا جاتا ہے۔
تعزیرات ہند، 1860 | |
---|---|
کونسل گورنر جنرل ہندوستان | |
سمن | Act No. 45 of 1860 |
Territorial extent | بھارت (سوائے جموں و کشمیر) |
نفاذ بذریعہ | Legislative Council |
تاریخ نفاذ | 6 اکتوبر 1860ء |
تاریخ رضامندی | 6 اکتوبر 1860ء |
تاریخ آغاز | یکم جنوری 1862ء |
Committee report | First Law Commission |
ترمیم(ات) | |
دیکھیں Amendments | |
Related legislation | |
Code of Criminal Procedure, 1973 | |
صورت حال: Substantially amended |
انگریزوں کی واپسی کے بعد، تعزیرات ہند پاکستان کو ورثے میں ملا، جس کا زیادہ تر حصہ سابقہ برطانوی بھارت کا حصہ تھا، وہاں اسے مجموعہ تعزیرات پاکستان کا نام دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کے بعد (سابقہ مشرقی پاکستان) میں یہی قانون وہاں بھی نافذ رہا۔
تعزیرات ہند برطانوی استعماری ارباب مجاز کی جانب سے برما (اب میانمار)، سیلون (موجودہ سری لنکا)، مستعمرات آبنائے (اب ملیشیا کا حصہ)، سنگاپور اور برونائی دار السلام میں بھی نافذ کیا گیا اور ان ممالک کے فوجداری قوانین کی اساس بنا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر میں نافذ رنبیر ضابطہ تعزیرات اسی ضابطے پر مبنی ہے۔[2]
تاریخ
ترمیمتعزیرات ہند کا مسودہ پہلے قانونی کمیشن کی جانب سے 1834 میں تیار کیا گیا تھا جس کی صدارت تھامس بابنگٹن میکالے کی تھی اور یہ ہندوستانی کونسل کے گورنر کو 1837 میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کی بنیاد انگلستان کا قانون ہے جس میں اس کی منفردات، ٹیکنالوجی اور مقامی پیچیدگیوں کو دور رکھا گیا تھا۔ اس کے کچھ عناصر نپولینی ضابطہ اور ایڈورڈ لیونگسٹون کے 1825 کے لوزیانا ضابطہ دیوانی سے بھی لیے گئے تھے۔ تعزیرات ہند کا حتمی مسودہ ہندوستان کے گورنر جنرل کو 1837 میں پیش کیا گیا تھا، مگر مسودے پر نظرثانی کی گئی تھی۔ مسودے کی نئے سرے سے تیاری 1850 میں مکمل ہوئی اور اس ضابطے کو قانون ساز کونسل میں 1856 کو پیش کیا گیا تھا۔ مگر مسودہ کو اس کا مقام نہیں ملا کیونکہ جنگ آزادی ہند 1857ء کا شورش زدہ دور چل رہا تھا۔ بالآخر یہ مسودہ بارنیس پی کاک کی نظرثانی سے گذرا جو بعد میں کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اوراس کے بعد مستقبل میں اسی کورٹ کے پوئسنے جج حضرات نے،جو قانون سازکونسل کے ارکان بھی تھے، 6 اکتوبر 1860 کو اسے منظور کر دیا۔[4] اس ضابطے کو یکم جنوری 1862 سے روبہ عمل لایا گیا تھا۔ تاہم میکالے اپنا قانونی شاہکار عملی شکل میں دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے۔ ان کا انتقال 1859 میں ہو گیا تھا۔[1][3]
خاکہ
ترمیم1860ء کا تعزیرات ہند 23 ابواب اور 511 دفعات پر محیط ہے۔ ضابطہ کا آغاز تمہید سے ہوتا ہے، یہ تمہید قوانین میں شامل تشریحات ومستثنیات اور متفرق نوعیت کے جرائم پر محیط ہے۔ اس کا اجمالی خاکہ حسب ذیل جدول میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:[5]
تعزیرات ہند، +1860
(دفعات 1 تا 511) |
باب | شامل دفعات |
---|---|---|
باب اول | دفعات 1 تا 5 | تمہید |
باب دوم | دفعات 6 تا 52 | عمومی تشریحات |
باب سوم | دفعات 53 تا 75 | سزاؤں سے متعلق |
باب چہارم | دفعات 76 تا 106 | عمومی مستثنیات
خود کے دفاع کے حق کے متعلق (دفعات 96 تا 106) |
باب پنجم | دفعات 107 تا 120 | جرم کے ساتھ دینے سے متعلق |
باب پنجم اے | دفعات 120A تا 120B | مجرمانہ سازش |
باب ششم | دفعات 121 تا 130 | ریاست کے خلاف جرائم سے متعلق |
باب ہفتم | دفعات 131 تا 140 | فوج، بحریے اور فضائیے سے جڑے جرائم سے متعلق |
باب ہشتم | دفعات 141 تا 160 | عوامی امن سے جڑے جرائم سے متعلق |
باب نہم | دفعات 161 تا 171 | عوامی خدمت گزاروں کے یا ان سے جڑے جرائم سے متعلق |
باب نہم اے | دفعات 171 اے تا 171 آئی | انتخابات سے جڑے جرائم سے متعلق |
باب دہم | دفعات 172 تا 190 | عوامی خدمت گزاروں کے قانونی موقف کی توہین سے متعلق |
باب یزدہم | دفعات 191 تا 229 | جھوٹی گواہی اور عوامی انصاف سے جڑے جرائم سے متعلق |
باب دوازدہم | دفعات 230 تا 263 | سکہ جات اور سرکاری ڈاک ٹکٹوں سے جڑے جرائم سے متعلق |
باب سیزدہم | دفعات 264 تا 267 | وزن اور پیمائش سے متعلق جرائم |
باب چہارازدہم | دفعات 268 تا 294 | عوامی صحت، حفاظت، سہولت، نفاست اور اخلاق سے جڑے جرائم سے متعلق |
باب باب پنج ازدہم | دفعات 295 تا 298 | مذہب سے جڑے جرائم جرائم سے متعلق |
باب شش از دہم | دفعات 299 تا 377 | انسانی جسم پر اثرانداز ہو نے والے جرائم سے متعلق
|
باب ہفت از دہم | دفعات 378 تا 462 | جائداد کے خلاف جرائم سے متعلق
|
باب ہشت از دہم | دفعہ 463 تا 489 | دستاویز اور مالکانہ نشانات سے متعلق
|
باب نیزدہم | دفعات 490 تا 492 | مجرمانہ خدمات سے جڑے معاہدوں کی خلاف ورزی کے جرم کے متعلق |
باب بستم | دفعات 493 تا 498 | شادی سے جڑے جرائم سے متعلق |
باب بستم | دفعہ 498 (اے) | شوہر یا اس کے عزیز و اقارب کی قساوت قلبی کے متعلق |
باب بست و یکم | دفعات 499 تا 502 | ہتک عزت کے متعلق |
باب بست و دوم | دفعات 503 تا 510 | مجرمانہ دھمکی، بے عزتی اور ایذارسانی |
باب بست و سوم | دفعہ 511 | جرم کرنے کی مساعی سے متعلق |
تنازعات
ترمیمغیر فطری جرائم - دفعہ 377
ترمیمجو کوئی، بہ رضا جنسی اختلاط قدرتی قانون کے خلاف کسی مرد، عورت یا جانور کے ساتھ اختلاط کرتا ہے، اسے تاحیات قید یا کوئی طے شدہ میعاد کی قید جو دس سال تک کی ہو سکتی ہے، ملے گی اور اس پر جرمانہ بھی عائد ہو سکتا ہے۔
توضیح - دخول اس بات کے لیے کافی ہے کہ جنسی مباشرت جس کا اس دفعہ میں تذکرہ ہے وقوع ہو چکا ہے۔[6]
- دفعہ 377 کے متعلق دہلی ہائی کورٹ نے 2 جولائی 2009 کی آزادخیالی پر مبنی تعبیر دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دفعہ کو باہمی رضامندی سے وقوع ہونے والے دو ایک ہی جنس کے لوگوں میں مباشرت کو سزا دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔[7]
- دسمنر 11، 2013 کو بھارت کے سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے 2009 کے فیصلے کی نفی کرتے ہوئے وضاحت کی کہ "دفعہ 377 جو ہم جنسی تعلقات کو غیر فطری قرار دیتی ہے، غیر دستوری موقف کی حامل نہیں ہے"۔ بینچ نے کہا: "ہم یہ رائے دیتے ہیں کہ دفعہ 377 غیر دستوری موقف کی حامل نہیں ہے… غیر دستوری موقف اور ہائی کورٹ کے ڈیویژن بینچ کا فیصلہ قانونی طور پر قائم نہیں رہ سکتا"۔ تاہم یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے کے باوجود، بااختیار مقننہ آزادانہ طور پر دفعہ 377 کی بقا اور قانونی کتابوں سے اس کا حذف کیا جانا یا اس کی ترمیم جیساکہ اٹارنی جنرل جی ای واہن وتی نے سفارش کی ہے، کرسکتی ہے۔[8]
خودکشی کرنے کی کوشش
ترمیمتعزیرات ہند کی دفعہ 309 ناکام خودکشی کی کوشش سے متعلق ہے۔ خودکشی کی کوشش کرنا اور کوئی ایسا عمل کرنا جس سے اس عمل کو تقویت ملے قابل سزا ہے۔ اس کے لیے ایک سال تک کی سزا یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔ چونکہ بھارت کا قانونی کمیشن ایک طویل عرصے سے مسلسل اس دفعہ کی تنسیخ کی وکالت کرتا آیا ہے، حکومت ہند نے دسمبر 2014 میں خودکشی کو جرائم کے زمرے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے قانونی کتاب سے دفعہ 309 کو ہٹایا جانا تھا۔ حالانکہ زیادہ تر ریاستوں نے اس فیصلے کی حمایت کی، کچھ نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیاں ان لوگوں کے آگے بے بس ہوجائیں گی جو مرن برت (fast unto death)، خودسوزی، وغیرہ پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ایک خاص معاملہ جس کا اشارہ کیا گیا وہ مخالف اے ایف ایس پی اے کارکن ایروم چانو شرمیلا (Irom Chanu Sharmila) کا ہے۔[9] فروری 2015 میں وزارت قانون و انصاف کو حکومت نے اس ضمن میں ایک ترمیمی بل تیار کرنے کو کہا تھا۔[10]
اگست 2015 میں ایک فیصلہ سناتے ہوئے راجستھان ہائی کورٹ نے جینوں میں موجود رضاکارانہ طور پر فاقہ کشی کے ذریعے موت کو گلے لگانے کی رسم جسے سنتھرا کہتے ہیں، 306 اور 309 کی دفعات کے تحت قابل سزا قرار دیا۔ اس سے تنازع پیدا ہوا جس میں جین برادری کے کچھ گوشے وزیر اعظم سے درخواست کرنے لگے کہ وہ سپریم کورٹ سے اس حکم کے خلاف رجوع ہوں۔[11][12]
دفعہ 497
ترمیمتعزیرات ہند کی دفعہ 497 موضوع تنقید بن چکی ہے کیونکہ اس کی رو سے عورت اپنے شوہر کی ذاتی ملکیت قرار پاتی ہے جبکہ دوسری جانب عورتوں کو زنا کی سزا سے مکمل تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔[13][14]
جرائم و انصاف کی اصلاحات
ترمیم2003 میں مالی مٹھ کمیٹی نے ایک جامع روداد پیش کی جس میں کئی وسیع النظر اصلاحات بہ شمول تحقیقات اور جرح کو علاحدہ کرنا اور جرح کو برطانیہ کی کراؤن پراسی کیوشن سروس کے طرز پر بنانا تاکہ جرائم سے متعلق انصاف صحیح خطوط پر آسکے۔[15] روداد کا خلاصہ یہی تھا کہ ایک ضرورت محسوس کی گئی تھی کہ معاندانہ انصاف کے برعکس عدل ومساوات پر مبنی انصاف کا نظام ہو جیساکہ براعظم یورپ میں ہے-
ترامیم
ترمیماس ضابطے کو کئی بار ترمیم کیا گیا تھا۔[16][17]
شمار سلسلہ | ترمیمی قانون کا مختصر عنوان | شمار | سال |
---|---|---|---|
1 | The Repealing Act, 1870 | 14 | 1870 |
2 | The Indian Penal Code Amendment Act, 1870 | 27 | 1870 |
3 | The Indian Penal Code Amendment Act, 1872 | 19 | 1872 |
4 | The Indian Oaths Act, 1873 | 10 | 1873 |
5 | The Indian Penal Code Amendment Act, 1882 | 8 | 1882 |
6 | The Code of Criminal Procedure, 1882 | 10 | 1882 |
7 | The Indian Criminal Law Amendment Act, 1886 | 10 | 1886 |
8 | The Indian Marine Act, 1887 | 14 | 1887 |
9 | The Metal Tokens Act, 1889 | 1 | 1889 |
10 | The Indian Merchandise Marks Act, 1889 | 4 | 1889 |
11 | The Cantonments Act, 1889 | 13 | |
12 | The Indian Railways Act, 1890 | 9 | |
13 | The Indian Criminal Law Amendment Act, 1891 | 10 | |
14 | The Amending Act, 1891 | 12 | |
15 | The Indian Criminal Law Amendment Act, 1894 | 3 | |
16 | The Indian Criminal Law Amendment Act, 1895 | 3 | |
17 | The Indian Penal Code Amendment Act, 1896 | 6 | 1896 |
18 | The Indian Penal Code Amendment Act, 1898 | 4 | 1898 |
19 | The Currency-Notes Forgery Act, 1899 | 12 | 1899 |
20 | The Indian Penal Code Amendment Act, 1910 | 3 | 1910 |
21 | The Indian Criminal Law Amendment Act, 1913 | 8 | 1913 |
22 | The Indian Elections Offences and Inquiries Act, 1920 | 39 | 1920 |
23 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1921 | 16 | |
24 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1923 | 20 | |
25 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1924 | 5 | |
26 | The Indian Criminal Law Amendment Act, 1924 | 18 | |
27 | The Workmen’s Breach of Contract (Repealing) Act, 1925 | 3 | |
28 | The Obscene Publications Act, 1925 | 8 | |
29 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1925 | 29 | |
30 | The Repealing and Amending Act, 1927 | 10 | |
31 | The Criminal Law Amendment Act, 1927 | 25 | |
32 | The Repealing and Amending Act, 1930 | 8 | |
33 | The Indian Air Force Act, 1932 | 14 | |
34 | The Amending Act, 1934 | 35 | |
35 | The Government of India (Adaptation of Indian Laws) Order, 1937 | — | 1937 |
36 | The Criminal Law Amendment Act, 1939 | 22 | |
37 | The Offences on Ships and Aircraft Act, 1940 | 4 | |
38 | The Indian Merchandise Marks (Amendment) Act, 1941 | 2 | |
39 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1942 | 8 | |
40 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1943 | 6 | |
41 | The Indian Independence (Adaptation of Central Acts and Ordinances) Order, 1948 | — | 1948 |
42 | The Criminal Law (Removal of Racial Discriminations) Act, 1949 | 17 | |
43 | The Indian Penal Code and the Code of Criminal Procedure (Amendment) Act, 1949 | 42 | 1949 |
44 | The Adaptation of Laws Order, 1950 | — | 1950 |
45 | The Repealing and Amending Act, 1950 | 35 | |
46 | The Part B States (Laws) Act, 1951 | 3 | |
47 | The Criminal Law Amendment Act, 1952 | 46 | |
48 | The Repealing and Amending Act, 1952 | 48 | |
49 | The Repealing and Amending Act, 1953 | 42 | |
50 | The Code of Criminal Procedure (Amendment) Act, 1955 | 26 | |
51 | The Adaptation of Laws (No.2) Order, 1956 | — | 1956 |
52 | The Repealing and Amending Act, 1957 | 36 | |
53 | The Criminal Law Amendment Act, 1958 | 2 | |
54 | The Trade and Merchandise Marks Act, 1958 | 43 | |
55 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1959 | 52 | |
56 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1961 | 41 | |
57 | The Anti-Corruption Laws (Amendment) Act, 1964 | 40 | |
58 | The Criminal and Election Laws Amendment Act, 1969 | 35 | |
59 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1969 | 36 | |
60 | The Criminal Law (Amendment) Act, 1972 | 31 | |
61 | The Employees’ Provident Funds and Family Pension Fund (Amendment) Act, 1973 | 40 | |
62 | The Employees’ State Insurance (Amendment) Act, 1975 | 38 | |
63 | The Election Laws (Amendment) Act, 1975 | 40 | |
64 | The Criminal Law (Amendment) Act, 1983 | 43 | |
65 | The Criminal Law (Second Amendment) Act, 1983 | 46 | |
66 | The Dowry Prohibition (Amendment) Act, 1986 | 43 | |
67 | The Employees’ Provident Funds and Miscellaneous Provisions (Amendment) Act, 1988 | 33 | |
68 | انسداد رشوت قانون، 1988 | 49 | |
69 | The Criminal Law (Amendment) Act, 1993 | 42 | |
70 | The Indian Penal Code (Amendment) Act, 1995 | 24 | |
71 | معلوماتی طرزیات قانون، 2000 | 21 | 2000 |
72 | The Election Laws (Amendment) Act, 2003 | 24 | 2003 |
73 | The Code of Criminal Procedure (Amendment) Act, 2005 | 25 | 2005 |
74 | The Criminal Law (Amendment) Act, 2005 | 2 | 2006 |
75 | The Information Technology (Amendment) Act, 2008 | 10 | 2009 |
76 | فوجداری (ترمیمی) قانون 2013 | 13 | 2013 |
اعتراف
ترمیماس ضابطے کی بہ نظر غائر ترتیب اور ماورائے زمانہ ہونے کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ کئی معاملوں میں بڑی حد تک من حیث المجموع کسی بڑی ترمیم کے بغیر 150 سال باقی رہا۔[18] [حوالہ درکار] جدید جرائم جو میکالے کے وقت اَن سنے تھے، وہ بھی بڑی حد تک اس قانون کی گرفت میں آتے ہیں کیونکہ ضابطہ کے مسسودے کی تیاری میں ان کا احاطہ کیا گیا تھا۔
تعزیرات ہند میں مجوزہ ترامیم کے بارے میں نریندر مودی کا موقف
ترمیمبھارت کی نریندر مودی حکومت نے 2015 میں وضاحت کی کہ فوجداری قانون کی دفعہ 320 اور تعزیرات ہند کی دفعات 375 اور 376 میں مخصوص قسم کی عصمت دری جیسے شادی شدہ زندگی میں بیوی کی عصمت دری اور شادی کا جھوٹا وعدہ کرکے رضامندی حاصل کرنے کی حرکت کو قابل سزا جرم بنانے کے لیے ترمیم کی کوئی تجویز اس کے زیر غور نہیں ہے۔ اسی طرح حکومت نے کہا کہ ہم جنس پرستی کو جرم نہ گردانے جانے کے لیے تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کو منسوخ کرنے کی بھی کوئی تجویز نہیں ہے۔[19]
مزید یدیکھے
ترمیم- بھارت کا قانون شہادت
- ٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰزمرہد: تعزیرات ہند قانون کے دفعات
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Universal's Guide to Judicial Service Examination۔ Universal Law Publishing۔ صفحہ: 2۔ ISBN 9350350297
- ^ ا ب Krishan Lal Kalla۔ The Literary Heritage of Kashmir۔ Jammu and Kashmir: Mittal Publications۔ صفحہ: 75۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2014
- ^ ا ب "Law Commission of India - Early Beginnings"۔ Law Commission of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2014
- ↑ "history of IPC is provided in comments"۔ 01 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2015
- ↑ B.M.Gandhi (2006)۔ Indian Panel Code (Paper Back) (2013 ایڈیشن)۔ EBC۔ صفحہ: 1-832۔ ISBN 8170128927۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جولائی 2015
- ↑ B.M.Gandhi (2006)۔ Indian Penal Code۔ EBC۔ صفحہ: 1-796۔ ISBN 8170128927
- ↑ "Delhi High Court reinterprets the Sec. 377"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Supreme Court sets aside Delhi HC verdict decriminalising gay sex"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ "Government decriminalizes attempt to commit suicide, removes section 309"۔ The Times of India۔ 10 دسمبر 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2015
- ↑ "Attempt to Suicide"۔ Press Information Bureau۔ Ministry of Home Affairs, Government of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2015
- ↑ "Rajasthan HC says Santhara illegal, Jain saints want PM Modi to move SC"۔ The Indian Express۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2015
- ↑ "Rajasthan HC bans starvation ritual 'Santhara', says fasting unto death not essential tenet of Jainism"۔ IBN Live۔ CNN-IBN۔ 10 اگست 2015۔ 12 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2015
- ↑ "Wife is private property, so no trespassing"۔ The Times of india۔ 17 جولائی 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2015
- ↑ "Adultery law biased against men, says Supreme Court"۔ The Times of India۔ 3 دسمبر 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2015
- ↑ "IPC Reform Committee recommends separation of investigation from prosecution powers (pdf)" (PDF)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2012
- ↑ Parliament of India۔ "The Indian Penal Code" (PDF)۔ childlineindia.org.in۔ 16 جون 2015 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 جون 2015 یہ متن ایسے ذریعے سے شامل ہے، جو دائرہ عام میں ہے۔
- ↑ The Indian Penal Code, 1860۔ Current Publications۔ 7 مئی 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جون 2015
- ↑ "IPC's endurance lauded"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 ستمبر 2015
- ↑ تعزیرات ہند میں ترمیم
خارجی روابط
ترمیم- تعزیرات ہند کا مکمل متنآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ncw.nic.in (Error: unknown archive URL)
- تعزیرات ہند کا مکمل متنآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ punjabrevenue.nic.in (Error: unknown archive URL)
- قانونی کمیشن کی ایک رپورٹ
- تعزیرات ہند پر ایک تعارفی یوٹیوب ویڈیو
- تعزیرات ہند پر ایک درسی کتاب