شمالی بلوچستان میں دریائے ژوب کی وادی میں کوئٹہ کے قریب درہ بولان میں کئی ٹیلے ایسے ملے ہیں۔ جن میں انسانی بستیاں مدفون پائی گئیں ہیں۔ ان کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ لیکن عمومی طور پر باقی ماندہ بلوچستان اور سندھ کی بستیوں سے ملتی جلتی ہیں۔ البتہ ان میں کچھ ایسی منفرد خصوصیات ضرور ہیں۔ جن کی بنا پر ان کا ثقافتی نقشہ وادی سندھ سے زیادہ ایران کے قریب نظر آتا ہے۔ ان کا دائرہ دریائے نال کے دہانے تک جاتا ہے۔ اس کا زمانہ چار ہزار سے تین ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ ہے۔ ژوب ثقافت کی نمایاں ترین بستیاں رانا غنڈئی، پیریانو غنڈئی اور مغل زئی ہیں ۔

رانا غنڈئی ترمیم

ژوب ثقافت کی نمایاں بستی رانا غنڈئی اس لحاظ سے سب زیادہ اہم ہے کہ ہم اس کی مدد سے ہم ژوب ثقافت کی زمانی ترتیب آسانی سے قائم کی جا سکتی ہے۔ رانا غنڈئی لورا لائی کے قریب ایک چالیس فٹ اونچا ٹیلہ ہے۔ اس بستی میں اوپر تلے آبادی کے پانچ مرحلے ملے ہیں۔ ان کے علاوہ چار ضمنی مرحلے بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ دفینہ اوپر تلے نو شہروں کو اپنے دامن میں چھپائے رکھا ہے۔ ان نو آبادیوں کی جو زمانی ترتیب بنتی ہے، وہی پورے کی تمام آبادیوں کی سمجھنی چاہیے ۔

پہلی سطح ترمیم

اس کی سب سے نچلی سطح چودہ فٹ موٹی ہے۔ اس میں مکانات کی دیواریں یا اینٹیں وغیرہ تو نہیں ملیں۔ جو شاید تھوبے کی ہوں گی اور عام مٹی میں ضم ہوگئیں۔ البتہ اس میں جگہ جگہ راکھ ملی ہے۔ جس کا مطلب ہے کم از کم یہاں نیم خانہ بدوش لوگ گاہے بگاہے آکے ٹہرتے ہوں گے اور ان کے گھر تنکوں کی جھگیوں پر مشتمل ہوتے ہوں گے یا کسی طرح کے خیمے یا پکھیاں ہوں۔ کچھ مٹی کے برتن بھی ملے ہیں جو سادہ اور بغیر کسی نقش و نگار کے ہیں۔ صرف ایک پر بھدی سی چوکور شکل بنی ہے۔ یہ برتن چاک پر نہیں بلکہ ہاتھ سے بنے ہیں۔ ہاتھ سے بنے برتن عورتوں کے بنائے ہوتے تھے اور عموماً قدیم تر زمانے کی نشادہی کرتے ہیں۔ جب کہ چاک پر بنے موخر۔ چاک پر دو قسم کے برتن بنتے ہیں۔ ایک ست چاک جو قدیم ہے اور تیز رفتار چاک جو بعد میں ایجاد ہوا ہے ۔

رانہ غنڈئی کی نچلی بستی سے پتھر کے چاقو ملے ہیں۔ لیکن پتھر کی درانتی نہیں ملی۔ ہڈی کی دو آنیاں اور ایک ناکے والی سوئی ملی ہے۔ جانوروں کی بے شمار ہڈیاں بھی پڑی ملی ہیں۔ جن کی مدد سے ان لوگوں کے پالتو جانوروں کی فہرست تیار کی گئی ہے۔ ان میں کوہاں والا بیل، پالتو پھیڑ، گدھا اور پالتو گھوڑا شامل ہیں۔ گھوڑے کے دانت ملے ہین، یہ چیز سب سے حیران کن ہے۔ کیوں کہ مورخین کہنا کہ گھوڑا آریاؤں کے ساتھ سماج کا حصہ بنا۔ قدیم ترین رانہ غنڈئی میں 4000 ق م میں گھوڑے کا پالتو ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آریاؤں سے پہلے اس یہاں لوگ سواری کے لیے استعمال کرتے تھے ۔

دوسرا سطح ترمیم

رانا غنڈئی میں دوسرے مرحلے میں قدیم شہر کے ملبے پر نیا شہر بسایا گیا۔ مکانوں کی بنیادوں میں گول پتھروں کی بھرائی کی گئی۔ ان کے ظروف چاک پر بنے ہوئے ہیں اور نہایت علیٰ مصوری کے نمونے پیش کرتے ہیں۔ ان میں کوہان والے بیل اور کالے ہرن کی خوبصورت مسلوب تصویرں بنی ہیں۔ برتنوں کا رنگ کہیں گلابی ہے کہیں زرد اور کہیں مٹی کا قدرتی رنگ ہے۔ اس پر تصویریں کالے رنگ سے بنائی گئی ہیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی فنی مہارت کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایسی ہی بیل کی تصویریں وادی ژوب بعض دوسرے مقامات سے ملی ہیں۔ مثلاً سر جنگل سے۔ رانا غنڈئی کے برتنوں کی بناوت نہایت نفیس اور عمدہ ہے۔ ان میں خوبصورت پیالے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں پائیدان والے بھی ہے اور سادے چھلے دار پیندے والے بھی ہیں۔ یہ دوسرا مرحلہ زیادہ طویل وقت پر محیط نظر نہیں آتا ہے۔ عمارتوں کی سطح صرف ایک ہے۔ پھر لگتا ہے کہ لوگ جیسے اس بستی کو چھوڑ کر چلے گئے ہوں۔ معلوم ہوتا ہے یہ نیم اشتراکی لوگ تھے جو مکان بنا کر تو رہتے تھے۔ لیکن ان میں مکانوں کی ملکیت کا تصور زیادہ پختہ نہیں تھا۔ جب ضرورت پڑی مکان خالی چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔ آگے ان کو اور خالی گھر مل جاتے ہوں گے یا نئے گھر بنالیتے ہوں گے یا خیموں میں رہ لیتے ہوں گے ۔

تیسرا مرحلہ ترمیم

رانا غنڈئی کا تیسرا مرحلہ طویل ہے اور اس میں اوپر تلے مکانات کی تین سطحیں ملتی ہیں۔ اس طرح یہ تین ضمنی مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ تیسرا مرحلہ دوسرے مرحلے کی مادی ثقافت کی ترقی یافتہ شکل پر مشتمل ہے۔ برتنوں کی شکلیں بھی پرانے اسلوب کو مبالغہ دیتی ہیں۔ مثلاً پائیدان والا پیالہ اب زیادہ اونچا اور زیادہ چوڑا ہوجاتا ہے۔ پیندے والا پیالہ گلدان یا صراحی نما شکل اختیار کرلیتا ہے اور ان پر مصوری زیادہ نفیس اور آراستہ ہوجاتی ہے۔ اب اس میں کالے رنگ کے ساتھ لال رنگ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ ان میں لال اور کالے خانے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ مرحلہ آمری نال اسلوب سے ملتا جلتا ہے اور ان کا ہم عصر بھی ہے۔ اگر دوسرے مرحلے کی مصوری کو گرینڈ سٹائل سے موسوم کیا جائے تو تیسرے مرحلے کو خوبصورت اسلوب کے نام سے پکارا جا سکتا ہے۔ تیسرے مرحلے کے آخری حصہ کچھ ایسے آثار کا حامل ہے جس سے نظر آتا ہے کہ بستی پر حملہ کر کے اسے تباو و برباد کر کے اسے جلا دیا گیا ۔

ژوب ثقافت کے دوسرے ٹیلے کھودے گئے ہیں۔ ان میں سب کا طول و عرض اور گہرائی بھی تقیریباً اتنی ہی ہے جو رانا غنڈئی کی ہے۔ مثلاً پیر بانو غنڈئی کی مدوفون بستی۔ رانا غنڈئی کے تیسرے مرحلے کی ہم عصر ہے۔ اس طرح نال بھی رانا غنڈئی کے تیسرے مرحلے کے آخری زمانے کی ہم عصر ہے

ژوب ثقافت کا سب سے چھوٹا ٹیلہ غالباً سر جنگل ہے۔ جس کا قطر چالیس گز ہے اور سولہ فٹ اونچا ہے۔ وابر کوٹ اس تہذیب کا سب سے بڑا ٹیلہ ہے۔ اس کا قطر پانسو گز ہے اور اونچائی تیرہ فٹ۔ اس کا قدیم ترین زمانہ 5000 ق م ہے اور آخری سطح وادی سندھ کی تہذیب کو پیش کرتی ہے۔ بلکہ آخری آبادی میں ایک بدھ عمارت بھی ہے۔ اس جگہ کا حد سے بڑا سائز بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں طویل عرصے تک آبادی رہی ہے۔ ایک بستی کی تباہی کے بعد اس کے ملبے پر دوسری بستی بنتی رہی۔ اس کا آخری زمانہ 052 ق م کا ہے۔ اس کے بعد یہ بستی ہمیشہ کے لیے ویران ہو گئی ۔

رانا غنڈئی کے تیسرے مرحلے میں 11 * 13 فٹ کے کمرے اور 5 * 5 فٹ کے چھوٹے کمرے ملے ہیں۔ ہو سکتا ہے 5 * 5 فٹ کے رہائشی کمرے ہوں اور 11 * 13 فٹ کا صحن ہو۔ ان کی دیواریں بہت موٹی ہیں۔ مغل غنڈئی میں شہر کی حفاظتی فصیل کے آثار بھی ملے ہیں۔ ان کی تعمیرات کی بنیادوں میں بڑے بڑے گول پتھر استعمال ہوئے ہیں اور دیواریں کچی اینٹوں کی بنی ہوئی ہیں ۔

برتن ترمیم

سر جنگل سے کھلے منہ کے پیالے ملے ہیں۔ جن کے نیچے پتلا لمبا، مگر چوڑے پیندے والا پائیدان ہے۔ پیالوں کے اندر کوہان والے جانوروں کی تجریدی شکلیں بنی ہوئی ہیں۔ ان کی ٹانگیں حد سے زیادہ لمبی اور ان کی دم ان کی ٹنگوں کے نصف پر پنچ کر ختم ہوجاتی ہیں۔ سر جنگل میں ایک رنگت کے دو رنگوں میں مصور کی گئی ہے اور زیادہ تر ہلکے سرخ رنگ کی زمین پر گہرے سرخ رنگ میں تصویریں بنائی گئیں ہیں۔ جو ان کی دلآویزی میں اضافہ کرتی ہے ۔

پیر بانو غنڈئی سے ملنے والے برتنوں میں چھوٹا سا جام یا بوتل زیادہ عام ہے، اس کا پائیدان اور پیندا ہے۔ ان پر لال رنگ کا پانی چڑھانے کے بعد کالے رنگ کی مصوری کی گی ہے۔ یہ برتن نال کے مقام سوہرو دمب سے ملنے والے برتنوں سے مماثل ہیں۔ کچھ برتنوں کے ٹکڑے ایسے ملے ہیں جن پر جانوروں کی حقیقت پسندانہ تصویریں بنائی گئی ہیں۔ ایک برتن پر بیل بنا ہوا ہے، ایک پر ہرن، ایک پر دو مچھلیاں اور اکثر برتنوں پر ہندی شکلیں بنی ہیں ۔

مورتیاں ترمیم

ژوب ثقافت سے کلی کی طرح متعدد مٹی کی مورتیاں ملی ہیں۔ ان میں جانوروں کی مورتیاں بھی ہیں اور عورتوں کی بھی۔ یہ جن جگہوں پر سے ملی ہیں ان میں سر جنگل، پیر بانو غنڈئی، مغل غنڈئی کودانی اور دابر کوٹ شامل ہیں۔ ان موتیوں کا زمانہ رانا غنڈئی کا تیسرا زمانہ اور تقریباً 3500 ق م یا اس سے قبل کا زمانہ ہے۔ جانوروں میں کوہان والے اونٹوں اور غالباً ایک گھوڑے کی مورتی بھی ہے۔ اس زمانے میں گھوڑا مقامی لوگوں کے استعمال میں تھا۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ رانا غنڈئی کے سب سے قدیم یعنی پہلے مرحلے میں گھوڑے کے دانت ملے ہیں۔ لہذا اس مفروضے میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے کہ گھوڑا یہاں آریوں کے ساتھ آیا تھا ۔

عوتوں کی مورتیاں اس دور کی زندگی پر زبر دس روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ ساری ناف سے اوپر کی مورتیاں ہیں۔ جن میں بعض کے نچلے حصے ٹوٹ چکے ہیں اور جن کے سالم ہیں وہ ناف کے نیچے ایک پائیدان پر ختم ہوتی ہیں۔ گویا یہ ادھ مورتیاں BUSTS ہیں ان عورتوں نے طرح طرح کے زیورات پہن رکھے ہیں۔ مختلف شکلوں کے اور ایک سے زیادہ گلوبند، سر پر انھوں نے دوپٹے اوڑھ رکھے ہیں۔ اکا دکا مورتیوں کے سر پر چادر کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے دیدے گول اور ابھرے ہوئے ہیں۔ ناک ستواں اور نوکدار ہے۔ چھوٹا سا منہ اور پتلے ہونٹ، ابھری ہوئی چھاتیاں جو تنی ہوئی ہیں۔ مگر بحثیت مجموعی ان کی شکل ڈراؤنی اور بھیانک ہیں۔ یہ کلی کی ثقافت سے کئی باتوں یں ملتی ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ژوب مورتیاں ہر گز کھلونے نہیں ہیں۔ بلکہ یہ دیوی ماں کے مجسمے ہیں۔ اس دیوی کے جو تخلیق کی علامت بھی ہے اور مرے ہوئے لوگوں کی حفاظت کی بھی۔ کیوں جس طرح بیج مٹی میں دفن ہوکر دیوی ماں کی حفاظت چاہتا ہے تاکہ وہ زمین کی کوک میں سے پھوٹ پڑے اور دوبارہ پھلے پھولے۔ اس طرح مردے کو بھی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دہ بارہ جی اٹھے۔ تخلیق کی کچھ علامتیں بھی ملی ہیں۔ مغل غنڈئی سے پتھر پر کندہ ایک عضو تناسل بھی ملا ہے۔ پیر بانو غنڈئی سے ایک زنانہ مورتی ملی ہے جس کی شرم گاہ بڑے مبالغے سے بنائی گئی ہے۔ ذرخیزی کی علامت کے طور پر وادی سندھ میں بھی اس طرح کی مورتیاں بنائی جاتی تھیں ۔

حجری دور میں جب پہلے پہل ننگے سر پر دوپٹہ آیا تو وہ عظمت اور سر بلندی کی علامت کے طور آیا۔ پہلے یہ زنانہ مورتیوں کے سروں پر نظر آتا۔ جب کہ سماج میں عورت کی بلادستی تھی۔ اس لیے دیوی ماں پہلے نمودار ہوتی ہے اور اس کا پروہت بعد میں آتا ہے ۔

پتھر کے اوزار ترمیم

پیر بانو غنڈئی، سرو جنگل اور دابر کوٹ سے کچھ پتھر کے اوزار ملے ہیں۔ مثلاً نیزے کی انی، کچھ نوکدار برچھے یا بھالے کے پھل، پیر غنڈئی سے پتھر سے تراشے ہوئے برتن بھی ملے ہیں۔ وابر اور مغل غنڈئی سے لاجورد اور یشب کے منکے بھی ملے ہیں۔ ہڈی سے بنے گول منکے، چوڑیاں، سوئیاں اور ٹکیہ نما منکے ان شہروں سے ملے ہیں۔ دھات ان جگہوں سے ملی ہے اور جو ملی ہیں وہ بعد کے زمانے کی تسلیم کی جاتی ہیں۔ جب وادی سندھ تہذیب ان علاقوں پر حاوی ہو چکی تھی۔ دھات کی چیزوں میں تامبے کی سلاخ، انگوتھی، پیالہ وغیرہ ملے ہیں۔ وابر کوٹ سے سے سونے کا بنا ناک کا ایک کیل بھی ملا ہے۔ اور ایک سونے کی پتری کا ٹکڑا بھی۔ یہ سب وادی سندھ کی تہذیب کے دور کی ہیں۔ دو چوکور مہریں بھی ملی ہیں، جن میں ایک پتھر کی بنی ہوئی ہے اور دوسری کسی نامعلوم شے کی۔ کیوں کے اصل مہر محفوظ رہ نہیں سکی۔

قبریں ترمیم

سر جنگل سے تقریباً ساٹھ ستر گز کے فاصلے پر پتھروں سے بنی کوئی بیس چھوٹی چھوٹی قبریں ملی ہیں۔ ان میں جلی ہوئی لاشیں مدون ہیں۔ جن میں فقط جلی ہوئی ہدیاں رہ گئیں ہیں۔ ایک جگہ پتھر کا چاقو اور ایک جگہ برتن کا ٹکڑا ملا ہے۔ پیر غنڈئی میں ایسی ہی جلی ہوئی ہڈیاں برتن میں رکھ کر دفن کی گئی اور ایک کمرے کے اندر فرش کھود کر بنائی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے قابل احترام ہستی کا مزار ہے۔ ایک قبر ایک دیوار کے قریب جس میں بڑے برتن میں جلی ہوئی ہڈیاں اور اس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے کئی برتن رکھ دئے گئے ہیں۔ رانا غندئی سطح دوم کا زمانہ تقریباً 5000 ق م ہے۔ جو وادی سندھ کی تہذیب سے خاصا پرانا ہے۔ رانا غنڈئی کا سطح سوم کا زمانہ بعد کا ہے اور یہ وادی سندھ کے دور میں آکر مل جاتا ہوگا ۔

پگٹ کا خیال یہ بھی خیال ہے کہ کوئٹہ، آمری نال، کلی اور ژوب ثقافتوں کی انفرادی خصوصیت یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ سب چھوٹی کسان سلطنتیں تھیں۔ ان میں جو مماثلیں ہیں وہ کسانوں کی مشترکہ مادی ضرورتوں کا نتیجہ ہیں۔ جو ان کو باہمی ربط ضبط پر مجبور کرتی رکھتی ہوں گی ۔

حوالہ جات ترمیم

  1. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور