اسلام مذہبی لٹریچر کے اعتبار سے کافور سے مراد عام اردو زبان کا کافور نہیں، بلکہ یہ جنت کے ایک چشمے کا نام ہے۔ یعنی ایسے چشمے سے جس سے اللہ کے خاص بندے پئیں گے اور اس میں ملائیں گے یا یہ کہ کافور کے چشمے کو جنت میں اپنے محلات وغیرہ میں جہاں چاہیں گے بہا کرلے جائیں گے۔[1]
إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا
حالانکہ کافور جنت میں ایک چشمہ ہوگا جس کو دنیا کے کافور پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس کا تصور اس طرح قائم ہوتا ہے کہ وہ صفائی اور ٹھنڈک میں کافور کی طرح ہوگا نیز اس کی خوشبو اور اس کا ذائقہ ایسا ہوگا کہ پینے والے اس سے سرور حاصل کریں گے۔ اس کی تھوڑی سی مقدار ہی شراب کو لذت بخش بنانے کے لیے کافی ہوگی۔ اس لیے شراب کے جام میں اس کی آمیزش ہوگی۔
یہ ضروری نہیں ہوگا کہ وہ اس چشمہ پر آئیں اور پھر اس سے بہرہ مند ہوں بلکہ یہ بات ان کے اختیار میں ہوگی کہ وہ جہاں چاہیں اس چشمہ کو جاری کر دیں۔[2]
اہل جنت شراب پئیں گے جس میں تھوڑا سا کافور ملایا جائے گا۔ یہ کافور دنیا کا نہیں بلکہ جنت کا ایک خاص چشمہ ہے جو خاص طور پر اللہ کے مقرب و مخصوص بندوں کو ملے گا۔ شاید اس کو ٹھنڈا، خوشبودار، مفرح اور سفید رنگ ہونے کی وجہ سے کافور کہتے ہوں گے۔[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. تفسیر ابن عباس پروفیسر محمد سعید احمد عاطف
  2. تفسیر دعوت قرآن شمس پیرزادہ صاحب
  3. تفسیر عثمانی مفسر مولانا شبیر احمد عثمانی