کاپی رائٹ یا حقوق نقل ایک قانونی تصور ہے جو عام طور پر حکومتوں کی طرف سے ایک محدود مدت کے لیے کام کے اصل خالق کو خصوصی حقوق دیتا ہے۔

پہلا کاپی رائٹ قانون - 1710

حقِ کاپی رائٹ وہ حق ہے جو کسی کتاب یا رسالہ وغیرہ کے مصنف یا ناشر کو قانونی طور پر ایک خاص مدت کے لیے حاصل ہوتا ہے اور اس کی رو سے اس کے سوا کوئی بھی اس کی طباعت یا اشاعت نہیں کرسکتا ہے اور نہ اسے فروخت کرسکتا ہے۔ رومن دور حکومت میں نہایت محدود پیمانہ پر اس حق کا تعین کیا گیا تھا لیکن عام طور پر اس کا رواج پندرہویں صدی عیسوی میں طباعت کے فروغ سے شروع ہوا۔ اس زمانہ میں یورپ کے حکمراں، افراد یا ناشرین کی گلڈ کو فرمان کے ذریعہ کسی کتاب وغیرہ کی طباعت و اشاعت کاحق عطا کرتے تھے۔ اس فرد یا گلڈ کے سوا کسی اور کو اس کتاب کی اشاعت کا حق نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح وہ ایک طرف آسانی کے ساتھ کتاب کو سنسر کرسکتے تھے۔ تاکہ کوئی باغیانہ خیالات یا الحاد کی باتیں نہ شائع ہونے پائیں۔ اس کے علاوہ مطبع کے مالکوں اور ناشروں کے ادارے یا گلڈ بھی نظر رکھتے تھے تاکہ کوئی کتاب چوری چھپے نہ شائع ہو۔

کاپی رائٹ کے بارے میں انگلستان میں پہلا مکمل قانون 1710ء میں بنا اور امریکا میں 1790ء میں۔ لیکن بہت ساری کتابیں جو ایک ملک میں چھپتیں ان کے سستے اڈیشن دوسرے ملکوں میں بلا اجازت چھاپ کر شائع کر لیے جاتے۔ اس لیے 1887ء میں برن (سویٹزرلینڈ) میں سمجھوتا ہوا۔ جس کی رو سے اس چوری پر پابندی لگا دی گئی۔ شروع میں امریکا اس سمجھوتے میں شریک نہیں ہوا۔ ستمبر 1952ء میں دنیا کے تمام آزاد ملکوں نے بین الاقوامی کاپی رائٹ کا ایک قانون منظور کیا جس میں امریکا بھی 1954ء میں شریک ہو گیا۔ اس قانون کے مرتب کرنے میں مجلس اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسکو نے کافی اہم حصہ لیا۔ اسے یورپ، ایشیا اور دوسرے علاقوں کے اکثر ملکوں نے تسلیم کر لیا ہے۔

دائرہ کار

ترمیم

کاپی رائٹ کا اطلاق عام طور پر تخلیقی، دانشور یا فنکارانہ کام کے ایک وسیع دائرہ پر ہوتا ہے۔ تفصیلات مختلف دائرہ اختیار میں مختلف ہوتی ہیں، لیکن ان میں نظمیں، ڈرامے اور دیگر ادبی کام مثلاْ فلمیں، رقص، موسیقی، صوتی تسجیل، نقاشی (پینٹنگز)، کشید (ڈرائنگ)، مجسمے، تصاویر، سافٹ ویئر (سافٹ ویئر)، مشعہ (ریڈیو) اور بعید نُما (ٹیلی ویژن) کی نشریات اور صنعتی طرحبند (ڈیزائن) شامل ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

فہرست ممالک بلحاظ حد حقوق نسخہ