کوئٹہ کے ارد گرد اور جنوب میں کلی گل محمد میں پگٹ نے مٹی کے برتنوں کا ایک سلسلہ دریافت کیا۔ انھیں کوئٹہ ثقافت کا نام دیا گیا ہے۔ شروع شروع میں انھیں پانچ ٹیلوں تک محدود سمجھا گیا۔ لیکن بعد میں مزید کھدائیوں سے کوئٹہ ثقافت کا دائرہ 120 میل تک جنوب میں پھیل گیا۔ اب کوئٹہ ثقافت کوئٹہ سے توگاؤ، قلات، سراب، سیاہ دمب سراب اور انجیرہ تک محیط تسلیم کیا جاتا ہے ۔

پگٹ نے جو پانچ ٹیلوں سے برتن دریافت کیے تھے۔ وہ ایک مخصوص طرز پر بنے کچھ مٹی کے برتن تھے اور کچھ سیککھڑی پتھر ( سنگ جراہت ) کے تراشے ہوئے ٹوٹے ہوئے پیالے تھے ۔

ان پانچ ٹیلوں میں سب سے بڑے ٹیلے میں مدفون بستی کی لمبائی تقریباً چھ سو فٹ تھی اور اتنی ہی چوڑائی تھی۔ یہ آبادی سطح زمین سے 45 سے لے کر پچاس فٹ تک نیچے تھی۔ اپنے وقت میں یہ ایک چھوٹا سا گاؤں رہا ہوگا۔ یہاں کے مکانات گار یا مٹی کے بنے تھے۔ یہ کچھی اینٹیں پھر مرور ایام سے یکجان مٹی کے تودے میں تبدیل ہو چکی ہیں۔

اس گاؤں سے ملے برتن نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ زرد گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر نہایت نفیس نقاشی کی گئی ہے۔ جو سرمئی مائل بھورے (قدرے سیاہ) رنگ سے بنی ہوئی ہے اور ان پر صرف یہی ایک ہی رنگ استعمال ہوا ہے۔ دوسرا کوئی رنگ استعمال نہیں ہوا ہے۔ خاص طور پر سرخ رنگ سے کوئی نقش نہیں بنایا گیا، یک رنگی کی یہ خصوصیت نہایت دلچسپی کا باعث ہے۔ کیوں کہ پورے بلوچستان میں تمام برتن ہمیشہ دو رنگ (سرخ و سیاہ) استعمال ہوئے ہیں۔ بعض برتن سالم ملے ہیں۔ جس سے ان کی نوعیت بندی کی جا سکتی ہے۔ بعض تو کھلے منہ کے پیالے ہیں۔ جن کے دھانے کے کنارے ذرا سا باہر کو مرے ہوئے ہیں۔ کچھ کم اونچائی کے گول کٹورے ہیں۔ بعض دہرے مخروطی برتن ہیں۔ یعنی پیندا بھی تنگ منہ بھی تنگ اور درمیانی حصہ پھولا ہوا ہے۔ پیندے اور منہ کا گھیراؤ آپس میں برابر ہیں۔ یہ بغیر گردن والے گھڑے کی شکل کے ہیں۔ اسی طرح کچھ کم گہرائی والی طشتریاں بھی ملی ہیں اور ایک پاندان والا برتن بھی ملا ہے جس میں تکونے سوراخوں کی کثرت اسے چھلنی بنا دیا ہے۔

ان برتنوں کے رنگ گلابی نما سفید سے سبزی مائل تک ہیں۔ مگر سبز رنگ چڑھایا نہیں گیا تھا۔ بلکہ آگ میں زیادہ پکانے سے خود بخود یہ رنگت بن گئی ہے۔ ایک ایک آدھ ٹکڑا خاکستری رنگ کی مٹی سے بنے کم گہرے پیالوں کا بھی ملا ہے۔ جس پر سیاہ نقاشی کی گئی ہے۔ نقاشی کی شکلیں سب کی سب ہندسی ہیں اور جانوروں کی تصویریں ناپید ہیں۔ تکونیں، بیضوی شکلیں، مربعے کو کونے سے کاٹ کر ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔ بعض جگہ آمنے سامنے تکونیں رکھی گئی ہیں۔ دندانے دار نمونے اور منحنی خطور سے بنائی ہوئی تکونیں، پھر ان کے اندر باریک نقش گری کی گئی ہے ۔

ان برتنوں کی مماثلت ایران، عراق اور روس سے ملنے والے بعض برتنوں کے ساتھ پائی گئی ہے۔ ایران میں تل باکون (سطح اول)، سوسہ (سطح اول)، گیلان (سطح 5)، ترکستان میں اناؤ (سطح اول، دوم) اور عراق میں نینوا ( سطح 5 ) سے ملنے والے برتنوں کی بعض بعض کوئٹہ ظروف سے مماثلت ہے۔ نینواہ کے یہ برتن 2500 ق م کے قریب تسلیم کیے گئے۔ اگر ان مماثلوں کی بنا پر تاریخ کا تعین کرنا درست ہو تو پگٹ کے یہ ڈھونڈے ہوئے ظروف اور ان کی ہم عصر ثقافت 2500 ق م کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے ۔

لیکن بعد میں کی جانے والی کھدائیوں سے کوئٹہ ثقافت کے بارے میں پگٹ کے دونوں مشاہدادت میں تبدیلی کی ضرورت پیش آئی۔ اس کا خیال تھا کہ کوئٹہ ظروف سے مماثل پورے بلوچستان میں کہیں اور ظروف نہیں ملے۔ اس کے برعکس ان کی مماثلت ایران، عراق اور روسی ترکستان میں دستیاب ہے۔ دوسرا یہ خیال کہ کوئٹہ ثقافت 2500 ق م تک میں جاتی ہے۔ دونوں ترمیم طلب ہیں ۔

محترمہ بیٹرس دی کار وی BEATRICE DE CARDI نے قلات ڈویزن میں جو کھدائیاں کروائی تھیں اور ڈاکٹر والٹر اے فیئر سروس جونئیر نے وادی ژوب اور وادی کوئٹہ میں جو تحقیقاتی کام کیا تھا۔ پھر اس کے بعد پاکستانی ماہرین نے جو مزید تحقیقات کیں ان سے کوئٹہ ثقافت کو دائرہ بلوچستان میں وسیع تر ہو گیا۔ کاردی نے دو مقامات پر تفصیلی کھدائی کروائی۔ ایک انجیرہ اور دوسرا سیاہ دمب سراب۔ بلوچستان میں سیاہ دمب نام کے کئی ٹیلے ہیں۔ مگر ماہرین آثار نے ان میں سے تین پر کھدائیاں کی ہیں۔ ایک تو وہی سراب کے قریب سیاہ دمب سراب۔ دوسرا نندارہ کے پاس ہے۔ تیسرا جھاؤ کے قریب ہے۔ سیاہ دمب سراب، نندارہ اور جھاؤ اپنے طور پر اثری اہمیت رکھتے ہیں ۔

کوئٹہ ثقافت سماج کے ایک نہایت تیز رفتار ارتقائ کو پیش کرتی ہے اس میں قدیم خانہ بدوش اور مادر سری سماج تیزی سے قیام پزیر، یہ پدر سری طبقاتی سماج میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ تیزی ارتقائی انقالابات کے ذریعے ہوئی۔ زیر دست لوگ بالا دست لوگوں کو تباہ و برباد کرتے تھے۔ ان کی بستیوں کو ملیا میٹ کرتے اور ان کی راکھ پر نئی بستیاں بساتے۔ ایک علاقے کے چند گاؤں دوسرے علاقے کے چند غاؤں پر غالب آتے تو مفتوحہ ثقافت کی جگہ فاتح کی ثقافت غالب آجاتی ہے۔ گو مفتوحہ ثقافت نئے سماج میں ضرور حصہ ڈالتی ہے۔ بار بار کی علاقائی جنگیں اور شہر کی تباہی اور آتش زنی اس کا ثبوت ہیں کہ یہ لوگ غیر فوجی نسلوں یا اطاعت گزار گرہوں پر مشتمل نہ تھے اور نہ یہ دبیل آبادیاں تھیں اور نہ ہی غیر متحرک ساکن و جامد ثقافتیں تھیں۔ یہ لوگ عام نسل انسانی کی طرح ہر قسم کی خصوصیات رکھتے تھے اور ان کے عمل اور رد عمل بھی اسی طرح پیداوار عمل کے ساتھ مربوط تھے جس طرح دنیا کہ دیگر علاقوں کے لوگوں کے تھے ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور