مغربی ترکی کا ایک شہر جس کی آبادی 2004ء کے اندازوں کے مطابق ایک لاکھ 70 ہزار باشندوں پر مشتمل ہے۔ کوتاہیہ دریائے بورسک کے کنارے سطح سمندر سے 930 میٹر بلندی پر واقع ہے۔ یہ صوبہ کوتاہیہ کا صدر مقام ہے۔

کوتاہیہ زمانۂ قدیم سے صنعتی علاقے کے طور پر معروف رہا ہے خاص طور پر ظروف سازی اور سفال گری کی صنعت کے حوالے سے اسے قدیم دور سے ہی ممتاز مقام حاصل رہا۔ جدید صنعتوں میں شکر سازی اور دباغت اور زرعی صنعت میں اناج، پھل اور شکر قندی شامل ہیں۔

کوتاہیہ ریل اور سڑکوں کے ذریعے مغرب میں 250 کلومیٹر دور بالکیسر، جنوب مغرب میں 450 کلومیٹر دور قونیہ، شمال مشرق میں 70 کلومیٹر دور اسکی شہر اور مشرق میں 300 کلومیٹر دور انقرہ سے ملا ہوا ہے۔

کوتاہیہ کے قدیم علاقوں میں روایتی عثمانی طرز کے مکانات بکثرت ملتے ہیں۔ شہر میں آثار قدیمہ بھی ملتے ہیں جن میں ایک بازنطینی دور کا قلعہ اور گرجا بھی شامل ہیں۔

1071ء میں سلجوقیوں سے اس شہر کو فتح کیا اور اگلے چند سالوں تک اس پر مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں 1095ء میں یہ مسیحیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ سلجوقیوں نے دوسری مرتبہ اسے 1182ء میں فتح کیا۔ 1402ء میں جنگ انقرہ کے بعد امیر تیمور نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ 1482ء میں یہ عثمانی سلطنت کا حصہ بنا جس کے دوران اس نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی لیکن 19 ویں صدی میں صرف 70 کلو میٹر دور اس کی شہر کے تیزی سے پھیلنے کے بعد کوتاہیہ کی ترقی گہنا گئی اور یہ علاقائی و اقتصادی اہمیت کھو بیٹھا۔

1831ء عثمانی سلطنت کے والئ مصر محمد علی پاشا کی بغاوت کے بعد اس کا بیٹا ابراہیم پاشا شہر پر شہر فتح کرتے ہوئے کوتاہیہ تک پہنچ گیا تھا لیکن عالمی قوتوں کی مداخلت کے باعث محمد علی کو سمجھوتہ کرنا پڑا۔

ترکی کے معروف سیاح اور مصنف اولیاء چلبی کا تعلق اسی شہر سے تھا۔