کٹھہ مصرال
کٹھہ مصرال(انگریزی: Katha Masral)،خوشاب سے چھبیس (26) کلومیٹر کی مُسافت پر دامن مُہاڑ میں واقع ہے۔کٹھہ مصرال دو الفاظ’’ کٹھہ‘‘ اور’’ مصرال‘‘ سے مل کر بنا ہے۔کٹھہ ہندکو زبان کا لفظ ہے۔جس کے معنی بڑا نالہ، نہر اور جے کے ہیں یا وہ جگہ جہاں سے پانی پہاڑ سے نیچے آتا ہو اور پانی کا بہاؤ بھی بہت تیز ہو۔قرین خیال کیا جاتا ہے کہ کٹھہ مصرال میں ایک قدیمی اور دائمی چشمہء آب ہے اسی وجہ سے اس گاؤں کا نام ’’کٹھہ‘‘ پڑا۔ یہ گیارہویں صدی میں آباد ہوا۔
برادریاں
ترمیماُس وقت یہاں دو قومیں آباد تھیں جن میں’’ جنجو عہ ر ا جپوت‘‘ اور دوسری ’’آرائیں‘‘۔ کٹھہ مصرال کے جنوب مشرق میں تین(3)کلومیٹر کی مُسافت پر ایک گاؤں’’کٹھہ سگھرال‘‘ بھی واقع ہے۔ کٹھہ مصرال اورکٹھہ سگھرال کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاں آج کل کٹھہ مصرال اور کٹھہ سگھرال آباد ہیں وہاں سب سے پہلے جنجوعہ قوم سے تعلق رکھنے والے دو بھائی ’’راجامصر‘‘ اور’’ راجا سگھر‘‘آباد ہوئے جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ چچا بھتیجا تھے۔ کہاجاتاہے کہ اسی وجہ سے اِن گاؤں کے نام ’’کٹھہ مصرال ‘‘اور’’ کٹھہ سگھرال‘‘ پڑ گئے تھے۔ کٹھہ مصرال کی آبادی آٹھ ہزار(8000)نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کی ساٹھ فیصد آبادی جنجوعہ قوم کی گوتیں ملکال،حق مال، بڈھال،کرمال،پرجال،بخشال اور گِکڑال وغیرہ ہیں اور باقی چالیس فیصد آبادی دوسری قوموں یعنی موچی،حجام،دھنائی،لنگاہ،تھہیم، پاولی،مسلم شیخ،جاندری اعوان،مہر(آرائیں)،لوہار،مستری،ڈھیور اور جٹ برادری پر مشتمل ہے۔ یہاں کی مقامی زُبان ’’پنجابی‘‘ ہے ۔
ڄغرافیہ
ترمیمکٹھہ مصرال کے شمال اور مغرب میں دِل کش اور خوب صورت پہاڑ ہیں جہاں کوئلے اور نمک کے وسیع زخائر موجود ہیں اور یہ نہایت ہی خوب صورت اور تفریحی مقام ہے اورمشرق میں ایک چھوٹا سا گاؤں’’کوٹلی راجگان ‘‘واقع ہے۔ کٹھہ مصرال کے جنوب میں زرخیز زمینیں ہیں جس پر اِہل کٹھہ ٹماٹر، پیاز،جوار،باجرہ،گندم اور مختلف قسم کی سبزیاں کاشت کرتے ہیں جن کی آمدن سے یہاں کے باسی ضروریاتِ زندگی اور اپنے پیٹ کی آگ بُجھاتے ہیں۔ کٹھہ مصرال میں ایک میٹھا چشمہ بھی ہے جِسے مقامی زُبان میں ’’جے‘‘ کہا جاتا ہے۔
اسی چشمے سے کٹھہ مصرال ،کٹھہ سگھرال اورکوٹلی کے مکین اپنی اپنی فصلوں کو سیراب کرتے ہیں اور یہی پانی آب نوشی کے بھی کام آتا ہے اِسی چشمہ پر قدیم دور کی بنی ہوئیں آٹے کی پن چکیاں بھی موجود ہیں جِنہیں مقا می زبان میں’’ جَندر‘‘ کہتے ہیں۔ اِن جندروں میں سے چودہ جندر اَب بھی اپنی مکمل شان وشوکت کے ساتھ آباد ہیں جبکہ ماضی میں چلنے والے نو(9) جندروں کی باقیات بھی مِلی ہیں جو اُن کے ماضی میں موجود ہونے کاپتہ دیتی ہیں۔ کٹھہ مصرال میں لڑکوں کے لیے’’ گورنمنٹ اِیلمنٹری اسکول ‘‘اور لڑکیوں کے لیے’’ گورنمنٹ گرلز کمیونٹی ماڈل اسکول ‘‘بھی قائم کیا گیا ہے اور دِلچسپ بات یہ ہے کہ لڑکیوں کے اسکول میں ہندوؤں کا مقدس مقام’’ مندر‘‘ بھی موجود ہے جہاں ماضی میں ہندو اِس کی پوجا کیا کرتے تھے۔ تاریخی اہمیت کا حامِل یہ مندر آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ آج جبکہ دُنیا گلوبل ویلج کا روپ دھار چکی ہے اور پہلے کی نسبت اب تعلیم کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے مگر ہمارے علاقہ کی بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارے پاس ابھی تک لڑکیوں کے لیے صرف پرائمری اسکول ہے۔ یہ خوفناک حقیقت خادم اعلی پنجاب کے َ ’’پڑھا لکھا پنجاب ہمارا‘‘ پروگرام پر اور اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ کٹھہ مصرال میں کُل پانچ مساجد ہیں اور یہاں کی’’ جامع مسجِد بوڑھ والی‘‘ دیکھنے سے تعلُق رکھتی ہے۔ کٹھہ مصرال کے مکینوں کے لیے واٹرسپلائی بھی قائم کی گئی ہے جِس کے پائپوں کا جال پورے گاؤں میں بچھایا گیا ہے جِس کا پانی پینے اور دوسری ضروریاتِ زندگی کے کاموں میں اِستعمال میں لایا جاتاہے۔ مندرجہ بالاتمام ترقیاتی منصوبوں کا سِہرا ضلع خوشاب کی ہر دِل عزیز شخصیت و سابق وفاقی وزیر ملِک نعیم خان اور سابق پارلیمانی سیکرٹری ملِک عمر اسلم اعوان کے سَر ہے جِن کی شبانہ روز محنت کی بدولت یہ منصوبے پایہ تکمیل کو پُہنچے۔
پیر سیّد محمد مقصود علی شاہ بخاریؒ
ترمیمکٹھہ مصرال کے تھوڑا سا شُمال میں غوث الزماں پیر سید محمد مقصود علی شاہؒ صاحب کا ڈیرا بھی ہے جہاں ہر سال اِسلامی مہینے کے مطابِق19, 20 شعبان المعظم کی رات کوعُرس مُنعقِدکیا جاتا ہے جِس میں ہزاروں مُریدین شِرکت کرتے ہیں۔ ڈیرا پیر صاحب کے مغرب میں پہاڑ کے بالکُل قریب ایک خَستہ حال’’ قدیمی قبرِستان‘‘ بھی ہے جہاں پر صدیوں پُرانی قبریں اور اور اُن کے کَتبے موجود ہیں ۔
قلعہ
ترمیمکٹھہ مصرال کے تھوڑا سا شُمال میں تاریخی اہمیت کا حامل نہایت مشہور’’ست گھرا‘‘ بھی موجود ہے جِسے مقامی زُبان میں ’’ پَکا کوٹ ‘‘کے نام سے پُکارا جاتاہے۔ پکاکوٹ کے مُتعلِق روایت ہے کہ انگریزوں کے دور میں یہ راہ داری کے لیے اِستعمال کیا جاتا تھا۔ کٹھہ مصرال کے بالکُل وسط میں قدیم دور کابنا ہوا ایک بنگلہ بھی ہے جِسے یہاں کے باسی’’ بودھووالے بنگلے‘‘ کے نام سے جانتے ہیں،بودھووالے بنگلے کے متعلق روایت ہے کہ یہاں ایک ہندو تاجر رہائش پزیر تھااور یہ ’’بودھووالا بنگلا ‘‘آج بھی خستہ حال حالت میں موجود ہے۔
مندر
ترمیمکٹھہ مصرال کے بالکُل مغرب میں پہاڑ کے اُوپر ہندوؤں کا ایک مُقدس مقام نہایت ہی خستہ حال حالت میں اَبھی بھی موجود ہے جِسے اہلِ علاقہ ’’ہاتھی ‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔ ہاتھی کی شکل میں بنے اِس قُدرتی مُجَسمے کے متعلِق روایت ہے کہ یہاں ہندو اس مُجَسمے کی پُوجا کیا کرتے تھے اور ہندو عقیدت مند اِس پر پیسے بھی رکھا کرتے تھے۔
شخصیات
ترمیمکٹھہ مصرال کے پانچ وکلا بھی ہیں جن کے نام یہ ہیں راجا حسن نواز جنجوعہ، ملک احسان قادر اعوان،راجا عابد حسین جنجوعہ، راجا ربنواز جنجوعہ،راجا ارشد محمود جنجوعہ (پراسیکیوٹر)۔ اگر کٹھہ مصرال کی اَدبی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو میں یہ کہنے میں حق بجانِب ہوں کہ اِس دھرتی پر ادیبوں کی کوئی قابل ذکر ہستی سِرے سے موجود ہی نہیں رہی اور ہاں نوجوانوں میں آج کل عمر حیات تھہیم منظرِعام پر آ رہے ہیں۔ جو پنجابی زُبان میں پائے کی شاعری کرتے ہیں۔ عمرحیات تھہیم ’’ ریڈیو پاکِستان ایف ایم تِرانوے (93)سرگودھا‘‘کے مقبول پروگرام ’’اَدبی بیٹھک‘‘ میں بھی بطور شاعر شرکت کر چُکے ہیں۔ آپ کا شُمار نلی کے رہنے والے ملِک احمد نواز عادِل ؔ کے خاص شاگِردوں میں ہوتاہے۔ جو خود بھی پنجابی زُبان و اَدب کے معروف شاعِر ہیں اور راقم(شعیب انجم ) کا تعلق بھی کٹھہ مصرال ہی سے ہے۔ اگر کٹھہ مصرال کو مُلازمین کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں بہت کَم افراد مُلازمَت پیشہ ہیں جنہیں اُنگلیوں پر گِنا جا سکتا ہے یہاں کے پناہ گُزین لوگوں کا زیادہ تر انحصار کاشت کاری پر ہوتاہے۔ ٹماٹر اور پیاز یہاں کی مشہور فصلیں تصور کی جاتی ہیں اور آخر میں حُکامِ بالا یہی گُزارش کروں گا کہ جِن تاریخی عمارتوں کا میں نے اپنی تحریر میں ذکر کیا ہے اگر اُن کی مُناسِب دیکھ بھال کا بندوبَست کیا جائے تو یہ وَر ثہ صدیوں تَک محفوظ کیا جا سکتا ہے