کہکشاؤں، کہکشانی جھرمٹوں، اور بڑے پیمانے کی ساختوں کے علم کا خط زمانی

کہکشاؤں، کہکشانی جھرمٹوں اور بڑے پیمانے کی ساختوں کے علم کا خط زمانی

بیسویں صدی سے قبل 

ترمیم
  • پانچویں قبل مسیح - دمقراط نے خیال پیش کیا کہ رات کے آسمان میں نظر آنے والی روشن پٹی جس کو ملکی وے کہکشاں کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ستاروں پر مشتمل ہو،
  • چوتھی قبل مسیح - ارسطو کا عقیدہ تھا کہ ملکی وے کی وجہ "کچھ ایسے ستاروں کی شعلہ فشاں آتش گیر تبغیر ہے جو بڑے تعداد میں کافی اور آپس میں کافی قریب ہیں" اور "یہ آتش گیری دنیا کے کرۂ فضائی کے اس بالائی حصّے میں وقوع پزیر ہوتی ہے جو مسلسل سماوی حرکت میں رہتا ہے"،
  •  964 - عبد الرحمن رالصوفی (ازوفی)، ایک فارسی فلکیات دان، نے تاریخ میں سب سے پہلے اپنی کتاب "مستقل ستاروں کی کتاب" میں اینڈرومیڈا کہکشاں اور بڑے میجیلانی بادل کا مشاہدہ درج کیا اور یہ ملکی وے کہکشاں کے بعد پہلی کہکشاں تھی جس کا مشاہدہ زمین سے کیا گیا تھا،
  • گیارویں صدی - ابو ریحان البیرونی، ایک اور فارسی فلکیات دان تھا، جس نے ملکی وے کہکشاں کو لاتعداد سحابیہ ستاروں کے مجموعے سے بیان کیا تھا،
  •  گیارویں صدی - ابن الہیثم، جو ایک عربی فلکیات دان تھا، اس نے ارسطو کی ملکی وے کہکشاں کے بارے میں نظریے کو پہلی دفعہ میں ملکی وے کہکشاں کا اخلاف زاویہ ناپ کر رد کردی، اس نے اس طرح "تعین کیا کہ کیونکہ زمین سے ملکی وے کا اخلاف زاویہ نے ہے، لہٰذا یہ زمین سے کافی دور ہوگی اور اس کا فضا سے کوئی تعلق نہیں ہے"، 
  • بارہویں صدی - اسلامی اسپین کے ابن باجہ نے تصور پیش کیا کہ ملکی وے ستاروں سے مل کر بنی ہے تاہم زمین کے کرۂ فضائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے اِنعطافی اثر کی وجہ سے یہ ایک مسلسل تصویر کی طرح نظر آتی ہے،
  • چودھویں صدی - شام کے ابن قائم الجوزی نے تصور پیش کیا کہ ملکی وے کہکشاں "مستقل ستاروں کے کرہ میں آپس میں بندھے ہوئے ہزارہا چھوٹے ستارے ہیں" اور یہ ستارے سیاروں سے بڑے ہیں، * 1521 - فرڈینانڈ میجیلان نے مجیلانی بادلوں کا مشاہدہ دنیا کے گرد بحری جہاز میں چکر لگانے کی مہم کے دوران کیا،
  • 1610 - گیلیلیو گلیلائی نے آسمان کی روشن پٹی "ملکی وے" کے تعین کے لیے دوربین کا استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کافی چھوٹے مدھم ستاروں پر مشتمل ہے،
  • 1750 - تھامس رائٹ نے کہکشاؤں اور ملکی وے کی ہیئت کے بارے میں بحث کی،
  • 1755 - رائٹ کے کام کی بنیاد پر ایمانیول کانٹ نے قیاس کیا کہ کہکشاں ستاروں کی ایک گھومتی ہوئی قرص ہے جس کو آپس میں کشش ثقل نے باندھ کر رکھا ہے اور سحابیہ ان سے الگ اسی طرح کی کہکشائیں ہیں؛ اس نے انھیں جزیرہ نما کائنات کہا،
  • 1785 - ولیم ہرشل نے پہلی مرتبہ آسمان کے مختلف علاقوں میں ستاروں کی تعداد کو محتاط طریقے سے گن کر ملکی وے کہکشاں کی ہیئت اور سورج کے مقام کو بیان کرنے کی کوشش کی۔ اس نے کہکشاں کا ایک ایسا نقشہ بنایا جس میں نظام شمسی مرکز سے قریب تھا۔
  • 1845 - لارڈ روز نے ایک ایسا سحابیہ دریافت کیا جس کی اپنی مختلف مرغولہ نما ساخت تھی۔ 

بیسویں صدی کے اوائل میں

ترمیم
  • 1918 - ہارلو شپیلی نے دکھایا کہ عالمگیری جھرمٹ کرہ نما یا ہالے کی صورت میں منظم ہیں جن کا مرکز زمین نہیں ہے اور اس نے درست طور پر سمجھا کہ اس کا مرکز کہکشاں کا کہکشانی مرکز ہے،
  • 1920 - ہارلو شپیلی اور ہیبر کرٹس نے بحث کی کہ آیا مرغولہ نما سحابیہ ملکی وے کے اندر ہیں یا نہیں،
  • 1923 - ایڈون ہبل نے شپیلی-کرٹس کی بحث کو اینڈرومیڈا کہکشاں میں قیقاؤسی متغیر کو تلاش کرکے نمٹایا،
  • 1930 - رابرٹ ٹرمپلر نے کھلے ہوئے جھرمٹوں کے مشاہدے کا استعمال کرکے کہکشانی سطح میں بین النجم دھول کے روشنی کو جذب کرنے تعین کیا؛ روشنی کے اس جذب ہونے کے تعین نے ملکی وے کہکشاں کے پہلے نمونوں کو خراب کر دیا تھا،
  • 1932 - کارل گتھ جانسکی نے ملکی وے کے مرکز سے ریڈیائی شور کی دریافت کی،
  • 1933 - فرٹز زویکی نے کوما جھرمٹ پر سکت مسئلہ اثباتی کا اطلاق کرکے نظر نہ آنے والی کمیت کے بارے میں ثبوت حاصل کیے،
  • 1936 - ایڈون ہبل نے مرغولہ، سلاخی مرغولہ، بیضوی اور بے قاعدہ کہکشاؤں کی درجہ بندی کو متعارف کرایا،
  • 1939 - گروٹ ریبر نے دجاجہ الف سے آتے ہوئے ریڈیائی اشاروں کو دریافت کیا،
  • 1943 - کارل کنان سیفرٹ نے چھ مرغولہ نما کہکشاؤں کی شناخت کی جن کے غیر معمولی اخراجی خطوط تھے جن کا نام سیفرٹ کہکشائیں رکھا گیا،
  • 1949 - جے جی بولٹن، جے جی اسٹینلے اور او بی سلی نے (NGC 4486 (M87 اور NGC 5128 کی شناخت بطور ماورائے کہکشانی ریڈیائی ماخذ کے کی،

بیسویں صدی کے وسط میں

ترمیم
  • 1953 - جیرارڈ ڈی واکولرس نے دریافت کیا کہ سنبلہ جھرمٹ 20 کروڑ نوری برس کے اندر ایک بڑی قرص کے اندر قید ہے،
  • 1954 - والٹر بیڈ اور روڈولف منکوسکی نے دجاجہ الف کا بصری ریڈیائی ماخذ کا ماورائے کہکشاں ساتھی کی شناخت کی،
  • 1959 - سینکڑوں ریڈیائی ماخذ کا سراغ کیمبرج کے تداخل پیما سے لگایا گیا جس سے 3C فہرست بنی۔ ان میں سے اکثر دور دراز کے کوزار اور ریڈیائی کہکشائیں نکلیں،
  • 1960 - تھامس میتھیوز نے 3C کا ریڈیائی مقام 48 3C کے 5" کے اندر تعین کا،
  • 1960 - ایلن سنڈیج نے 3C 48 کی تحقیق کی ایک غیر معمولی نجم جیسے جسم کا مشاہدہ کیا،
  • 1962 - سائرل ہیزرڈ، ایم بی میکی اور اے جے شمینس نے قمری احتجاب (گرہن) کا استعمال کرکے 3C 273 کوزار کے درست مقام کا تعین کرکے استنباط کیا کہ یہ ثنائی منبع ہے،
  • 1962 - اولن ایگن، ڈونلڈ لینڈن-بیل، اورایلن سنڈیج نے کہکشاں کی تشکیل کے لیے اکیلا (نسبتاً) تیزی سے ہوتا ہوا یک سنگی منہدم ہونے کے تصور پیش کیا، جس میں پہلے ہالہ بنتا ہے جس کے بعد قرص بنتی ہے،
  • 1963 - مارٹن شمٹ نے کوزار 3C 273 سے سرخ منتقل بامرخطوط کی شناخت کی،
  • 1973 - یرمیاہ اسٹرائیکر اور جیمز پیبلز نے دریافت کیا کہ عام طور پر پائی جانے والی مرغولہ نما کہکشاؤں میں عام دکھائی دینے والا مادّہ اتنا نہیں ہے کہ قرص کو ایک دوسرے سے نیوٹن کے ثقلی قانون کے تحت دورجانے یا شدت سے شکل تبدیل کرنے سے روک سکے،
  • 1973 -، ڈونالڈ گوڈیہس نے پایا کہ روشن ترین کہکشاؤں کا قطر ضم ہونے کی وجہ سے بڑھ رہا ہے، مدھم ترین کہکشاؤں کا قطر مدوجزر کے پھیلاؤ کی وجہ سے کم ہو رہا ہے اور یہ کہ سنبلہ جھرمٹ میں عجیب اہمیت کی سمتی رفتار موجود ہے،
  • 1974 - بی ایل فیناروف اور جے ایم ریلی نے تاریک کنارے (ایف آر) اور روشن کنارے (ایف آر دوم) ریڈیائی منبع کے درمیان شناخت کی،
  • 1976 - سینڈرا فیبر اور رابرٹ جیکسن نے بیضوی کہکشاں کی تابانی اور اس کے مرکز سے ہونے والی سمتی پھیلاؤ کے درمیان فیبر- جیکسن تعلق دریافت کیا۔ 1991 میں اس تعلق پر ڈونالڈ گڈیھس نے نظر ثانی کی،
  • 1977 - آر برینٹ ٹلی اور رچرڈ فشر نے الگ مرغولہ نما کہکشاں کی تابانی اور اس کے گھومتے ہوئے خم کے چپٹے حصّے کی سمتی رفتار میں ٹلی-فشر تعلق کو شائع کیا،
  • 1978 - سٹیو گریگوری اور لائرڈ تھامسن نے کوما فوق جھرمٹ کو بیان کیا،
  • 1978 - ڈونالڈ گوڈیھس نے ثبوت پایا کہ پس منظر کی خرد امواج کی نسبت کہکشاؤں کے جھرمٹ سینکڑوں کلومیٹر فی سیکنڈ سے حرکت کر رہے ہیں،
  • 1978 - ویرا روبن، کینٹ فورڈ، این تھونارڈ اور البرٹ بوسما نے کئی مرغولہ نما کہکشاؤں کے گھومتے ہوئے خم کی پیمائش کی اور نظر آنے والے ستاروں کے بارے میں نیوٹنی قوّت ثقل سے کی جانے والے پیش گوئی میں کافی اہم فرق پایا،
  • 1978 - لیونارڈ سرل اور رابرٹ زن نے تصور پیش کیا کہ کہکشاؤں کی تشکیل چھوٹے گروہ کے ضم ہونے سے ہوتی ہے۔

بیسویں صدی کے آخر میں

ترمیم
  • 1981 - رابرٹ کرشنر، اگست اوملر، پال شیشتر اور اسٹیفن شیکٹمین نے بوتیس میں ایک دیوہیکل خالی جگہ کا ثبوت پایا جس کا قطر لگ بھگ 10 کروڑ نوری برسوں کا تھا،
  • 1985 - رابرٹ انٹونوکی اور جے ملر نے دریافت کیا کہ سیفرٹ ڈوم کہکشاں NGC 1068 کے چوڑے خطوط ہیں جن کو صرف قطبیت والی عکسی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے،
  • 1986 - آموس یاہل، ڈیوڈ واکر اور مائیکل رون-رابنسن نے دیکھا کہ آئی آر اے ایس کہکشاں کی جفت قطب کی کثافت کی سمت پس منظر کی خرد امواج کی سمت کے جفت قطب کے درجہ حرارت سے مطابقت رکھتی ہے،
  • 1987 - ڈیوڈ برسٹین، راجر ڈیوس، ایلن ڈریسلر، سینڈرا فیبر، ڈونلڈ لینڈن-بیل، آرجے ٹرلیوچ اور گیری ویگنر نے دعویٰ کیا کہ ملکی وے کہکشاں کے تقریبا 20 کروڑ نوری برس کے اندر کہکشاؤں کے بڑے گروہ ایک ساتھ مل کر "عظیم کشش گر" کی طرف مار آبی اور قنطورس کی جانب حرکت کر رہے ہیں،
  • 1987 - آر برینٹ ٹلی مین- نے حوت-سبع البحر فوق جھرمٹ شاکلہ کو دریافت کیا، ایک ایسی ساخت جو ایک ارب نوری برس طویل اور 15 کروڑ نوری برس چوڑا ہے،
  • 1989 - مارگریٹ گیلر اور جان ہچرا، نے "عظیم دیوار" کو دریافت کیا، کہکشاؤں کی ایک ایسی چادر جو 50 کروڑ نوری برس طویل اور 20 کروڑ نوری برس چوڑی ہے، تاہم یہ صرف 1 کروڑ 50 لاکھ نوری برس موٹی ہے،
  • 1990 - مائیکل رون-رابنسن اور ٹام بروڈہرسٹ نے دریافت کیا کہ آئی آر اے ایس کہکشاں IRAS F10214 + 4724 کائنات کا معلوم سب سے زیادہ روشن جسم ہے،
  • 1991 - ڈونلڈ گوڈیھس نے مخصوس کہکشاں کے جھرمٹ کے مواد (سطحی چمک بمقابلہ رداس پیرامیٹر اور D_n طریقہ) میں ایک سنجیدہ منظم جھکاؤ کو دریافت کیا جو کہکشاں کے فاصلے اور ارتقائی تاریخ کو متاثر کرتا ہے؛ اس نے ایک نیا فاصلہ ناپنے کا پیمانہ گھٹایا ہوا کہکشانی رداس پیرامیٹر r_g وضع کیا، جو تعصبات سے آزاد ہے،
  • 1992 - کائناتی پس منظر کی خرد امواج میں پہلی بڑی ساخت کے سراغ نے ابتدائی کائنات میں کہکشاؤں کے پہلے جھرمٹ کے بیج کا اشارہ دیا،
  • 1995 - میں کائنات کی پس منظر کی خرد امواج میں چھوٹے پیمانے کی ساخت کا پہلی مرتبہ سراغ ملا،
  • 1995 - ہبل ڈیپ فیلڈ نے 144 آرک سیکنڈ میدان پر پھیلی ہوئی کہکشاؤں کا سروے کیا،
  • 1998 - 2dF کہکشاں کے سرخ منتقلی سروے میں کائنات کے اس حصّے کی بڑی ساختوں کا نقشہ بنایا جو ملکی وے سے قریب ہیں،
  • 1998 - ہبل ڈیپ فیلڈ جنوبی
  • 1998 - اسراع پزیر کائنات کی دریافت،
  • 2000 - کائناتی پس منظر کی خردامواج پر کیے گئے مختلف تجربات سے حاصل کردہ اعداد و شمار نے قوی ثبوت دیا کہ کائنات "چپٹی"(خلاء خم نہیں کھا رہی، اگرچہ مکان و زمان خمدار ہے) ہے، اس دریافت کے اہم مضمرات بڑے پیمانے کی ساختوں کی تشکیل پر پڑے،

اکیسویں صدی کے اوائل میں

ترمیم
  • 2001 - جاری سلون ڈیجیٹل اسکائی سروے سے پہلے مواد کا اجرا،
  • 2004 - یورپی جنوبی رصدگاہ نے آبیل 1835 IR1916 کو دریافت کیا، جو زمین سے اب تک دیکھی جانے والی سب سے دور دراز کی کہکشاں ہے،
  • 2004 - آرک منٹ مائیکرو کیلون امیجر نے دور دراز کے کہکشانی جھرمٹوں کی تقسیم کی نقشہ کشی شروع کردی،
  • 2005 - اسپٹزر خلائی دوربین سے حاصل کردہ اطلاعات نے 1990 کی دہائی سے ریڈیائی دوربینی اطلاعات سے اس بات کے سمجھے جانے کی تصدیق کردی کہ ملکی وے کہکشاں ایک سلاخی مرغولہ نما کہکشاں ہے،
  • 2012 - فلکیات دانوں نے اب تک کی دریافت شدہ سب سے دور بونے کہکشاں کی اطلاع دی، جو لگ بھگ 10 ارب نوری سال دو رہے،
  • 2012 - دیوہیکل LQG، ایک بڑے کوزار کا گروہ، کائنات کی ایک سب سے بڑی ساخت، کی دریافت ہوئی،
  • 2013 - Z8 GND 5296 کہکشاں کی طیف بینی سے تصدیق ہو گئی جو اپنے دور میں دریافت ہوئی سب سے دور دراز کہکشاں تھی تاہم اس کی تصدیق ہونی باقی تھی۔ بگ بینگ کے صرف 70 کروڑ سال کے بعد، کائنات کے پھیلاؤ نے اس کو موجودہ مقام پر پہنچایا، جو زمین سے 30 ارب نوری سال دو رہے۔
  • 2013 - ہرکیولس-کرونا اِکلیل شمالی عظیم دیوار، ایک ضخیم کہکشانی ریشہ اور کائنات کا معلوم سب سے بڑی ساخت کی دریافت گاما اشعاع کی بوچھاڑ کی نقشہ کشی کے دوران ہوئی

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم