ایک گڑھے والا لیٹرین یا گڑھے والا بیت الخلا ایک قسم کا بیت الخلا ہے جس میں زمینی سوراخ میں انسانی فضلہ جمع ہوتا ہے۔ اس میں یا تو پانی استعمال نہیں ہوتا ہے یا پانی ڈال کر فلش کرنے والے گڑھا لیٹرین میں ایک سے تین لیٹر پانی فی فلش استعمال ہوتا ہے۔[2] جب اسے مناسب طریقے سے بنایا اور دیکھ ریکھ کیا جائے تو وہ انسانی فضلہ کی مقدار کو کھلے میں حاجت کو ماحول میں کم کر کے امراض کے پھیلاؤ کو کم کر سکتے ہیں۔[3][4] اس سے مکھیوں کے ذریعہ فضلہ اور غذا کے درمیان مرض آور جرثومہ (Pathogens) کی منتقلی میں کمی ہوتی ہے۔[3] یہ مرض آور جرثومے متعدی اسہال اور آنت میں کیڑوں کی سرایت کی بہت بڑی وجہ ہے۔[4] متعدی اسہال کے نتیجے میں 2011 میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا 0.7 ملین بچوں کی اموات ہوئیں اور 250 ملین اسکول کے دنوں میں غیر حاضر رہے۔[4][5] گڑھا لیٹرین لوگوں سے فضلہ کی علاحدگی کا کم ترین خرچ والا طریقہ ہے۔[3]

بیٹھنے کی جگہ اور شیلٹر والے سادہ گڑھے کے لیٹرین کا خاکہ[1]

ایک گڑھا لیٹرین میں تین اہم حصے ہوتے ہیں: زمین میں ایک سوراخ، چھوٹا سوراخ والا ایک سلیب یا فرش اور ایک شیلٹر۔[2] گڑھا عام طور پر 3 میٹر (10 فیٹ) گہرا اور چوڑائی میں 1 میٹر (3.2 فیٹ) ہوتا ہے۔[2] عاملی ادارہ صحت سفارش کرتا ہے کہ آسان رسائی کے ساتھ ساتھ بدبو کے مسائل کو دھیان میں رکھتے ہوئے اس کی تعمیر گھر سے مناسب دوری پر ہونی چاہیے۔[3] آلودگی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے تہ نشیں پانی اور سطحی پانی سے دوری ہر ممکن زیادہ ہونی چاہیے۔ بچوں کو اندر گرنے سے بچانے کے لیے سلیب میں سوراخ 25 سینٹی میٹر (9.8 انچ) سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ مکھیوں کی رسائی کو کم کرنے کے لیے گڑھے میں روشنی جانے سے بچایا جانا چاہیے۔ اس کے لیے فرش میں سوراخ کو کسی ڈھکن سے ڈھکنے کی ضرورت ہو سکتی ہے جب استعمال میں نہیں ہو۔[3] جب گڑھا اوپر سے 0.5 میٹر (1.6 فیٹ) تک بھر جائے، تو یہ یا تو خالی کیا جانا چاہیے یا ایک نئے گڑھے کی تعمیر ہونی چاہیے اور شیلٹر کو نئی جگہ پر منتقل یا دوبارہ تعمیر کیا جانا چاہیے۔[6] گڑھے سے نکالے گئے فضلے کے گاد کا نظم پیچیدہ ہے۔ اگر مناسب طور پر نہیں کیا جاتا ہے تو ماحولیاتی اور صحت دونوں سے متعلق خطرے ہوتے ہیں۔

ابتدائی گڑھا لیٹرین کو متعدد طریقوں سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں گڑھے سے ڈھانچہ کے اوپر ایک ہواداری پائپ جوڑنا شامل ہے۔ یہ ہواداری بہتر کرتا ہے اور بیت الخلا کی بدبو کو کم کرتا ہے۔ جب پائپ کو جالی (عام طور پر یہ فائبر گلاس سے بنا ہوتا ہے) سے ڈھک دیا جائے تو یہ مکھیوں کو بھی کم کرتا ہے۔ ان قسم کے بیت الخلاؤں میں فرش کے سوراخ کو ڈھکنے کے لیے کسی ڈھکن کا استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔[6] دیگر امکانی بہتری میں سیال کو سوراخ میں بہنے کے لیے فرش کی تعمیر اور مضبوطی میں بہتری لانے کے لیے گڑھے کا بالائی حصہ اینٹ یا سیمینٹ رنگ سے پکا کرنا شامل ہے۔[2][6]

2013 تک ایک اندازے کے مطابق 1.77 بلین لوگ گڑھا لیٹرین استعمال کرتے ہيں۔[7] یہ زیادہ تر ترقی پزیر دنیا ساتھ ہی دیہات کے اور جنگل علاقوں میں ہے۔ 2011 میں 2.5 بلین لوگوں کی رسائی مناسب بیت الخلا تک نہیں تھی اور ایک بلین لوگ اپنے گرد و نواح میں کھلے میں حاجت کے لیے جانے کے لیے مجبور ہیں۔[8] جنوبی ایشیا اور ذیلی صحارا افریقہ کی بیت الخلا تک رسائی خراب ترین ہے۔[8] ترقی پزیر ممالک میں ایک سادہ گڑھا لیٹرین کا خرچ عام طور پر 25 سے 60 امریکی ڈالر ہے۔[9] دیکھ بھال کے مسلسل اخراجات 1.5 اور 4 امریکی ڈالر کے بیچ فی شخص فی سال ہے جس پر اکثر غور نہیں کیا جاتا ہے۔[10] عورتوں کے ذریعہ اس آدمی سے شادی سے انکار کرنا جن کے پاس بیت الخلا نہیں ہے، کی حوصلہ افزائی کر بیت الخلا کی فروغ دہی کے لیے دیہی ہندوستان کے کچھ علاقوں میں "بیت الخلا نہیں، دلہن نہیں" مہم کا استعمال کیا گیا ہے۔[11][12]

حوالہ جات

ترمیم
  1. WEDC۔ Latrine slabs: an engineer’s guide, WEDC Guide 005 (PDF)۔ Water, Engineering and Development Centre The John Pickford Building School of Civil and Building Engineering Loughborough University۔ ص 22۔ ISBN:978 1 84380 143 6
  2. ^ ا ب پ ت Tilley, E., Ulrich, L., Lüthi, C., Reymond, Ph. and Zurbrügg, C. (2014)۔ Compendium of Sanitation Systems and Technologies (2 ایڈیشن)۔ Dübendorf, Switzerland: Swiss Federal Institute of Aquatic Science and Technology (Eawag)۔ ISBN:9783906484570{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
  3. ^ ا ب پ ت ٹ "Simple pit latrine (fact sheet 3.4)"۔ who.int۔ 1996۔ 2019-01-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-08-15
  4. ^ ا ب پ "Call to action on sanitation" (PDF)۔ United Nations۔ 2015-05-13 کو اصل (pdf) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-08-15
  5. Walker، CL؛ Rudan، I؛ Liu، L؛ Nair، H؛ Theodoratou، E؛ Bhutta، ZA؛ O'Brien، KL؛ Campbell، H؛ Black، RE (20 اپریل 2013)۔ "Global burden of childhood pneumonia and diarrhoea."۔ Lancet۔ ج 381 شمارہ 9875: 1405–16۔ DOI:10.1016/s0140-6736(13)60222-6۔ ISSN:0140-6736۔ PMID:23582727
  6. ^ ا ب پ François Brikké (2003)۔ Linking technology choice with operation and maintenance in the context of community water supply and sanitation (PDF)۔ World Health Organization۔ ص 108۔ ISBN:9241562153۔ 2005-11-05 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-24
  7. Graham، JP؛ Polizzotto، ML (مئی 2013)۔ "Pit latrines and their impacts on groundwater quality: a systematic review."۔ Environmental health perspectives۔ ج 121 شمارہ 5: 521–30۔ DOI:10.1289/ehp.1206028۔ PMID:23518813
  8. ^ ا ب Progress on sanitation and drinking-water - 2014 update. (PDF)۔ WHO۔ 2014۔ ص 16–20۔ ISBN:9789241507240۔ 2016-03-03 کو اصل (pdf) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-10-24
  9. Selendy، Janine M. H. (2011)۔ Water and sanitation-related diseases and the environment challenges, interventions, and preventive measures۔ Hoboken, N.J.: Wiley-Blackwell۔ ص 25۔ ISBN:9781118148600
  10. Sanitation and Hygiene in Africa Where Do We Stand?۔ Intl Water Assn۔ 2013۔ ص 161۔ ISBN:9781780405414
  11. Global Problems, Smart Solutions: Costs and Benefits۔ Cambridge University Press۔ 2013۔ ص 623۔ ISBN:9781107435247
  12. Stopnitzky، Yaniv (12 دسمبر 2011)۔ "Haryana's scarce women tell potential suitors: "No loo, no I do""۔ Development Impact۔ Blog of World Bank۔ 2019-01-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-11-17