گھریلو خدمت گزار (انگریزی: Domestic worker) لفظ کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو کسی بھی رہائشی نوعیت کا کام کرتا ہے۔ روایتی انگریزی سیاق و سباق میں اس شخص کو "بر سر خدمت" کہا جاتا ہے۔ [1]

جنوبی ایشیا میں 20 اکتوبر کو گھروں میں کام کرنے والے کارکنوں اور مزدوروں(ہوم بیسڈ ورکرز) کا خصوصی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کا مقصد گھروں میں بیٹھ کر اجرت پر کام کرنے والے مردوں اور خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ معروف تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کی بہتری کے لیے ان کی رجسٹریشن کرنے، انھیں طبی سہولتیں فراہم کرنے، مارکیٹ تک رسائی دینے، تربیت فراہم کرنے اور ان کو منظم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ان کے بقول ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے ان مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ساتھ قومی پالیسی بنانی چاہیے۔[2]

پاکستانی پنجاب کی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے قانون کا مسودہ تیار کیا تھا۔ اس نئے قانون کے تحت گھروں میں کام کرنے والے ہر ملازم کا بار کوڈ ہوگا اور ملازمین کے ساتھ نامناسب سلوک کی صورت میں مالک کو قید اور جرمانے کی سزا ہو سکے گی۔لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس جواد الحسن نے گھریلو ملازمین کے بارے میں قانون سازی نہ ہونے کے بارے میں درخواست کی سماعت کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کو ہدایت کی تھی کہ وہ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حوالے سے قانون سازی کرے۔دورانِ سماعت اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب رائے شاہد سلیم نے عدالت کے روبرو ڈومیسٹک ورکرز بل 2018ء کا مسودہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے پنجاب حکومت نے قانون کا مسودہ تیار کر لیا ہے جو ملک بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہوگا۔پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نئے قانون کے ذریعے مالک اور ملازم کے درمیان پہلے معاہدہ ہوگا اور تنخواہ طے کی جائے گی۔ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مجوزہ قانون کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ علاقائی ملازمین کے قانون کے تحت صوبہ پنجاب کے ہر ضلع میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ملازم کی شکایت پر کارروائی کرے گی۔ان کے بقول قانون کے تحت گھریلو ملازم کے ساتھ نامناسب سلوک پر ایک ہفتے سے پانچ برس تک قید اور جرمانے کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ پندرہ برس سے کم عمر کے کسی بچے کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جا سکتا۔واضح رہے کہ ملک بھر میں گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی بڑی تعداد بچوں اور بچیوں پر مشتمل ہے جو کم عمری سے ہی گھروں میں کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔[3]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. سانچہ:Cite OED
  2. https://www.dw.com/ur/%DA%AF%DA%BE%D8%B1%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%DA%A9%D8%A7%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%92-%D9%85%D8%B1%D8%AF%D9%88%DA%BA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84/a-15476340
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 06 اگست 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اگست 2022