خطۂ پنجاب میں ہولی کا آغاز ملتان شہر سے بتایا جاتا ہے۔[1] روایت ہے کہ یہ پرہلادپوری ہولی مندر سے شروع ہوئی ہے۔[2] پرہلادپوری کی اصل مندر کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اسے پرہلاد نے تعمیر کروایا تھا جو ہرنیکاشیپو کا بیٹا تھا جو ملتان (کشیاپاپورہ) کا راجا تھا۔[3] یہ نرسمہا کے اعزاز میں بنایا گیا ہے جو ہندو عقائد کے حساب سے بھگوان وشنو کا اوتار تھا اور جو ایک ستون سے نمودار ہوکرپرہلاد کی حفاظت کیے تھے۔[4][5][6][7] ہولی موسم بہار کی آمد کی بھی نقیب ہے۔[8][9]

پرہلادپوری مندر کے کھنڈر
بھارت میں ہولی تہوار کے رنگ

ہولی کی تقاریب دو دنوں پر محیط ہیں۔ ہولیکا دہن پھاگن پورنیما یا پورن ماسی (ماہِ کامل) اور ہولی خود چیت کے پہلے دن منائی جاتی ہے[10] پنجابی تقویم کے حساب سے ۔

لفظیات ترمیم

لفظ "ہولی" 'ہولا' سے ماخوذ ہے خدا کی عبادت اور اچھی فصل کا شکرانہ ہے[11] ہولی کے بارے میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ یہ سنسکرت زبان کے لفظ 'ہولکا' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب نیم پختہ بھٹا ہے۔[12] خطہ پنجاب میں گیہوں کی کاشت کاری بییساکھ میں کی جاتی ہے جو ہولی کے دو مہینے بعد آتا ہے۔ اس وجہ سے ہولی مستقبل کی فصل کے لیے شکریے کا پہلو رکھتی ہے۔

ہولی لفظ ہولیکا سے بھی ماخوذ ہے جو اپنے بھتیجے پرہلاد کو اپنے گود میں جلانے کی کوشش میں خود سپرد آتش ہو گئی۔[11]

پرہلادپوری مندر اور ہولیکا دہن ترمیم

 
نرسمہاہرنیکاشیپو کا قتل کرتے ہوئے جبکہ پرہلاد دیکھ رہا ہے
 
نرسمہا ہرنیکاشیپو کا قتل کر رہا ہے، جبکہ پرہلاد اور اس کی ماں سجدہ ریز ہو رہے ہیں۔

ہرنیکاشیپو پرہلاد کو زہر دے دیتا ہے، اسے طاقتور ہاتھیوں کے قدموں تلے دبوانے کی کوشش کرتا ہے اور اسے سانپوں کے ساتھ قید میں رکھتا ہے۔ تاہم پرہلاد بچ جاتا ہے۔ پھر وہ اسے ہولیکا کی گود خوفناک آگ کے بیچ میں زبردستی بٹھاتا ہے۔[2] ہولیکا ہرنیکاشیپو کی بہن تھی۔ اس کے پاس ایک جادوئی شال تھی جو اسے آگ میں جلنے سے بچاتی تھی۔ اس نے پیش کش کی کہ وہ پرہلاد کو اپنے اپنی گود میں لے کر آگ میں داخل ہوگی۔ اس طرح یہ سوچ تھی کہ پرہلاد جل جائے گا جبکہ ہولیکا اپنی شال کے سہارے بچ جائے گی۔

یہ داستان زبان زد عام ہے کہ جب وہ آگ میں داخل ہوئی تو ایک زوردار ہوا رونما ہوئی وہ حفاظتی شال ہولی پرہلاد پر گویا اوڑھ لی گئی۔ پنجاب میں ہولی ہولیکا کے علامتی مجسموں کو نذر آتش کرنے سے شروع ہوتی ہے۔[8] اسی وجہ ہولی سے پہلے کی شب کو ہولیکا دہن کہا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب آگ ہولیکا پر حاوی ہو چکی تھی، وشنو نرسمہا (نیم مرد، نیم ببر کا اوتار) کی شکل میں ظاہر ہوئے اور ہرنیکاشیپو کو دبوچ لیے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ ہولی کا یہ تہوار اس واقعے کا جشن مناتا ہے اور ملتان کا سوریہ مندر اس کی یادگار عبادت گاہ ہے [2] کیونکہ یہ مندر مقام واقعہ پر تعمیر کی گئی ہے۔

ہولیکا پوجن کے لیے، ہولیکا دہن سے آٹھ دن پہلے، اس علاقے کو مقدس پانی سے صاف کیا جاتا ہے۔ اس جگہ دو لکڑیاں رکھ دی جاتی ہیں، ایک پرہلاد کے لیے اور ایک ہولیکا کے لیے۔ سوکھے گوبر کے پُٹھے، سوکھی لکڑیوں اورگھاس پر یہ دو لکڑیاں رکھ دی جاتی ہے۔

ہولاشٹک ترمیم

 
ہولیکا دہن

پنجاب میں ہولی ہولاشٹک کے طور پر نو دنوں تک منائی جاتی ہے۔ ہولاشٹک ہولا اور اشٹک سے بنتا ہے، جس سے مراد ہولی سے قبل آٹھ دن ہیں اور اسی سے یہ لفظ بنتا ہے۔[13] یہ تہوار ہولی کے دن رنگوں اور گُلال کے ساتھ اختتام پزیر ہوتا ہے۔ اسی دن ہولیکا دہن کی تیاری شروع ہوتی ہے، اسی سے ہولی کی جملہ تقاریب مکمل ہوتے ہیں۔[14]

ہولاشٹک سے ہولیکا دہن کے دن تک ہرروز چھوٹی لکڑیاں یا لکڑی کے پرزے جوڑے جاتے ہیں۔ اس طرح سے ہولیکا دہن تک یہ مجموعہ لکڑیوں کے انبار میں تبدیل ہوتا ہے جسے اس دن جلایا جاتا ہے۔ ہولی کے رنگ کی ایک چھوٹی مقدار بکھر جاتی ہے۔[15] ہفتہ بھر ہولی تقاریب مہاراجہ رنجيت سنگھ کی جانب سے منائے گئے تھے اور یہ لاہور میں ہولی منانے کی تہذیب کا حصہ تھی۔[16]

ہولی تقاریب کے کچھ اور پہلو ترمیم

مٹکا یا گھڑا پھوڑنا ترمیم

ہولی کے دن مغربی پنجاب[2] اور مشرقی پنجاب[17] میں ایک رواج ہے کہ ایک مٹکی کو پھوڑا جاتا ہے جو ایک اونچے مقام پر رکھا جاتا ہے۔ قریب چھ آدمی اپنے ہاتھ ایک دوسرے کے کندھے پر رکھتے ہیں، آگے جھکتے ہیں اور سروں کو ملاتے ہیں اور اپنے دائیں پاؤں ملا کر بیچ میں ایک مخروطی شکل بناتے ہیں۔ اسی پردوسرے چڑھ کر مٹکے کو پھوڑتے ہیں۔ جو لوگ اس کام میں حصے دار نہیں ہوتے، اس گروہی شکلبندی پر پانی اور رنگ پھینکتے ہیں۔ روایتی طور پر مٹکے میں مکھن اور دودھ رکھا جاتا ہے جو کم عمر کرشن کے مکھن چرانے کی عکاسی مانی جاتی ہے۔[8]

رنگ ترمیم

لوگ ایک دوسرے پر رنگین سفوف پھینک کر ہولی مناتے ہیں۔ اس دن اچھے اچھے پکوان بنتے ہیں

چونک پورنا ترمیم

دسہرہ، کروا چوتھ، ہولی اور دیوالی کے موقع پر پنجاب میں مٹی کی دیواروں اور کھلے صحنوں میں (جہاں کپڑے پر فنکاری کی جاتی ہے) کے دیہی گھروں میں لکشمی تصاویر اتاری جاتی ہیں تاکہ ہندو عقیدے کے حساب سے دولت کی اس دیوی سے برکات حاصل ہوں۔

اس فن کو پنجاب میں چونک پورنا کہا جاتا ہے اور اس شکلبندی ریاست کی عورتوں کی جانب سے دی جاتی ہے۔ مخصوص درخت کے بنیادی خیال یا تصور، پھول، بے پھُول پودے، بیل دار پودے، عام پودے، مور، پالکی، اقلیدسی شکلیں جن میں کھڑی، لیٹی ہوئی اور ترچھی لکیریں مل کر سادگی، پیچیدگی اور تصور کا امتزاج پیش کرتے ہیں جن سے دیہی زندگی میں فنکاری کی نفاست عیاں ہوتی ہے۔[18]

ہولی اور موسم بہار ترمیم

ہولی پنجاب میں موسم سرد کے اختتام پر آتی ہے[19] جہاں موسم سرد دو ذیلی موسموں میں بٹا ہے: ہیمنت جو پنجابی مہینوں مگھر اور پوہ (نومبر–جنوری) اور شِشِر جو پنجابی مہینوں ماگھ اور پھاگن (جنوری–مارچ)۔ ہولیکا دہن شِشِر کے اختتام پر آتا ہے اور ہولی سے بست کا موسم شروع ہوتا ہے۔

ہولی اور سکھ مت کے تہوار ترمیم

گرو گرنتھ صاحب کی ہدایت ہے کہ ہولی خدا کی خدمت کرتے ہوئے منانا چاہیے۔ ہولی کے رنگ خداوند کی محبت کا مظہر ہیں۔ اس جشن کی تفصیلات یوں بیان ہوئے ہیں:

ایک خالق رب! سچے گرو کی برکت سے؛ میں گرو کی خدمت کرتا ہوں، اور عاجزی سے اس کے آگے جھکتا ہوں۔ آج میں انتہائی سکون میں ہوں۔ میری جستجو مندمل ہو گئی، اور میں رب جہاں سے مل چکا ہوں۔ آج، میرے گھرانے میں بہار کا سماں ہے۔ میں آپ کی بڑائی کے مناجات گاتا ہوں، اے لامحدود خدا۔ آج میں پھالگن کا تہوار منارہا ہوں۔ خدا کے مصاحبوں میں شامل ہوکر، میں عبادت شروع کر چکا ہوں۔ میں ہولی کا جشن بزرگوں (رب) کی خدمت کر کے مناتا ہوں۔ میں رب کی مقدس محبت کے قرمزی رنگ سے متلون ہؤا ہوں۔ میرا من اور جسم بے یکتا، بے جوڑ اور اتھاہ خوبصورتی سے سرشار ہے۔ یہ دھوپ یا چھاؤں میں خشک نہیں ہوتے؛ یہ ہرموسم میں پھلتے پھولتے ہیں۔ وہ ہر وقت موسم بہار ہے، جب میں اپنے مقدس گرو سے ملتا ہوں۔ خواہشات کو پورا کرنے والا کام دھَین درخت اگ چکا ہے۔ وہ پھول اور پھل فراہم کرتا ہے، ہر طرح کے زیور لاتا ہے۔ میں مطمئن اور سیرچشم ہوں، خدا کے بلندتر مناجات گاکر۔خدمت گزار نانک خدا پر دھیان لگاتا ہے، ہر، ہر، ہر (خدا)۔

[20]

حوالہ جات ترمیم

  1. A White Trail: A Journey into the heart of Pakistan's Religious Minorities by HAROON KHALID [1]
  2. ^ ا ب پ ت "Sohaib Arshad The Friday Times 31 12 2010"۔ 16 نومبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2016 
  3. Syad Muhammad Latif (1963)۔ The early history of Multan۔ صفحہ: 3,54۔ Kasyapa, is believed, according to the Sanscrit texts, to have founded Kashyapa-pura (otherwise known as Multan 
  4. Gazetteer of the Multan District, 1923–24 Sir Edward Maclagan, Punjab (Pakistan)۔ 1926۔ صفحہ: 276–77 
  5. Imperial rule in Punjab: the conquest and administration of Multan, 1818–1881 by J. Royal Roseberry۔ صفحہ: 243, 263 
  6. All the year round , Volume 51۔ Charles Dickens۔ 1883 
  7. Temple of Prahladpuri-Multan آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ multan.reemakhan.info (Error: unknown archive URL) Survey & Studies for Conservation of Historical Monuments of Multan. Department of Archeology & Museums, Ministry of Culture, Government of Pakistan
  8. ^ ا ب پ "Haroon Khalid The Friday Times 15 04 2011"۔ 11 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2016 
  9. Temple of Prahladpuri Department of Archaeology & Museums Ministry of Culture, Government of Pakistan [2] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ multan.uniconconsulting.com (Error: unknown archive URL)
  10. Fuller, Christopher John. (2004) The Camphor Flame: Popular Hinduism and Society in India. Princeton University Press [3]
  11. ^ ا ب "About Hinduism by Gyan Rajhans"۔ 11 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 جولا‎ئی 2016 
  12. Bhavan's Journal, Volume 14, Issues 14-26 Bharatiya Vidya Bhavan 1968
  13. [4] The Tribune 25 February 2012
  14. [5][مردہ ربط] Himachal News Kullu Celebrates Brij Ki Holi Dr Dev Kanya Thakur 8 January 2015
  15. http://www.astrobix.com/festivals_of_india/holi/holi_holaastak.aspx
  16. [6] The Sunday Tribune Holi on Canvas Kanwarjit Singh Kang 13 March 2011
  17. http://festivals.iloveindia.com/holi/holi-celebrtions.html
  18. Drawing Designs on Walls, Trisha Bhattacharya (Oct 13, 2013), Deccan Herald; Accessed on 7 January 2015
  19. A Different Springtime Rite Wall Street Journal
  20. Sri Guru Granth Sahib Ji