بگز بوزون یا ہیگ بوسون، ذراتی طبیعیات میں ایک عددیہ عنصری ذرہ (scalar elementary particle) ہے۔ پہلے پہل اس کے وجود کی پیشنگوئی معیاری نمونہ کے نظریہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ان کے وجود کے بارے میں سب سے پہلے پیشنگوئی ایک انگلستانی طبیعیات داں، پیٹر ہگ (Peter Higgs) نے 1964ء میں کی تھی اور اسی کے نام کی نسبت سے ان ذرات کو ہگ بوسون کہا جاتا ہے۔ سائنس دان پچھلی کئی دہائیوں سے ہگز بوزون کی تلاش میں تھے- کوانٹم فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں یہ واحد ذرہ تھا جسے دریافت کرنا انتہائی مشکل ثابت ہوا- لیکن بالاخر اسے سنہ 2012 میں دریافت کر لیا گیا- اس کی دریافت پر پیٹر ہگز اور اسے دریافت کرنے والی ٹیم کو نوبل انعام سے نوازا گیا-

Standard Model کے مطابق بنیادی ذرات۔ صرف فوٹون اور گلواون غیر مادی (mass less) ذرات ہیں۔ صرف ہگز بوسون اپنے گرد نہیں گھومتا یعنی spin صفر رکھتا ہے یعنی یہ scalar (بے سمت) ذرہ ہے۔ صرف بوزون کا spin ایک ہوتا ہے اس لیے وہ vector بوزون کہلاتے ہیں اور سمت رکھتے ہیں۔

ہگز بوزون کی کمیت 125 ارب الیکٹرون وولٹ ہوتی ہے۔ اس پر نہ کوئی برقی چارج ہوتا ہے نہ color چارج ہوتا ہے۔ یہ دوسرے زیر ایٹمی ذرات سے Higgs field کی وجہ سے تعامل کرتا ہے جو electroweak symmetry breaking کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔ ہگز میکینزم کی مدد سے ایٹمی ذرات کی کمیت (mass) کی وضاحت ممکن ہو جاتی ہے۔
ہگز بوزون انتہائی غیر مستحکم یعنی unstable ذرہ ہے اور پیدا ہونے کے فوراً بعد decay ہو جاتا ہے- اس کی ہاف لائف صرف ایک سو یوکٹوسیکنڈ ہے- ایک یوکٹوسیکنڈ اتنا کم وقفہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں 1000000000000000000000000 یوکٹوسیکنڈ ہوتے ہیں (اس عدد میں 1 کے بعد چوبیس صفر ہیں)- گویا ہگز بوزون پیدا ہونے کے فوراً بعد ٹوٹ جاتا ہے- تاہم اب سرن کی ایٹلیس نامی تجربہ گاہ میں ہگز بوزون کے اس decay کا بھی مشاہدہ کر لیا گیا ہے اور اس کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والے باٹم قوارکس کے جوڑے (pair of bottom quarks) بھی پہچان لیے گئے ہیں- اس دریافت کو LHC میں کیے گئے تجربات میں سب سے مشکل تجربہ قرار دیا جا رہا ہے۔

ہگز سنگلٹ

ترمیم

ہگز سنگلٹ ایسے مفروضاتی ذرات کو کہتے ہیں جو ٹائم ٹریول کرسکتے ہوں گے یعنی کبھی ہمارے سامنے آجائیں گے تو کبھی غائب ہوکر ماضی یا مستقبل میں ٹرانسفر ہوجائیں گے، تاحال ہمیں ایسے ذرات نہیں مل پائے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم