نیوٹرون
نیوٹرون یا تعدیلہ (Neutron) ایٹم کے مرکزے (Nucleus) میں موجود ایک ذرہ ہوتا ہے۔
نیوٹرون مادے کا بنیادی ذرہ ہے جس پر کوئی برقی چارج (Charge) نہیں ہوتا۔ یہ 1932ء میں دریافت ہوا تھا۔ ہر نیوٹرون ایک up quark اور دو down quark سے ملکر بنا ہوتا ہے۔ نیوٹرون کے ان تینوں ذیلی ذرات پر نیوکلیئر قوت کے تین مختلف کلر چارج (color charge) ہوتے ہیں۔
تین کوارک کے مجموعے کو baryon کہتے ہیں۔ پروٹون کی طرح نیوٹرون بھی ایک بیریون ہوتا ہے۔ (اس کے برعکس ایک کوارک اور ایک اینٹی کوارک کا مجموعہ میزون کہلاتا ہے۔ بیریون اور میزون دونوں ہیڈرون (hadron) کے خاندان کے رکن ہیں۔)
دنیا کے ہر ایٹم میں نیوٹرون موجود ہوتا ہے سوائے ہائیڈروجن1 کے۔ ہائیڈروجن کے دوسرے ہمجا یعنی ڈیوٹیریئم اور ٹرائیٹیئم میں بھی نیوٹرون موجود ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پروٹون پر مثبت (positive) چارج ہوتا ہے اس لیے مرکزے (nucleus) میں ہر پروٹون دوسرے پروٹون کو دھکیلتا ہے اور مرکزہ نا پائیدار ہو جاتا ہے۔ نیوٹرون کی موجودگی میں نیوکلیئر قوت، دفع (repulsion) کی قوت پر حاوی ہو جاتی ہے اور مرکزہ پائیدار ہو جاتا ہے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ اگر قوی تفاعل کی قوت صرف دو فیصد اور زیادہ طاقتور ہوتی تو شایئد نیوٹرون کے بغیر بھی مرکزہ پائیدار ہوتا۔
ہیلیئم3 میں دو پروٹون کو جوڑنے کے لیے صرف ایک نیوٹرون کافی ہوتا ہے لیکن بھاری ایٹموں کے مرکزوں کو جڑا رہنے کے لیے پروٹونوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تعداد میں نیوٹرونوں کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً یورینیئم235 میں 92 پروٹونوں کو جوڑے رکھنے کے لیے 143 نیوٹرونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
پائیداری
ترمیمنیوٹرون ایٹم کے مرکزے کے اندر ہی پائیدار ہوتا ہے اور مرکزے سے باہر آنے کے بعد ناپائیدار ہو جاتا ہے اور اس کی نصف حیات لگ بھگ 15 منٹ ہوتی ہے۔ نیوٹرون کے ٹوٹنے پر ایک الیکٹرون اور ایک پروٹون بنتا ہے۔
ناپائیدار ایٹمی ذروں میں نیوٹرون سب سے زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔
ایٹم کا مرکزہ بنانے کے لیے پروٹونوں کی ایک خاص تعداد نیوٹرونوں کی ایک مقررہ تعداد سے ہی ملاپ کر سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کسی بھی تعداد میں پروٹون اور نیوٹرون ملکر مرکزہ نہیں بنا سکتے۔ مثال کے طور پر دو پروٹون اور دو نیوٹرون کے ملنے سے ہیلیئم4 کا مرکزہ بنتا ہے جو بے حد پائیدار ہوتا ہے۔ اسی طرح 8 پروٹون اور 8 نیوٹرون سے مل کر بننے والا آکسیجن کا مرکزہ بھی پائیدار ہوتا ہے۔ لیکن 4 پروٹون اور 4 نیوٹرون سے ملکر بننے والا بریلیئم8 یا 9 پروٹون اور 9 نیوٹرون سے ملکر بننے والا فلورین18
یا 19 پروٹون اور 19 نیوٹرون سے ملکر بننے والا پوٹاشیئم38 انتہائی نا پائیدار ہوتا ہے۔
کوئی ایسا ایٹمی مرکزہ وجود نہیں رکھتا جس کا ماس نمبر 5 یا 8 ہو۔ یعنی دو پروٹون اور تین نیوٹرون ملکر ہیلیئم5 نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح دو نیوٹرون اور تین پروٹون ملکر لیتھیئم5 نہیں بنا سکتے۔ بریلیئم8 اور لیتھیئم8 بھی کوئی وجود نہیں رکھتے۔
43 پروٹونوں والا ٹیکنیشیئم اور61 پروٹونوں والا پرومیتھیئم بھی اپنی ناپائیداری کی وجہ سے دنیا میں نایاب ہیں۔ ٹیکنیشیئم نیوکلیئر ری ایکٹر میں بنایا جاتا ہے اور دل کی اسکیننگ میں استعمال ہوتا ہے۔ شروع شروع میں اس کام کے لیے تھیلیئم استعمال کیا جاتا تھا اور اب بھی اکثر اس ٹسٹ کو تھیلیئم اسکین کا نام دیا جاتا ہے۔
نیوٹرون کی دریافت
ترمیم1920ء میں ایرنسٹ ردرفورڈ Ernest Rutherford نے نیوٹرون کی موجودگی کا خیال ظاہر کیا تھا۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ مرکزے (nucleus) کے اندر کچھ الیکٹران بھی ہوتے ہیں جو اتنے ہی پروٹونوں کا چارج ذائل کرنے کا سبب بنتے ہیں مثلاً نائٹروجن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ اس کے مرکزے میں 14 پروٹون اور سات الیکٹرون ہوتے ہیں اس طرح نائٹروجن کے مرکزے کا چارج 7+ ہے اور کمیت 14 amu ہے۔ سات الیکٹرون اس کے علاوہ ہوتے ہیں جو مرکزے کے باہر چکر کاٹتے رہتے ہیں اور اس طرح ایٹمی مرکزہ ایٹم میں تبدیل ہو جاتا ہے جو تعدیلی (neutral) ہوتا ہے۔
مگر 1930ء میں روس کے دو طبیعیات دانوں Viktor Ambartsumian اور Dmitri Ivanenko نے ریاضیات سے ثابت کر دیا کہ مرکزے میں کوئی الیکٹران نہیں ہو سکتا کیونکہ کوانٹم میکانکس کے مطابق الیکٹران جیسے ہلکے ذرے کو مرکزے جیسی چھوٹی جگہ میں کسی بھی توانائی پر محصور نہیں کیا جا سکتا۔ (آج کل یہ سمجھا جاتا ہے کہ تابکاری کے نتیجے میں ایٹم کے مرکزے سے جو الیکٹران (beta rays) نکلتے ہیں وہ مرکزے میں موجود نہیں ہوتے بلکہ نیوٹرون کے ٹوٹ کر پروٹون اور الیکٹرون میں تبدیل ہونے کے نتیجے میں اسی وقت وہاں بنتے ہیں اور مرکزے کی طاقتور برقی کشش کے باوجود وہاں ٹھہر نہیں پاتے کیونکہ الیکٹرون ہر وقت حرکت کرتے رہتے ہیں اور انھیں حرکت کے لیے کم از کم جتنی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ مرکزے کے حجم سے کافی بڑی ہوتی ہے۔)
1931ء میں جرمنی میں Walther Bothe اور Herbert Becker نے دریافت کیا کہ پولونیئم سے تابکاری کے نتیجے میں نکلنے والے تیز رفتار ہیلیئم کے مرکزے (الفا ذرے) جب بیریلیئم، بورون اور لیتھیئم سے ٹکراتے ہیں تو ایک ایسی شعاع نکلتی ہے جو گاما ریز سے بھی کئی گنا زیادہ آر پار ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس وقت سمجھا گیا تھا کہ یہ بھی طاقتور گاما شعاعیں ہیں۔ لیکن گاما شعاعوں کے برعکس ان شعاعوں میں ضیا برقی اثر کی خاصیت موجود نہ تھی۔[1]
1932ء میں James Chadwickجیمز چیڈوک نے ثابت کیا کہ یہ گاما شعاع نہیں بلکہ ایک نیا تعدیلی ذرہ نیوٹرون ہے اور 1935ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔
نیوٹرون کی ایجاد کے صرف دس سال بعد 1942ء میں اٹلی کے سائنس دان فرمی انریکو فرمی نے شکاگو میں دنیا کا پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر (شکاگو پائیل) بنانے میں کامیابی حاصل کر لی اور اس کے صرف تین سال بعد انسان ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
ہم جا
ترمیمکسی عنصر (element) میں پروٹونوں کی تعداد ہمیشہ مقرر ہوتی ہے جبکہ نیوٹرونوں کی تعداد کم زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس طرح ہم جا (isotopes) وجود میں آتے ہیں۔ مثلاً یورینیئم کے ہر ایٹم میں 92 پروٹون ہوتے ہیں جبکہ نیوٹرونوں کی تعداد 140 سے 146 تک ہو سکتی ہے۔ 140 سے کم یا 146 سے زیادہ نیوٹرون والے یورینیئم کے ایٹم بھی وجود رکھتے ہیں لیکن وہ زیادہ نا پائیدار ہوتے ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیم- نیوٹرینو
- کوسمک ریز
- فشن بمقابلہ فیوزن
- Neutron cross section
- جوہری کمیتی اکائی
- فیوزر
- پائیداری عناصر
- ڈبے میں ذرہ
- ڈبل میجک
- ایٹمی ماڈل کا ارتقا
- جائنٹ ریزونینس
ویکی ذخائر پر نیوٹرون سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |