نیوٹرینو (neutrino) ایک ایسا زیرجوہری ذرہ (sub-atomic particle) ہے جو ایٹم سے بھی چھوٹا ہوتا ہے اور اس پر کوئی برقی بار(چارج) نہیں ہوتا۔ یہ نیوٹرون، پروٹون اور الیکٹرون سے بھی چھوٹا ہوتا ہے۔
نیوٹرینو پر نہ منفی (negative) برقی بار ہوتا ہے نہ مثبت (positive)۔ اس وجہ سے برقناطیسی قوت (electromagnetic force) (جو الیکٹرون اور پروٹون پر اثر انداز ہوتی ہے) نیوٹرینو پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔

سپر نوا SN 1987A

نیوٹرینو چونکہ لیپٹون (lepton) کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس پر گلواون (gluons) کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا جو قوی تفاعل(strong interaction) کا سبب بنتے ہیں۔ یعنی نیوٹرینو کلر چارج سے بھی بالکل متاثر نہیں ہوتا۔ الیکٹرون بھی لیپٹون کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے مگر اس پر منفی چارج ہوتا ہے۔
نیوٹرینو صرف نحیف تفاعل (weak interaction) اور کشش ثقل (gravity) سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایٹم کے معاملات میں کشش ثقل نہایت ہی کمزور قوت ہے۔

سورج اور جوہری بجلی گھروں (nuclear reactors) میں ہونے والے تعاملات (reactions) کے نتیجے میں نیوٹرینو بنتے ہیں۔ نیوٹرینو کا چونکہ مادے سے کوئی تعامل ہونے کا امکان تقریباً صفر ہوتا ہے اس لیے یہ مادے کے اندر سے بڑی آسانی سے آرپار گذر جاتے ہیں۔ سورج سے اتنے زیادہ نیوٹرینو آتے ہیں کہ دن کے وقت زمین کے ہر مربع سنٹی میٹر پر ایک سیکنڈ میں 65 ارب نیوٹرینو ٹکراتے ہیں۔ چونکہ یہ مادے میں جذب نہیں ہوتے اس لیے تقریباً سارے کے سارے نیوٹرینو دنیا کو چیرتے ہوئے آرپار گذر کر دوسری جانب (جہاں رات ہوتی ہے) نمودار ہوتے ہیں اور پھر آگے کائنات میں گم ہو جاتے ہیں۔ انسان کے جسم سے ہر وقت اربوں نیوٹرینو گزرتے رہتے ہیں مگر ہمیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔
سورج سے خارج ہونے والی توانائی کا دو فیصد حصہ نیوٹرینو پر مشتمل ہوتا ہے۔[1]

تاریخ

ترمیم
بنیادی ذرات کے معیاری نمونے میں نیوٹرینو
کمیت علامت فرمیون[nb 1]
پہلی نسل
< 2.2 eV ν
e
الیکٹران نیوٹرینو
< 2.2 eV ν
e
الیکٹران اینٹی نیوٹرینو
دوسری نسل
< 170 keV ν
μ
میون نیوٹرینو
< 170 keV ν
μ
میون اینٹی نیوٹرینو
تیسری نسل
< 15.5 MeV ν
τ
ٹاو نیوٹرینو
< 15.5 MeV ν
τ
ٹاو اینٹی نیوٹرینو

نیوٹرون کی ایجاد سے بھی پہلے ولف گینگ پاولی نے 1930 میں یہ مفروضہ پیش کیا تھا کہ ایک ایسا ذرہ ہو سکتا ہے جو ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکا ہے اور جو بیٹا تنزل (beta decay) میں پروٹون اور الیکٹرون کے ساتھ ہی وجود میں آتا ہے کیونکہ بیٹا تابکاری میں اس ذرے کے بغیر توانائی (energy)، مومنٹم اور غزل(spin) کی بقا کی وضاحت کرنا ممکن نہ تھا۔
بعد میں یہ بات سچ ثابت ہوئی اور 1956 میں نیوٹرینو دریافت کر لیا گیا۔ نیوٹرینو دریافت کرنے والے سائنسدانوں کو چالیس سال کے بعد 1995 میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

اقسام

ترمیم

نیوٹرینو کی تین قسمیں (flavors) ہوتی ہیں۔

  • الیکٹرون نیوٹرینو (Electron neutrino)۔ اسے   سے ظاہر کرتے ہیں۔
  • میون نیوٹرینو (Muon neutrino)۔ اسے Vμ سے ظاہر کرتے ہیں۔
  • ٹائو نیوٹرینو (Tau neutrino)۔ اسے  سے ظاہر کرتے ہیں۔

ان تینوں نیوٹرینو کی غزل (spin) بایئں طرف ہوتی ہے۔
ان تینوں نیوٹرینو کے فنا کنندہ ذرے (anti particle) بھی ہوتے ہیں جنہیں antineutrino کہتے ہیں۔ اینٹی نیوٹرینو کی غزل (spin) دائیں طرف ہوتی ہے۔ نیوٹرینو کی علامت کے اوپر لکیر اینٹی نیوٹرینو کو ظاہر کرتی ہے مثلاً   اور  

β− decay

ترمیم

منفی بیٹا تنزل کے دوران ایک نیوٹرون n خود بخود ٹوٹ کر ایک پروٹون p، ایک الیکٹرون   اور ایک الیکٹرون اینٹی نیوٹرینو   بناتا ہے۔

 

β+ decay

ترمیم

مثبت بیٹا تنزل کے دوران ایک پروٹون توانائی جذب کر کے ایک نیوٹرون، ایک پوزیٹرون اور ایک الیکٹرون نیوٹرینو بناتا ہے۔ نیوٹرون پروٹون سے بڑا ہوتا ہے اس لیے پروٹون سے نیوٹرون بنانے میں توانائ جذب ہوتی ہے۔ سورج کے مرکز میں یہی عمل جاری رہتا ہے۔ اس طرح بننے والا نیوٹرون جب کسی دوسرے پروٹون سے ملکر ڈیوٹیریم بناتا ہے تو جذب شدہ توانائ سے کہیں زیادہ توانائ خارج کرتا ہے۔

 
Standard Model کے مطابق بنیادی ذرات۔ صرف فوٹون اور گلواون غیر مادی (mass less) ذرات ہیں۔ صرف ہگز بوسون اپنے گرد نہیں گھومتا یعنی spin صفر رکھتا ہے۔

کمیت

ترمیم

نیوٹرینو مادے سے بہت ہی کم تعامل (interaction) کرتے ہیں اور اس وجہ سے اس ذرے کی خاصیتیں معلوم کرنے میں سخت دقت کا سامنا ہے۔ ایک عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ فوٹون کی طرح نیوٹرینو کی کمیت بھی صفر ہے مگر اس طرح تجرباتی مشاہدات کی وضاحت کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اب یہ باور کیا جاتا ہے کہ نیوٹرینو صفر سے کچھ ہی زیادہ (non zero) کمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر تصدیق ہونا باقی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ نیوٹرینو کسی الیکٹرون سے لگ بھگ دس لاکھ گنا کم کمیت رکھتا ہے۔

رفتار

ترمیم

آئن سٹائن کے نظریہ کے مطابق مادہ کبھی روشنی کی رفتار یا اس سے زیادہ رفتار سے حرکت نہیں کر سکتا۔ فوٹون روشنی کی رفتار سے اس لیے حرکت کر سکتا ہے کیونکہ اس کی حالت سکون کی کمیت (rest mass) صفر ہوتی ہے اور حرکت کرتے ہوئے فوٹون میں جو کمیت ہوتی ہے وہ اس کی حرکت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر نیوٹرینو میں تھوڑی بہت بھی حالت سکون کی کمیت ہے تو اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے لازماً کم ہو گی۔

مسئلہ شمسی نیوٹرینو

ترمیم

نیوٹرینو کی ایجاد کے تھوڑے عرصے بعد ہی یہ مسئلہ سامنے آیا کہ حساب کی رو سے سورج سے جتنے الیکٹرون نیوٹرینو دنیا تک پہنچنے چاہیئں اس کے آدھے یا اس سے بھی کم آ رہے ہیں۔ 30 سال بعد یہ معلوم ہوا کہ ذراتی طبیعیات کے معیاری نمونہ (standard model of particle physics) کے برخلاف نیوٹرینو نہ صرف کمیت کا حامل ہوتا ہے بلکہ ایک طرح کا نیوٹرینو دوسری طرح کے نیوٹرینو میں تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ اس تبدیلی کو نیوٹرینو کا ارتعاش (neutrino oscillation) کہتے ہیں۔

سپر نوا 1987A

ترمیم

23 فروری 1987ء میں آسمان پر ایک ستارہ سپر نووا کی شکل میں پھٹا جسے supernova 1987A کا نام دیا گیا۔ یہ ہماری زمین سے ایک لاکھ 60 ہزار نوری سال کے فاصلے پر تھا۔[2] اس سے نیوٹرینو کی ایک بوچھاڑ نکلی جو ہماری زمین تک بھی پہنچی۔ یہ بوچھاڑ 13 سیکنڈ تک جاری رہی اور اس دوران جاپان میں 10 نیوٹرینو شناخت ہوئے جو دنیا کو چیرتے ہوئے دوسری طرف سے آئے تھے۔ اسی سپر نووا کی روشنی نیوٹرینو کی بوچھاڑ آنے کے کئی گھنٹے بعد زمین تک پہنچی حالانکہ روشنی کی رفتار نیوٹرینو کی رفتار سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ستارے کے مرکز سے نکلنے والی روشنی کو ستارے کی غیر شفاف گیسوں سے باہر آنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے جبکہ نیوٹرینو کسی مادے سے انتہائ کم حد تک تعامل کرتے ہیں اس لیے فوراً ستارے سے باہر آ جاتے ہیں۔[3]
سورج کے مرکز میں عمل فیوزن کے دوران جب ایک پروٹون ایک نیوٹرون میں تبدیل ہوتا ہے تو توانائی (فوٹون) کے ساتھ الیکٹران نیوٹرینو بھی بنتے ہیں۔ نیوٹرینو صرف دو سیکنڈ میں سورج سے باہر آ جاتے ہیں جبکہ فوٹون کو باہر آنے میں دس لاکھ سال لگتے ہیں۔

نیوٹرینو کے تعاملات

ترمیم

الیکٹران اینٹی نیوٹرینو جب پروٹون p کے ساتھ عمل کرتا ہے تو نیوٹرون n اور پوزیٹرون e+ بنتے ہیں۔

ν
e
+ pn + e+

بننے والا پوزیٹرون کسی نزدیکی الیکٹرون سے مل کر فنا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں دو گاما ریز نکلتی ہیں۔

بننے والے نیوٹرون کے نزدیک اگر کیڈمیئم موجود ہو تو وہ نیوٹرون کو جذب کر لیتا ہے اور ایک اور گاما رے نکلتی ہے۔ اس طرح ایک ساتھ تین گاما ریز کا نکلنا نیوٹرینو کی پہچان ہے۔

n + 108Cd109mCd109Cd + γ
 
13 نومبر 1970 میں نیوٹرینو کو پہلی دفعہ ہائیڈورجن کے ببل چیمبر میں مشاہدہ کیا گیا۔

Muon decay

ترمیم

میون ایک نا پائیدار ایٹمی ذرہ ہوتا ہے جو الیکٹرون سے لگ بھگ 200 گنا بھاری ہوتا ہے۔ اس کی نصف حیات صرف 2.2 مائیکرو سیکنڈ ہوتی ہے۔ جب یہ عمر پوری ہونے پر ٹوٹتا ہے تو ایک الیکٹرون اور دو مختلف طرح کے نیوٹرینو وجود میں آتے ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Since neutrino flavor ویژہ قدر are not the same as neutrino mass eigenstates (see neutrino oscillation), the given masses are actually mass متوقع قدرs. If the mass of a neutrino could be measured directly, the value would always be that of one of the three mass eigenstates: ν1, ν2, and ν3. In practice, the mass cannot be measured directly. Instead it is measured by looking at the shape of the endpoint of the energy spectrum in particle decays. This sort of measurement directly measures the expectation value of the mass; it is not sensitive to any of the mass eigenstates separately.
  1. National Geographic Science
  2. hyperphysics
  3. First Evidence Of A Correction To The Speed of Light