ہیرا سنگھ ڈوگرا (1816-1844) 17 ستمبر 1843 سے 21 دسمبر 1844 تک لاہور سکھ راج (سکھ سلطنت) کا وزیر اعظم تھا۔ یہ راجا دھیان سنگھ کا بڑا بیٹا تھا اور جموں سے لگ بھگ 25 کلومیٹر کی دوری پر واقع رامگڑھ میں 1816 کو پیدا ہوا تھا۔ دھیان سنگھ ایک بارسوخ درباری تھا اور وہ اپنے بیٹے کو اپنے سرپرست مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حضوری میں لے آیا تھا جس نے نوجوان لڑکے کو بہت پیار اور عزت دی۔ اس نے شروع سے اس کو بہت اہمیت و اختیار دیا اور 1828 اس کو راجا کا خطاب دیا اور پھر اس کے فرزند خاسند ہونے کا اعلان کیا۔ مہاراجا نے اسے بہت سی جاگیریں دیں جن کی قیمت لگ بھگ پانچ لاکھ تھی۔ مہاراجا شیر سنگھ اور راجا دھیان سنگھ کے قتل کے بعد جب مہاراجا رنجیت سنگھ کے پانچ سال کے بیٹے دلیپ سنگھ کو 17 ستمبر 1843 کو پنجاب کا مہاراجا بنایا گیا تو ہیرا سنگھ نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ لیکن یہ اپنے عہدے پر ٹکے رہنے میں ناکام رہا۔ پنڈت جلا کو اپنا نائب عشیر مقرر کرنے پر یہ بدنام ہو گیا۔ اس نے راجا شیر سنگھ کے قتل کہ ذمہ داروں سندھا والے سرداروں کی جاگیریں ضبط کر لیں۔ہیرا سنگھ نے ایک ستکارت سکھ بھائی گرمکھ سنگھ اور مصر بیلی رام کو اس لیے قتل کروا دیا کیونکہ انھوں نے کنور نونہال سنگھ کی موت کے بعد راجا دھیان سنگھ کے اس کو مہاراجا بنانے کے خیال کی مخالفت کی تھی۔ اس نے مہارانی جنس کور کے بھائی جواہر سنگھ کو جیل میں ڈال دیا اور لاہور سے اپنے چچا سچیت سنگھ کو جلاوطن کر دیا کیونکہ یہ دونوں اس کے مخالف سمجھے جاتے تھے۔ اس نے اپنے چچا گلاب سنگھ ڈوگرا کے ایماء پر جس نے کچھ فرضی مکتوبات تیار کرنے میں اس کی مدد کی تھی، رنجیت سنگھ کے دو بقید حیات بیٹوں کشمیری سنگھ اور کنور پشورا سنگھ کی جائدادیں ضبط کر لی تھیں۔ اس نے گلاب سنگھ کو اُن کے خالف فوج دے کر بھیجا۔کنوروں پر اس حملے نے فوج میں بدگمانی پیدا کر دی جس کی وجہ سے فوج ڈوگرا وزیر اعظم کے خلاف ہو گئی اور اسے جاگیریں واپس کرنے اور جواہر سنگھ کو رہا کرنے پر مجبور کر دیا۔ ہیرا سنگھ کی سازشوں کی اس وقت انتہا ہو گئی جب اس نے سپاہی سے سنت بنے بابا بیت سنگھ کی خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ بابا بیر سنگھ نے اپنا ڈیرہ ان سازشوں سے دور ضلع امرتسر کے ایک چھوٹے سے گاؤں نورنگ آباد میں بنا لیا تھا۔ وہ سلطنت کا بہت خیرخواہ تھا اور درباریوں کی باہمی چپقلش سے بہت دُکھی تھا۔ اس کی ان باتوں سے ہیرا سنگھ کو بہت تکلیف تھی۔ چنانچہ اس نے گاؤں میں اس قلعے پر حملہ کرنے کے لیے فوجیں بھیج دیں، جہاں کنور کشمیری سنگھ اور عطر سنگھ سندھاوالیا نے پناہ لی ہوئی تھی۔ بابا بیت سنگھ پر حملے اور ہیرا سنگھ کے چہیتی پنڈے جلا کے مہارانی جند کور کو زہر دینے کی کوشش سے سکھ فوج میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ہیرا سنگھ اپنے 400 وفادار سپاہیوں کے ساتھ لاہور سے فرار ہو گیا اور جاتے ہوئے خزانے سے سونے چاندی کے کئی صندوق بھر کر لے گیا۔ لئکن جواہر سنگھ اور شام سنگھ اتاری والا کی سکھ فوج نے اسے راستے میں ہی گھیر لیا اور اسے اس کے چہیتے مشیر پنڈت جلا سمیت 21 دسمبر 1844 کو قتل کر دیا۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "ਹੀਰਾ ਸਿੰਘ ਡੋਗਰਾ - ਪੰਜਾਬੀ ਪੀਡੀਆ"۔ punjabipedia.org۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 نومبر 2018