ہیلی کا دُم دار سیارہ تقریباً ہر 76 سال بعد زمین سے گزرتا ہے، برطانوی فلکیات دان ایڈمونڈ ہیلی نے نوٹ کیا کہ یہ دم دار سیارہ 1758ء کو ایک بار پھر نمودار ہوگا اور اپنے دوست نیوٹن کو اس کے بارے میں بتایا، مگر 1758ء کو جب یہ دم دار سیارہ واقعی دوبارہ نمودار ہوا تو ایڈمونڈ ہیلی اسے دیکھنے کے لیے زندہ نہیں تھا، وہ اس سے چھ سال پہلے ہی مرچکا تھا، چنانچہ اس فلکیاتی دریافت اور ایڈمونڈ ہیلی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس دم دار ستارے کا نام ہیلی کا دمدار سیارہ رکھ دیا گیا۔

1P/Halley (Halley's Comet)
ہیلی دُم دار سیارہ
Comet Halley
Discovery
Discovered by prehistoric (observation);
Edmond Halley (recognition of periodicity)
Epoch 2449400.5
(17 فروری 1994)
Aphelion35.1 AU
(9 دسمبر 2023)[2]
Perihelion 0.586 AU
last perihelion: 9 فروری 1986
next perihelion: 28 جولائی 2061[2]
Semi-major axis 17.8 AU
Eccentricity 0.967
Orbital period 75.3 a[1]
Inclination 162.3°
Physical characteristics
Dimensions 15×8×8 km[3]، 11 km (JPL)[1]
کمیت 2.2 × 1014 to 3 × 1014 kg (estimates)[توضیح درکار][4][5]
Mean density 0.6[6] (estimates range from 0.2 to 1.5 g/cm³[7])
Sidereal rotation
period
2.2 d (52.8 h) (?)[1][6][4][8]
Albedo0.04[9]

ایڈمونڈ ہیلی کو دم دار ستاروں سے خاصی دلچسبی تھی، یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ جب 1682ء میں یہ دم دار سیارہ نمودار ہوا تو وہ بقیدِ حیات تھا (جو بعد میں اسی کے نام سے جانا گیا)، فلکیاتی ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے اسے یقین ہو گیا جس دم دار ستارے کو اس نے دیکھا تھا وہ وہی تھا جو 1530ء اور 1606ء میں دیکھا گیا تھا اور چونکہ تینوں تاریخوں کے درمیان میں فرق 76 سال اور 10 دنوں کا تھا چنانچہ ہیلی نے پیش گوئی کی کہ یہ دم دار ستارہ ایک بار پھر 1758ء – 1834ء – 1910ء اور 1986ء میں نمودار ہوگا (آخری تاریخ یعنی 1986ء کو ہیلی کو آخری مرتبہ دیکھا گیا تھا، اب یہ 28 جولائی 2061ء میں آئے گا)، اگرچہ ہیلی اس دم دار ستارے کی دوبارہ آمد سے پہلی ہی مرگیا تھا تاہم اس کی پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی اور یہ دم دار ستارہ واقعتاً ہر 76 سال بعد نمودار ہونے لگا، عمومی طور پر دم دار ستارے سورج کے گرد ایک طویل بیضوی مدار میں چکر لگاتے ہیں، یہ مدار بعض اوقات اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ایک چکر کئی صدیوں پر مشتمل ہو سکتا ہے، یہ نظامِ شمسی کے کناروں سے آتے ہیں اور ایک ضخیم برفانی مرکز پر مشتمل ہوتے ہیں جس کا قطر 50 کلومیٹر تک کا ہو سکتا ہے، جب یہ سورج کے قریب سے گزرتے ہیں تو حرارت کے اثر سے ان میں تبخراتی عمل شروع ہوجاتا ہے جس کے اثر سے نہ صرف ان کی ایک طویل دُم نمودار ہوجاتی ہے بلکہ یہ گلنے یا پگھلنے بھی لگتے ہیں، حتی کہ ہیلی کی آخری آمد پر وہ ان قیاسات سے کافی چھوٹا معلوم ہوا جو ایڈمونڈ ہیلی نے 1682ء میں ریکارڈ کی تھیں۔

اگرچہ دم دار ستاروں کے چکر ایڈ مونڈ ہیلی نے دریافت کیے تاہم وہ یہ چیز دریافت کرنے والا پہلا شخص بہر حال نہیں تھا، اسلامی تاریخ کئی دم دار ستاروں کے ریکارڈ سے پُر ہے جن میں بذاتِ خود ہیلی بھی شامل ہے۔.!! مشاہدے کی تاریخ اور دم دار ستارے کی آمد کے وقت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے اور اس کے لیے زیادہ محنت کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں، بس آخری نموداری سے صرف 76 سال منفی کرتے چلے جائیں، مثلاً ابن ایاس نے 862 ہجری بمطابق 1454ء عیسوی کو بدائع الزہور میں ہیلی کی نموداری کا تذکرہ کیا ہے، ابن الاثیر نے بھی ہیلی کی آمد 619 ہجری بمطابق 1222ء عیسوی کو ریکارڈ کی اور ان سے پہلے المقریزی نے اتحاف الحنفاء میں 379ء بمطابق 989ء عیسوی کو ہیلی کو ریکارڈ کیا، اس کے علاوہ ابن الجوزی نے بھی 299 ہجری بمطابق 913ء عیسوی کو کتاب المنتظم میں ہیلی کا تذکرہ کیا ہے، جبکہ ہیلی کو ریکارڈ کرنے کی سب سے پرانی تاریخ 222 ہجری بمطابق 837ء عیسوی ہے جو عرب فلاسفر ابو اسحاق الکندی کے ایک خاص رسالہ میں ملتی ہے جو انھوں نے خصوصی طور پر اس کے لیے لکھا جس کا عنوان ہے ” رسالہ خاصہ فیما رصد من الاثر العظیم الذی ظہر فی سنہ اثنین وعشرین ومائتین للہجرہ ”، یہی تاریخ ابن الاثیر کی الکامل فی التاریخ میں بھی ملتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:

“في سنة اثنين وعشرين ومائتين للهجرة ظهر عن يسار القبلة كوكب ذو ذنب وبقي يُرى نحو أربعين ليلة وكان أول ما طلع من المغرب ثم رني نحو المشرق وكان أبيض طويلاً فهال الناس وعظم أمرہ عليهم”۔

ابن الاثیر

— 

ترجمہ: ”سال بائیس اور دو سو ہجری کو قبلہ کی بائیں طرف سے ایک دم دار سیارہ نمودار ہوا جو کوئی چالیس راتوں تک نظر آتا رہا اور وہ پہلی بار مغرب سے نکلا اور پھر مشرق کی طرف جاتا گیا اور وہ سفید اور لمبا تھا تو لوگ ڈر گئے اور اس کا معاملہ ان پر بھاری ہو گیا”۔

خبریں کہتی ہیں کہ اس وقت لوگ اس ڈر سے کہ کہیں کوئی نا معلوم سیارہ زمین پر نہ گر جائے ایک اجتماعی خوف کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے تھے۔. اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو لوگوں کی یاداشت میں پھر بھی باقی رہا حتی کہ عرب شاعر ابی تمام نے اس پر اپنے ایک مشہور قصیدے بعنوان ” السیف اصدق انباء من الکتب ” میں ایک شعر بھی کہا ہے جو کچھ یوں ہے:

وخوّفوا الناس من دهياء مظلمة
اذا بدا الكوكب الغربي ذو الذنب
— 

ترجمہ:

اور انھوں نے لوگوں کو ایک اندھیری مکار سے ڈرایا
جب دم والا مغربی سیارہ نمودار ہوا

ہیلی کے علاوہ اسلامی علمی تاریخ میں اور بھی بہت سارے دم دار ستاروں کا تذکرہ ملتا ہے جن کا چکر ہیلی سے میل نہیں کھاتا بلکہ دوسرے ایسے دم دار ستاروں سے میل کھاتا ہے جو باقاعدگی سے زمین سے گزرتے ہیں۔. مثال کے طور پر سب سے کم چکر والا دم دار سیارہ اینکی Encke (صرف 3.3 سال) یا Kohoutek کوہوٹک (80 سال) اور ہیل-بوپ Hale-Bopp جو زمین سے ہر 4210 سالوں میں گزرتا ہے اور اگر وہ زمین سے جولائی 1995ء میں نہ گزرتا تو اس کے وجود کا کسی کو علم ہی نہ ہوپاتا !!


علامہ محمد اقبالؒ نے بھی یہ دمدار سیارہ دیکھا تھا اور اس کے بارے میں کہا تھا

"کل صبح چار بجے کے قریب میں نے کرۂ ارض کے اس عطیم الشان زائر کو دیکھا جو "ہیلی کا دم دار تارا" کہلاتا ہے۔ خلائے بسیط کا یہ پُر شکوہ شناور پچھتر برس میں ایک مرتبہ ہماری فضائے آسمانی پر نمودار ہوتا ہے۔ اب میں دوبارہ اس کا مشاہدہ صرف اپنے اخلاف کی آنکھوں سے کر سکوں گا۔ میری ذہنی کیفیت بالکل انوکھی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی شے اپنی ناقابلِ بیان وسعتوں کے ساتھ میرے تنگ نائے وجود میں سما گئی ہے۔ تاہم اس خیال نے کہ میں اس آوارہ مسافر کو دوبارہ نہیں دیکھ سکتا، مجھے اپنی ہیچ مقداری کی اندوہ ناک حقیقت کا احساس دلایا۔ میرے تمام ولوے اس لمحے میں سرد پڑ گئے۔"

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت "JPL Small-Body Database Browser: 1P/Halley"۔ 1994-01-11 last obs۔ 11 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2008 
  2. ^ ا ب Donald K. Yeomans۔ "Horizon Online Ephemeris System"۔ California Institute of Technology, Jet Propulsion Laboratory۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 ستمبر 2006 
  3. "What Have We Learned About Halley's Comet?"۔ Astronomical Society of the Pacific (No. 6 – Fall 1986)۔ 1986۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2008 
  4. ^ ا ب G. Cevolani, G. Bortolotti and A. Hajduk (1987)۔ "Halley, comet's mass loss and age"۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2007 [مردہ ربط]
  5. Using the volume of an ellipsoid of 15x8x8km * an assumed rubble pile density of 0.6 g/cm³ yields a mass (m=d*v) of ~3.02E+14 kg
  6. ^ ا ب RZ Sagdeev; PE Elyasberg; VI Moroz. (1988)۔ "Is the nucleus of Comet Halley a low density body?"۔ AA(AN SSSR, Institut Kosmicheskikh Issledovanii, Moscow, USSR)، AB(AN SSSR, Institut Kosmicheskikh Issledovanii, Moscow, USSR)، AC(AN SSSR, Institut Kosmicheskikh Issledovanii, Moscow, USSR)۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 مئی 2007 
  7. S.J. Peale (1989)۔ "On the density of Halley's comet"۔ Icarus۔ 82 (1): 36–49۔ ISSN 0019-1035۔ doi:10.1016/0019-1035(89)90021-3۔ densities obtained by this procedure are in reasonable agreement with intuitive expectations of densities near 1 g/cm3, the uncertainties in several parameters and assumptions expand the error bars so far as to make the constraints on the density uniformative … suggestion that cometary nuclei tend to by very fluffy, … should not yet be adopted as a paradigm of cometary physics. 
  8. S.J. Peale; Lissauer, Jack J. (1989)۔ "Rotation of Halley's comet"۔ Icarus۔ 79 (2): 396–430۔ doi:10.1016/0019-1035(89)90085-7  Cite uses deprecated parameter |coauthors= (معاونت);
  9. Robert Roy Britt (2001-11-29)۔ "Comet Borrelly Puzzle: Darkest Object in the Solar System"۔ Space.com۔ 30 نومبر 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2008