یاسمین لاری (پیدائش 1941ء) پاکستان کی پہلی خاتون ماہر تعمیرات ہیں۔[4][5] اپنی پیشہ ورانہ زندگی سے 2000ء میں فراغت کے بعد انھیں دیہات اور پاکستان کے گاؤں میں منصوبہ جات کے سلسلے میں لے جایا جاتا ہے۔ وہ "تعمیرات سماجی انصاف اور  ایک مساوات پسند معاشرے کی اساس کیسے مہیا کر سکتی ہیں" کے موضوع پر اپنی دلچسپی کے باعث جانی جاتی ہیں۔

یاسمین لاری
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1941ء (عمر 82–83 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈیرہ غازی خان   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ معمار [2]،  مصنفہ ،  تاریخ دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل معماری [3]  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
فوکوکا ایشیائی ثقافت انعام   (2016)
 ستارۂ امتیاز    ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

یاسمین لاری ڈیرہ غازی خان کے ایک قصبہ میں پیدا ہوئیں اور اپنی زندگی کے ابتدائی سال لاہور اور اس کے نواح میں گزارے۔ ان کے والد ظفر الاحسن ایک ہندوستانی سول افسر تھے جو لاہور اور دوسرے شہروں میں بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام کرتے تھے اور یاسمین لاری کو اپنے والد کے ذریعے ہی فن تعمیر میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان کی بہن نسرین جلیل ایک پاکستانی سیاست دان ہیں۔ جب لاری پندرہ(15) سال کی تھیں تو انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ لندن کے سفر کے لیے پہلی مرتبہ پاکستان چھوڑا۔[5] یہ چھٹیاں گزارنے کے لیے ایک سفر تھا جس کا اختتام ان بہن بھائیوں کے لندن میں ایک اسکول میں داخلے سے ہوا۔[5] نقش نگاری میں عدم مہارت کے باعث تعمیرات کے ایک اسکول میں داخلہ نہ ملنے پر یاسمین لاری نے دو سال لندن میں فن نقش نگاری کی تعلیم حاصل کی اور بالآخر آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسکول برائے تعمیرات میں داخل ہو گئیں۔ [5]

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

1964ء میں آکسفورڈ اسکول برائے تعمیرات سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد 23 سال کی عمر میں لاری اپنے شریک حیات سہیل ظہیر لاری کے ساتھ پاکستان واپس آ گئیں اور کراچی میں لاری ایسوسی ایٹس کے نام سے ادارہ قائم کیا۔[5]  درجنوں ماہرین تعمیرات کے مابین وہ پاکستان کی پہلی خاتون ماہر تعمیرات بن گئیں۔

اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز میں انھیں اپنی جنس کے باعث جائے تعمیر پر کارکنان کی جانب سے ان کے علم اور قابلیت پر تنقید کے حوالے سے بہت مشکلات پیش آئیں۔[6]

1969ء میں لاری ریبا کی ممبر منتخب ہو گئیں۔

ان کے حالیہ منصوبہ جات میں گھر مثلاً انگوری باغ گھر (1978ء)، کاروباری عمارات مثلاً تاج محل ہوٹل(1981ء)، مالیاتی اور تجارتی مرکز (1989ء) اور کمپنی کا مرکز پی ایس او ہاؤس (1991ء) کراچی شامل ہیں[5]

لاری 2000ء میں تعمیراتی کام سے سبکدوش ہو گئیں۔[7] تاہم وہ یونیسکو کے منصوبہ جاتی کی مشیر کے طور پر اپنے تاریخی اثاثہ کی حفاظت کے لیے سرگرم رہیں، انھوں اپنے شوہر کی معیت میں تنظیم اثاثہ(Heritage_Foundation_Pakistan) کے نام سے نے ایک غیر منافع بخش تنظیم بنائی اور کاروان تہمیدات (Karvan Initiatives) کی صدر نشین ہیں۔[7]

2010ء سے لاری زلزلوں اور سیلابوں سے متاثر پاکستانیوں کے لیے 36000 سے زیادہ گھر تعمیر کر چکی ہیں۔ لاری روائیتی طریقہ تعمیر اور دیسی مواد کا اطلاق پاکستان کی وادی سندھ کی تعمیر نو میں کرتی ہیں۔[8]

2013ء میں انھوں نے ضلع آواران میں بلوچستان کے دیہی زلزلہ متاثرین کی مدد کی۔[8]

تعمیراتی کام

ترمیم

مکمل کردہ منصوبہ جات

ترمیم
  • آشیانہ جات افسران بحریہ، کراچی (Naval Officers Housing, Karachi)
    [9]
  • آشیانہ جات انگوری باغ Angoori Bagh Housing (also known as ABH) (1978)[9]
  • تاج محل ہوٹل کراچی (1981)[9]
  • مرکز مالیات و تجارت (FTC Building)، کراچی (1989)[9]
  • پی ایس او گھر (also known as PSO House)، کراچی (1991)[9]

تاریخی اثاثہ جات اور بحالی کے منصوبہ جات

ترمیم
  • مرکز اثاثہ جات خیرپور[10]
  • سیتھی گھر، سیتھی محلہ (Sethi house in Sethi Mohallah) (2010–2012)[10]

تصانیف

ترمیم

یاسمین لاری کی تصانیف میں شامل ہیں:

  • Slums and Squatter Settlements: Their Role and Improvement Strategy
  • Our Heritage in Muslim Architecture
  • Tharparkar and Sialkot after the War
  • 1993 – Traditional Architecture of Thatta[11]
  • 1997 – The Dual City: Karachi During the Raj (co-written with her son, Mihail Lari)[10]
  • 1997 – The Jewel of Sindh: Samma Tombs on the Makli Hill (co-authored by her husband, Suhial Zaheer Lari)[10]
  • 2001 – Karachi: Illustrated City Guide (photography by her husband, Suhial Zaheer Lari)

اعزازات

ترمیم

2002ء میں Heritage Foundation نے اپنی کاوشوں اور نتائج کی پزیرائی کے طور پر United Nations System in Pakistan سے اعزاز وصول کیا۔[5]

2006ء میں لاری کو حکومت پاکستان کی جانب سے فن تعمیر اور ورثہ کی حفاظت کے سلسلے میں ان کی خدمات اور کام کی پزیرائی کے لیے ستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا۔[12]

2001ء میں انھوں نے "سال کی پہلی نادر پاکستانی خاتون" کا اعزاز حاصل کیا۔[13]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6109pzc — بنام: Yasmeen Lari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. خالق: گیٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ — تاریخ اشاعت: 5 نومبر 2010 — یو ایل اے این - آئی ڈی: https://www.getty.edu/vow/ULANFullDisplay?find=&role=&nation=&subjectid=500069904 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 فروری 2024
  3. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=ntk20241215579 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 فروری 2024
  4. "Yasmeen Lari", International Archive of Women in Architecture.
  5. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج Laila Kazmi (2008)۔ "Women of Pakistan - Yasmeen Lari"۔ Jazbah Magazine۔ Jazbah۔ 01 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2015 
  6. Anadil Iftekhar۔ "The Queen of Architecture"۔ You! The New Woman Lifestyle۔ Jang Group of Newspapers۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اگست 2014 
  7. ^ ا ب Jaime Gillin (2 July 2012)۔ "Q&A with Pakistan's First Female Architect"۔ Dwell۔ Dwell Media LLC۔ 03 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  8. ^ ا ب Katie Watkins (26 August 2014)۔ "Al Jazeera's Rebel Architecture: Episode 2, "The Traditional Future""۔ ArchDaily.com۔ Al Jazeera۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  9. ^ ا ب پ ت ٹ Ayesha Kaleem۔ "Yasmeen Lari: The Architect and the Saviour"۔ NUST Science۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2015 
  10. ^ ا ب پ ت Asif Noorani (2012-10-29)۔ "Fighting on different fronts"۔ Dawn۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اپریل 2016 
  11. "Traditional Architecture of Thatta"۔ www.academia.edu۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2015 
  12. "About us"۔ heritagefoundationpak.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اگست 2014 
  13. Wonderwomen of the Year Awards آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ wonderwomenpakistan.com (Error: unknown archive URL).

بیرونی روابط

ترمیم