یزید بن زیاد بن مہاصر
یزید بن زیاد بن مہاصر مشہور بنام ابو الشعثاء کندی شہدائے کربلا میں سے ہیں۔
فائل:آرامگاه شهدای کربلا2.jpg گنج شہدا | |
معلومات شخصیت | |
---|---|
نام: | یزید بن زیاد بن مہاصر کندی |
لقب: | ابو الشعثاء کندی |
نسب: | قبیلہ کندہ(بنی بہدلہ کی شاخ) |
اصحاب: | امام حسین |
ایک نقل کے مطابق وہ واقعہ کربلا کے ابتدا میں عمر بن سعد کے لشکر کا حصہ تھے لیکن بعد میں جب امام حسین (ع) کی تجاویز کو اس نے قبول ہوتے نہیں دیکھا تو وہ امام حسین کے اصحاب میں شامل ہو گئے۔
نام، کنیت، نسب
ترمیمیزید بن زیاد بن مہاصر کندہ قبیلہ سے تھے جو بنی بہدلہ کی شاخ ہے اور ان کی کنیت ابوالشعثاء تھی۔[1] آپ اپنی قوم کے سردار اور فنون جنگ میں طاق تھے۔
اصحاب امام حسین میں شمولیت
ترمیمیزید بن زیاد بن مہاصر کی اصحاب امام حسین کے اصحاب میں شمولیت کے متعلق دو روایات ہیں:
- وہ لشکر عمر بن سعد کے ساتھ کوفہ سے کربلا آئے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ امام حسین(ع) کی تجاویز قبول نہیں ہوئیں تو انھوں نے اصحاب امام میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔[2]
- وہ حر بن یزید ریاحی اور اس کی فوج کے امام حسین (ع) تک پہنچنے سے پہلے کوفہ سے نکل آئے اور امام حسین کے کاروان میں شامل ہو گئے۔
جب ابن زیاد نے حر کو خط بھیجا تو ابو الشعثاء نے خط کے قاصد کو پہچان (اس کے قبیلے سے تھا) کر اسے کہا:
- تیری ماں تیری عزا میں بیٹھے! کیا پیغام لائے ہو؟
- اس نے جواب دیا: میں نے اپنے امام کی اطاعت کی ہے اور اپنے پیمان بیعت کی وفا کی ہے۔
واقعہ کربلا
ترمیماس نے روز عاشورا گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کی اور گھوڑے کے پے ہو جانے کے بعد حضرت امام حسین کے سامنے دو زانو بیٹھ کر سو تیر دشمن کی طرف چلائے۔ ہر تیر کے چلانے سے پہلے درج ذیل رجز پڑھتا:
میں قبیلہ بہدلہ کا فرزند ہوں | میں پیادہ لشکر کا جوان کارزار ہوں |
امام حسین نے اس کا یہ حال دیکھ کر اس کے حق میں یوں دعا کی:
- خداوندا اس کے تیر نشانے پر لگیں اور اس کی جزا جنت قرار دے۔[5]
تیر ختم ہونے کے بعد اس نے کہا: میرے صرف پانچ تیر نشانے پر نہیں لگے۔ یہ کہہ کر تلوار سونت کر درج ذیل رجز پڑھتا ہوا دشمن پر حملہ آور ہوا :
میں یزید و میرا باپ مہاصر ہے | ، میں شیر سے زیادہ دلیر ہوں | |
اے خدا! میں یاور حسین ہوں | اور میں عمر بن سعد کو چھوڑنے اور ہجرت کرنے والا ہوں |
اور اس نے شہید ہونے تک اپنی جنگ کو جاری رکھا۔[6]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیممآخذ
ترمیم- إبصار العين في أنصار الحسين، سماوی، زمزم ہدایت، قم، 1384ش۔
- تاریخ الامم و الملوک، طبری، موسسہ الاعلمی، بیروت، 1403ق۔