عمر بن سعد
عمر بن سعد (ولادت-620ء وفات 65ھ یا 66ھ یا 67ھ/684ء یا 685ء یا 686ء) مشہور صحابی رسول سعد بن ابی وقاص کے فرزند جنہیں واقعہ کربلا کی ایک سرکردہ شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ واقعہ كربلا کے وقت یہ ابن زیاد کی فوج میں سپہ سالار تھے اکثر روایت میں انہیں واقعہ کربلا کے مجرمین میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ متعدد [حوالہ درکار]اس کے برخلاف ہیں جیسا کہ عمر بن سعد نے حتی المقدور کوشش کی کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے۔[1]
عمر بن سعد | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 620 مدینہ منورہ |
وفات | سنہ 686 (65–66 سال) کوفہ |
قاتل | مختار ثقفی |
والد | سعد بن ابی وقاص |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | سانحۂ کربلا |
درستی - ترمیم ![]() |
نسب ترميم
عمر بن سعد بن ابی وقاص مالک بن اہيب بن عبد مناف بن زہرہ بن كلاب بن مرہ بن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر بن كنانہ بن خزيمہ بن مدركہ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان الزہری القرشی الكنانی۔
عمر بن سعد کی ولادت ابن حجر عسقلانی کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں[2] اور بعض روایات کے مطابق اس سال، جس سال عمر بن خطاب کوشہید کیا گيا، جب کہ طبری کی روایت کہ 17ھ میں فتح عراق میں اس نے شرکت کی۔ اور سعد بن ابی وقاص نے اسے رائس عین کی مہم سونپی۔ اس سے پہلی روایت کو تقویت ملتی ہے۔[3]
الميۂ کربلا سے قبل ترميم
باپ کو دعوی خلافت کی ترغیب دلانا ترميم
سنہ 37 ہجری قمری / 657عیسوی، میں ـ جب دومۃ الجندل میں امیرالمؤمنین حضرت علیؓ اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان حکمیت کا واقعہ رونما ہوا ـ اس نے سپاہ حضرت علی(ع) اور معاویہ کے درمیان اختلافات کا مشاہدہ کیا تو اپنے باپ کے پاس پہنچا اور اس کو خلافت کا دعوی کرنے کی ترغیب دلائی لیکن حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے انکار کیا۔[4]
حجر بن عدی کے خلاف جھوٹی گواہی ترميم
عمر بن سعد نے سنہ 51 ہجری قمری / 671 عیسوی میں زیاد بن ابیہ کی درخواست پر دوسرے افراد کے ساتھ مل کر [صحابی رسولؐ] جناب حجر بن عدی کے خلاف جھوٹی گواہی دی کہ وہ فتنہ انگيزی کی نیت سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اورکافر ہوچکے ہیں۔ یہی گواہی معاویہ کے لئے دستاویز بنی اور اس نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو مرج العذراء کے مقام پر شہید کیا۔[5]
امام حسین(ع) کی ہجرت مکہ کی روایت ترميم
خوارزمی نے ابن اعثم کوفی کے حوالے سے لکھا ہے کہ "امام حسین(ع) نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے مدینہ سے [ہجرت]کی اور مکہ میں پناہ لی، عمر بن سعد، امیر [یا شاید مکہ کا امیر الحاج] تھا۔ اور جب اس نے حجاج بیت اللہ کی طرف سے امام حسین(ع) کا استقبال اور آپ(ع) کی طرف لوگوں کے رجحان کا مشاہد کیا تو وہ مدینہ چلا گیا اور یزید کو خط لکھا اور اس کو امام(ع) کی مکہ آمد کی خبر دی۔ (واضح رہے کہ ابن اعثم کی موجودہ تاریخ میں یہ روایت موجود نہیں ہے اور گویا جو نسخہ خوارزمی کے پاس تھا وہ موجودہ نسخوں سے مختلف تھا)۔[6]
مسلم بن عقیل کے ساتھ خیانت ترميم
جب مسلم بن عقیل امام حسین(ع) کے نمائندے کی حیثیت سے سنہ 60 ہجری قمری/ 680 عیسوی میں کوفہ پہنچے تا کہ امام(ع) کے لئے کوفیوں سے بیعت لیں تو ابن سعد نے بھی بعض دوسرے اشراف کی طرح یزید کو خط لکھا اور تجویز دی کہ اگر کوفہ کو بچانا چاہتا ہے تو اپنے والی نعمان بن بشیر کو برطرف کرے۔ جب مسلم بن عقیل کو عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر گرفتار کئے گئے تو مسلم نے رازداری میں ابن سعید کو وصیت کی لیکن ابن سعد نے ابن زیاد کو ان کی وصیت سے آگاہ کیا اور مسلم کے ساتھ خیانت کی۔[7]
کربلا میں موجودگی ترميم
تاریخ میں ابن سعد کی شہرت وجہ کربلا کے خونی واقعے میں اس کی شرکت ہے جس میں امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب شہید ہوئے۔ اس واقعے نے ابن سعد کو تاریخ کے قابل نفرت چہروں میں قرار دیا۔
عبیداللہ بن زیاد کی کوفہ آمد کے بعد، ابن سعد ـ جس کو رے اور دَسْتبی۔ کی حکومت سونپ دی گئی تھی اور مامور تھا کہ دیلمیوں کی شورش کو کچل دے 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ ـ جو کوفہ کے باہر خیمہ زن تھا ـ رے کی طرف عزیمت کے لئے تیار تھا لیکن کوفہ کی طرف امام حسین(ع) کی عزیمت کی خبر ابن زیاد کو ملی تو وہ مجبور ہوا کہ ابن سعد کو امام(ع) کا مقابلہ کرنے کے لئے کربلا روانہ کرے۔ ابن سعد نے ابتداء میں حکم ماننے سے انکار کیا لیکن ابن زیاد نے اس کو دھمکی دی کہ اگر امام(ع) کا مقابلہ نہ کیا تو اس کو رے کی حکومت کا فرمان واپس کرنا پڑے گا چنانچہ اس نے سر تسلیم خم کیا اور اپنے ماتحت سپاہیوں کے ہمراہ کربلا کی جانب روانہ ہوا۔[8]
کربلا کی جنگ میں کردار ترميم
ابن سعد بروز جمعہ 2 یا 3 محرم سنہ 61 ہجری قمری/ 680 عیسوی کو کربلا روانہ ہوا اور قرہ بن قیس حنظلی کو امام حسین(ع) کے پاس روانہ کیا تا کہ امام(ع) سے پوچھ لے کہ آپ(ع) عراق آئے ہیں؟
امام حسین(ع) نے جواب دیا: "مجھے کوفہ کے لوگوں نے دعوت دی ہے اسی بنا پر میں عراق آیا ہوں، اب اگر وہ اپنی دعوت پر استوار نہیں ہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔
ابن سعد نے امام(ع) کا جواب ایک خط کے ضمن میں عبیداللہ بن زیاد کے لئے لکھا، تاہم عبیداللہ کے حاشیہ برداروں ـ منجملہ شمر بن ذی الجوشن اور دیگر نے جو جنگ کے حامی تھے ـ ابن سعد کو امام(ع) کے سامنے نرمی برتنے سے منع کیا اور ابن زیاد نے ابن سعد کو ـ جو کہ ابتداء میں اس موضوع کو مصالحت کے ذریعے فیصلہ دینا چاہتا تھا ـ لکھا کہ "یا حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرے یا سپاہ کوفہ کی امارت شمر بن ذی الجوشن کے سپرد کر دے"،۔۔ لیکن ابن سعد نے اس خط کے جواب میں شمر سے کہا: "میں خود سپاہ کا امیر ہونگا اور امام حسین(ع) کے ساتھ لڑوں گا"؛ اور پھر یہ واضح کرنے کے لئے کہ وہ امام(ع) کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے پر عزم ہے، اس نے سب سے پہلا تیر امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کی طرف پھینکا۔[9][10]
شہداء کربلا کے جسموں کی پامالی ترميم
ابن سعد نے امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کی شہادت کے بعد حکم دیا کہ ان کے جسموں پر گھوڑے دوڑائے جائیں اور انہیں پامال کیا جائے اور 12 محرم کو اس نے اپنی سپاہ کے ہالکین کو دفنا دیا، خاندان حسین(ع) کو اسیر بنایا اور کوفہ کی طرف روانہ ہوا اور جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس پہنچا تو ابن زیاد نے کہا کہ امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کے سلسلے میں اس کا بھیجا ہوا خط واپس دے۔ ابن سعد نے دعوی کیا کہ وہ خط کہیں جل کر ضائع ہوچکا ہے۔ ابن زیاد نے کہا: میں وہ خط تم سے لے کر رہوں گا۔
ابن سعد نے ـ جو ہر طرف سے مایوس ہوچکا تھا ـ اپنی حالت کو یوں بیان کیا ہے: "کوئی بھی مجھ سے بد تر حالت میں اپنے گھر کو نہیں پلٹا، کیونکہ میں ایک فاجر اور ظالم امیر کی اطاعت کرچکا ہوں اور عدل کو پامال کرچکا ہوں اور اپنی قرابت کے رشتوں کو منقطع کرچکا ہوں"۔[11]
ہلاکت ترميم
پہلی روایت ترميم
ابن سعد ـ امام حسین(ع) کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لئے سلیمان بن صُرَد خزاعی کوفی کی تحریک (سنہ 65ہجری قمری /684عیسوی) کے ایام میں اپنی جان کے خوف سے ـ راتوں کو دارالامارہ میں سویا کرتا تھا اور اسکے بعد مختار بن ابی عبیدہ ثقفی نے سنہ 66ہجری قمری/685عیسوی میں امام حسین(ع) کی خونخواہی کی نیت سے قیام کیا اور کوفہ پر مسلط ہوئے تو ابن سعد محمد بن اشعث کے ساتھ ـ جو خود بھی جنگ کربلا میں شرکت کرچکا تھا ـ کوفہ سے فرار ہوکر چلا گیا۔ لیکن کوفیوں نے مختار کے خلاف بغاوت کی تو وہ کوفہ واپس آیا اور مختار کے دوسرے مخالفین کے ساتھ مل کر باغیوں کی قیادت کرنے لگا تاہم باغیوں کو شکست ہوئی تو وہ پھر بھی کوفہ چھوڑ کر بھاگ گیا اور بصرہ کی طرف چلا گیا تاکہ مصعب بن زبیر کے ہاں پناہ لے۔ مختار نے اپنے ایک سپہ سالار ابوقلوص شبامی کو ابن سعد اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب میں روانہ کیا۔ اس نے ابن سعد کو گرفتار کرکے مختار کے سامنے پیش کیا، اور ابن سعد اور اس کے بیٹے حفص بن عمر بن سعد ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ کو مختار کے حکم پر ہلاک کیا گیا۔ مختار نے ان کے جسموں کو آگ میں جلایا اور اور ان کے سروں کو مدینہ میں محمد بن حنفیہ کے پاس بھجوایا۔۔
دوسری روایت ترميم
دوسری روایت میں منقول ہے کہ ابتداء میں مختار نے عبداللہ بن جعدہ بن ہبیرہ مخزومی کی شفاعت پر ابن سعد کو امان نامہ دیا، کیونکہ مختار کی بیٹی یا بروایتے مختار کی بہن عمر بن سعد کی بیوی تھی؛ لیکن محمد بن حنفیہ نے مختار سے احتجاج کیا تو انھوں نے اپنی سپاہ کے ایک امیر کو حکم دیا کہ عمر سعد کو اس کے گھر سے گرفتار کرکے اس کا سر قلم کردے۔ جب عمر کا سر مختار کی مجلس میں لایا گیا تو اس کے بیٹے حفص بن عمر کو بھی ـ جو مختار کی مجلس میں موجود تھا ـ کو بھی ہلاک کیا گیا۔
اولاد ترميم
- حفص، جو اپنے باپ کے ساتھ کربلا میں حاضر تھے اور مختار ثقفی کے ہاتھوں مارا گیا۔
- محمد جس نے عبد الرحمن بن محمد بن اشعث کے ساتھ مل کر حجاج بن یوسف کے خلاف بغاوت کی اور مارے گئے۔
- عامر، 140ھ میں وفات ہوئی۔
- مصعب، 130ھ میں وفات ہوئی۔
- اور موسی
وفات ترميم
سنہ 66ھ میں عمر بن سعد اور ان کے بیٹے حفص کو مختار نے خون حسین کا انتقام لیتے ہوئے قتل کیا۔[12]
مزید دیکھیے ترميم
حوالہ جات ترميم
- ↑ احمد، ڈاکٹر اسرار. "سانحہ کربلا". Archive.org. مرکزی انجمن خدّام القرآن.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد 7 صفحہ451۔
- ↑ امام ابن جریر،طبری، تاریخ طبری، جلد 5 صفحہ 534
- ↑ طبری، ابن جریر. تاریخ الرسل والملوک. صفحات ج5، 67.
- ↑ طبری، ابن جریر. تاریخ الرسل والملوک. صفحات ج۵، ص ۲۶۹ تا ۲۷۶.
- ↑ خوارزمی. مقتل الحسین. صفحات ج1، ص 190.
- ↑ دینوری. الاخبار الطوال. صفحات ص241.
- ↑ بلازری. الانساب الاشراف. صفحات ج–۳، ص ۱۷۶،۱۷۷.
- ↑ طبری، ابن جریر. تاریخ الرسل والملوک. صفحات ج۔۵، ص ۴۰۹ و ۴۱۷.
- ↑ بلازری. الانساب الاشراف. صفحات ۱۷۷،۱۸۷،۴۱۱،۴۱۵.
- ↑ طبری، ابن جریر. تاریخ الرسل والملوک. صفحات ج ۵، ص ۴۶۷.
- ↑ نجیب آبادی، اکبر شاہ خاں. "تاریخ اسلام". محدث لائبریری. دار الاندلس لاہور. صفحہ ١٠١.