ہر سال 5 ستمبر کا دن بھارت کے لیے خصوصیت کا حامل ہے۔ اسی دن ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کی پیدائش ہوئی تھی۔ اسی کے مد نظر اس دن کو پورے ملک میں ’’یوم اساتذہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔[1] پورے ملک میں اس سلسلے میں تقریبات کے انعقاد ہوتے ہیں۔ طلبہ اس دن اساتذہ کو گلدستے اور تحائف پیش کرتے ہیں جبکہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے عمدہ خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو خصوصی انعامات دیے جاتے ہیں۔

سروے پلی رادھا کرشنن کا تعلیمی دنیا میں مقام

ترمیم

رادھا کرشنن اپنے تبحر علمی کے سبب کئی میدانوں میں ماہر تھے۔ ان کی عمیق دل چسپی کا موضوع تقابلی مذہب تھا۔ وہ مشرق اور مغرب کے تفکرات کے مطالعے اور تجزیے میں خاص مقام رکھتے تھے۔ بہ حیثیت ایک مدرس کے وہ کئی عظیم تعلیمی عہدوں پر فائز رہے تھے۔ ان میں کلکتہ یونیورسٹی میں کنگ جارج ففتھ چیئر آف مینٹل اینڈ مارل سائنس (1921-32) اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسپالڈنگ پروفیسر آف ایسٹرن ریلیجن اینڈ ایتھیکس (1936-52)۔ انھیں بھارت رتنا کا اعزاز بھارت کی آزادی کے بعد دیا گیا تھا۔

وہ اپنے مطالعے کا نچوڑ اپنی کتابوں میں لکھا کرتے تھے۔ انھوں نے رویندراناتھ ٹیگور پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان The Philosophy of Rabindranath Tagore تھا۔ ان کی دوسری کتاب معاصر دنیا میں مذہب کی افادیت پر تھی اور اس کا عنوان The Reign of Religion in Contemporary Philosophy تھا۔ [2]

ان کا تعلیمی سفر ان کی عملی زندگی پر بھی اثر انداز رہا۔ وہ ہمیشہ اعلٰی تعلیمی اقدار کی باتیں کرتے تھے اور عوام کے اخلاق کو سدھارنے کی باتیں سوچتے تھے۔ چنانچہ جب ان کے سامنے نرگس دت کو راجیہ سبھا کی رکنیت دینے کی تجویز آئی تو انھوں نے اس پر فورًا اپنا یہ اعتراض جتایا کہ اس اقدام سے نوجوانوں کے اخلاق بری طرح سے متاثر ہوں گے۔ یہ اعتراض جدید بھارتی سیاسی دور سے مختلف ہے جس میں جیا پردا، ہیما مالینی اور دھرمیندر جیسی شخصیات پارلیمان کے کسی نہ کسی ایوان کا حصہ بن چکے ہیں۔

وہ اپنے تاریخ کے عمیق کے مطالعے سے بڑے خوش اخلاق اور اعلٰی حسِ مزاح کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال یونان کے صدر مملکت سے ان کا مکالمہ ہے۔ انھوں نے مہمان صدر کے روبرو کہا کہ آپ پہلی یونانی وقار شخصیت ہیں جو ایک دعوت پر بھارت تشریف لائی ہے۔ اس سے قبل سکندر بغیر دعوت کے بھارت آئے تھے۔ اس سے تو بے تعلق موقعوں کو حسین پرایوں جوڑنے کے کو دیکھ کر مہمان مسکراتے ہوئے ہنس پڑے تھے۔

حوالہ جات

ترمیم