یکساں ملازمت کے لیے یکساں اجرت
یکساں ملازمت کے لیے یکساں اجرت (انگریزی: Equal pay for equal work) مزدوروں کے حقوق کا ایک تصور ہے کہ ان افراد کو ایک جیسی اجرت ملنا چاہیے جو ایک جیسے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ جنسی امتیازات کے ضمن میں مستعمل ہے، بالخصوص جنس پر مبنی اجرت کی خلاء کے معاملے میں۔ یکساں اجرت یا مساوی اجرت سبھی ادائیگیوں اور فوائد پر مشتمل ہے، جس میں بنیادی اجرت، غیر تنخواہی ادائیگی، بونس اور بھتے شامل ہیں۔ کچھ ملکوں میں یہ کام دیگر ملکوں کے مقابلے کافی پہلے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ جب سے ریاستہائے متحدہ امریکا میں جان ایف کینیڈی نے 1963ء کے یکساں اجرت قانون پر دستخط کیے ہیں، تب سے یہ ریاستہائے متحدہ میں غیر قانونی ہے کہ ایک عہدے پر بر سر خدمت مرد اور عورت کو دو غیر مساوی اور جدا گانہ اجرتیں دی جائیں۔
بر صغیر میں خواتین کی کام کی جگہ پر ضروریات
ترمیمپاکستان کے اردو روزنامہ جسارت کے مطابق کام کی جگہ پر عورتوں کی جملہ ضروریات، بشمول یکساں اجرت اس طرح ہیں: "ناکافی طبی اور دیگر رخصتوں کی سہولت (خواتین کے لیے مخصوص) بھی ایک اہم اور غور طلب مسائل میں سے ہیں۔حکمران قانون دانوں کو چاہیے کہ وہ ایک جامع قانون سازی کریں اور اس پر عمل درآمد بھی کروائیں جس کے ذریعے خواتین اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشی اور سماجی ترقی میں حصہ لے سکیں۔ اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے... خواتین اور مرد کام کرنے والوں کا جنسی امتیاز ختم کیا جائے، مالکان کو چاہیے کہ وہ اپنی خاتون ملازمین کی حوصلہ افزائی کریں، انھیں مراعات فراہم کریں اور انھیں جنسی تشدد، ہراساںی کرنے جیسے مسائل سے تحفظ فراہم کریں... ملازمت پیشہ خواتین کو مواقع فراہم کرے کہ معاشی زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ چل کر اپنا معاشرے میں مقام پیدا کرسکے۔خواتین میں بڑھتے ہوئے ملازمت کے رجحان سے بینکنگ سیکٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی و دیگر پبلک سیکٹر میں خواتین کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاں پر کوئی ذمے داری خواتین کو دی جاتی ہے تو وہ خود کو اہل منوانے کے لیے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی ہیں۔مغربی ممالک میں یہ کوشش کی گئی کہ خواتین ملازمین کے مسائل کو قانون کے تحت حل کیا جائے۔ ان کے اقدامات اس لحاظ سے بہتر ہیں اس کے باوجود وہ مرد و عورت ملازمین کو برابر سمجھتے ہیں۔ مگر عورت کو مرد کے مقابلے میں بیالیس فی صد کم تنخواہ دی جاتی ہے۔آج کے دور میں خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں مگر جہاں خواتین کی خود مختاری یا اخیارات کی بات کی جاتی ہے وہاں مردوں کو اس سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جب کہ خواتین کی اہمیت دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ملازمت پیشہ خواتین ملازمین کے حقوق کی آگاہی کے لیے ذرائع ابلاغ کو مہم شروع کرنی چاہیے۔ایک کمیٹی بنادی جائے جو شکایت کو خفیہ رکھے اور خواتین سے متعلق شکایات کو دور کیا جائے۔"[1] اس سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اجرت کا مساوی نہ ہونا بھی بر صغیر ایک اہم مسئلہ ہے۔