2018 پشاور خودکش دھماکہ
10 جولائی 2018 کو، پشاور ، خیبرپختونخوا ، پاکستان کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی ریلی میں ایک خودکش دھماکہ ہوا۔ ہارون بلور ، PK-78 سے اے این پی کے امیدوار جو حملے کا سب سے بڑا ہدف تھے بم دھماکے کے نتیجے میں مارے گئے۔ اس حملے میں 22 افراد ہلاک اور 75 زخمی ہوئے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔
پس منظر
ترمیماے این پی کے رہنماؤں پر حملے
ترمیمعوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنماؤں پر اکثر عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر حملہ کیا ہے۔ دسمبر 2012 میں اے این پی کے رہنما اور ہارون بلور کے والد بشیر احمد بلور کو ایک خودکش بمبار نے قتل کر دیا تھا ۔
محرک
ترمیمحملے کے پیچھے اے این پی رہنما ہارون بلور کو قتل کرنا تھا۔ بلور نے پی کے 78 سے اگلا الیکشن لڑنا تھا۔ 16 اپریل 2013 کو اے این پی کے انتخابی جلسے پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے ایک خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی جس میں ہارون بلور کو نشانہ بنایا گیا، جس میں 15 افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم خوش قسمتی سے ہارون بلور ریلی میں نہیں تھے۔
بمباری
ترمیم10 جولائی 2018 کی رات گئے، ہارون بلور پشاور کے علاقے یکہ توت پہنچے جہاں اے این پی کے کارکنان کارنر میٹنگ کے لیے جمع تھے۔ جیسے ہی ان کی گاڑی وہاں پہنچی، زور دار دھماکا ہوا۔ بلور کو شدید چوٹیں آئیں اور انھیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
مابعد
ترمیمریسکیو سروسز
ترمیمدھماکے کے فوری بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ پشاور کے سی سی پی او قاضی جمیل نے بتایا کہ بم میں تقریباً 8 کلو گرام ٹی این ٹی استعمال کیا گیا۔ تمام جاں بحق اور زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اے آئی جی کے پی کے شفقت ملک نے کہا کہ خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور حملے کا نشانہ ہارون تھے۔ ابتدائی طور پر مرنے والوں کی تعداد 13 تھی لیکن بعد میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے حکام کے مطابق یہ بڑھ کر 21 ہو گئی۔ حملے میں 75 افراد زخمی بھی ہوئے۔ بلور کے علاوہ دیگر 17 جاں بحق ہونے والوں کی شناخت آصف خان، محمد نعیم، محمد شعیب، حاجی محمد گل، یاسین، نجیب اللہ، خان محمد، حذیفہ، عابد اللہ، عارف حسین، عمران، اختر گل، ضمیر خان، اسرار، رضوان ، صادق اور سمین کے نام سے ہوئی ہے۔ ۔ دو لاشیں ناقابل شناخت رہیں۔ 12 جولائی 2018 کو، حملے کے دو دن بعد، ایک اور شخص زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا، جس سے ہلاکتوں کی تعداد 22 ہو گئی
بلور کی باقیات
ترمیمبلور کی میت ان کی رہائش گاہ بلور ہاؤس منتقل کر دی گئی۔ اے این پی کے حامی ان کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے اور ان کی "ناکام سیکورٹی " پر حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
پی کے 78 کے انتخابات میں تاخیر
ترمیماس واقعے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حلقہ پی کے 78 کے لیے پولنگ ملتوی کر دی، جہاں سے بلور نے الیکشن لڑنا تھا۔
رد عمل
ترمیمسیکورٹی فورسز
ترمیمآئی جی کے پی کے محمد طاہر نے واقعے کی تحقیقات کے لیے سات رکنی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے 7 روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اگلے دن پولیس نے شہر بھر میں چھاپے مارے۔ شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس اور کوئیک ری ایکشن فورسز (QRF) کے نو یونٹ تعینات کیے تھے۔
جرم کرنے والے
ترمیمتحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی اور بلور کے قتل کو "سابقہ حکومت کا بدلہ" قرار دیا (اے این پی کے کے پی کے کے 2008-2013 کے دور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے) اور سیکیورٹی فورسز کو مزید حملوں سے خبردار کیا۔
قابل ذکر متاثرین
ترمیم- ہارون بلور ، سابق پاکستانی سیاست دان