وراثی معالجہ

(Gene therapy سے رجوع مکرر)

وراثی معالجہ یا جین تھراپی طب کا وہ شعبہ ہے جس میں کسی وراثہ (جین) میں مختلف وجوہات کی وجہ سے پیداہونے والے طفرہ (mutation) کی - ایک وراثی تغیر شدہ (genetically altered) وراثہ کو تبدلی وراثہ کی جگہ داخل کر کے - اصلاح کی جاتی ہے ۔

  • سادہ الفاظ میں اس کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ
  • وراثی معالجہ ایک ایسا جدید طریقہ علاج ہے جس میں علاج کی غرض سے وراثی مادہ (ڈی این اے) ایک خاص ذریعہ (جس کوسمتیہ ( ویکٹر) کہتے ہیں) کی مدد سے مریض کے جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ داخل کردہ وراثی مادہ، جسم میں موجود نقص شدہ وراثی مادے (DNA) کو درست کردیتا ہے۔

وراثی معالجے سے علما اور تحقیق کار بہت سی ایسی توقعات وابستہ کر رہے ہیں جو آج تک ممکن نہیں تھیں مثلا موروثی امراض کا کامیاب اور مکمل علاج، اس کے علاوہ وراثی معالجے کی مدد سے بعد از پیدائش وراثوں میں طفرہ کی وجہ سے نمودار ہونے والے امراض مثلا سرطان اور وائرس سے پیدا ہونے والے امراض مثلا ایڈز کے علاج کے سلسلے میں بھی اب تک کے تجربات میں وراثی معالجہ نہایت کامیاب اور پرامید رہا ہے۔

سمتیئے

ترمیم

سمتیوں کے مفصل ذکر کے لیے تو الگ صفحہ مخصوص ہے یہاں مضمون سمجھنے میں آسانی پیدا کرنے کی خاطر صرف اتنا بیان ہے کہ ویکٹر کو یوں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ہمارے مطلوبہ وراثی مادے (جو ہم علاج کی غرض سے جسم میں پہنچانا چاہتے ہوں) کے لیے گویا ایک گاڑی کا کام کرتا ہے اور داخل کیے جانے والے وراثی مادے کو سمت دکھا کر اس کے مقام تک پہنچا دیتا ہے اسی لیے اس کو ویکٹر یا اردو میں سمتیہ کہا جاتا ہے۔ ویکٹرز یا سمتیے دو بنیادی اقسام کے ہوتے ہیں

  • وائرسی سمتیئے ؛ جنکو وائرس سے بنایا جاتا ہے
  • غیروائرسی سمتیئے؛ جنکو دیگر اجزاء مثلا چربی کے بلبلوں وغیرہ سے بنایا جاتا ہے

پسمنظر

ترمیم

سالماتی حیاتیات میں ہونے والی ترقی نے 1980 میں علما کو اس قابل کر دیا تھا کہ وہ نہ صرف یہ کہ انسانی وراثوں (جینز) کی متوالیت (sequencing) کو معلوم کرسیکیں بلکہ اس وراثے (جین) کی مثل تولید (cloning) بھی کرسیکیں، اس قسم کی مثل تولید جو کسی خلیہ کی نہیں بلکہ ایک جین یا سالمے کی ہوتی ہے کو سالماتی مثل تولید کہا جاتا ہے۔

گو کہ عموما خیال کیا جاتا ہے کہ وراثی معالجہ کوئی نئی طرزمعالجہ ہے جیسے حال کو کوئی پیداوار ہو، مگر ایسا نہیں ہے۔ وراثی معالجے کا پس منظر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ علما عرصہ دراز سے اس بات سے آگاہ تھے کہ وراثے (یا جینز) دراصل وہ مالیکیول ہیں جو نا صرف ماں باپ کے خواص بلکہ بیماریاں بھی منتقل کرنے کا سبب ہیں اور یہ بھی کہ اگر کوئی بیماری کسی وراثے یا جین میں پیدائشی نہ بھی ہو تب بھی وراثہ میں کسی تغیر یا تبدل کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے، ایسی بیماری جو وراثے میں پیدائش کے بعد کسی تبدل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو محصولی کہی جا سکتی ہے۔