جیسن جوسفسن اسٹورم

(Jason Josephson Storm سے رجوع مکرر)

جیسن آنندا جوسفسن اسٹورم (پیدائشی نام: جوسفسن) ایک امریکی عالم، فلسفی، سماجی سائنس دان اور مصنف ہیں۔ وہ اس وقت ویلیمز کالج میں شعبۂ دینیات کے پروفیسر اور چیئر اور دراساتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے چیئر ہیں۔[1] وہ ویلیمز کالج میں ایشیائی علوم اور تقابلی ادب میں وابستہ عہدوں پر فائز ہیں ۔ ان کی تحقیق جاپانی مذاهب، 1600 سے لے کر دورِ حاضر تک کی یورپی فکری تاریخ اور نظریۂ دینیاتی علوم پر مرکوز ہے۔[1] حال ہی میں انھوں نے ازالۂ سحر (disenchantment) اور فلسفۂ سماجی علوم پر کام کیا ہے۔

اسٹورم نے انگریزی زبان میں تین کتابیں اور ایک درجن سے زائد علمی مقالے لکھے ہیں۔[1]انھوں نے فرانسیسی اور جاپانی زبان میں مضامین لکھے ہیں اور متعدد علمی مقالاجات اور بنیادی مآخذ کا جاپانی زبان سے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ ان کی پہلی کتاب، جاپان میں مذہب کی ایجاد، کو انجمنِ سائنسی مطالعہِ مذہب (society for the scientific study of religion) کی طرف سے “امتیازی کتاب ایوارڈ” (distinguished book award) نوازا گیا اور امریکی انجمنِ مذہب (American academy of religion) کے مذاہب کے تاریخ میں “بہترین پہلی کتاب” ایوارڈ میں فائنلسٹ بھی قرار پائی۔ ماہرِ نسل و مذہب، بینجمن ج. روبنسن نے سٹورم کی علمی کاوشوں کو سراہا اور نہایت اہم قرار دیا۔[2]

تعلیم

ترمیم

اسٹورم نے ہارورڈ ڈیوینٹی سکول سے مذہبیات میں ماسٹرز کی تعلیم حاصل کی۔ 2006ء میں انھوں نے سٹانفورڈ یونیورسٹی سے علومِ مذہبیات میں پی-ایچ-ڈی حاصل کی، جہاں انھوں نے برنارڈ فور، کارل بیلیفیلڈ اور ہیلن ہارڈاکر کے زیرِ نگرانی جاپانی مذاہب کا مطالعہ کیا۔ اس دوران وہ براعظمی فلسفے (continental philosophy) اور خاص طور پر پوسٹ-سٹرکچرلزم، پر تحقیق کرتے رہے۔ 2004ء میں وہ اوکسفورڈ کے سینٹ اینتھونی کالج میں عارضی طالبِ علم بھی رہے۔ ان کے ڈاکٹریٹ مقالے کا نام "ٹیمنگ ڈیمنز: توہم پرستی کے خلاف مہم اور جاپان میں مذہب کی ایجاد" ہے۔

تحقیق

ترمیم

جاپانی مذاہب

ترمیم

اسٹورم کی ابتدائی تحاریر کا بیشتر حصہ ان کی ڈاکٹریٹ کی تحقیق پر مبنی ہے۔ اس تحریر میں خصوصاََ میجی دور جاپان میں مذہب، توہم پرستی اور سائنس جیسی اصطلاحات کی بناوٹ پر توجہ دی گئی۔ مثلاً، اپنے مقالے، "جب بدھ مت ایک 'مذہب' بنا"، جو گوگل سکالر[3] کے مطابق ان کے سب سے زیادہ حوالہ دیے گئے مضامین میں سے ہے، میں اسٹورم نے انوے اینریو کے کام میں روایتی جاپانی بدھ مت کے مختلف پہلوؤں کی مذہب یا تاہم پرستی کی حیثیت سے درجہ بندی کا تجزیہ کیا۔[4]

2012ء میں شائع ہونے والی کتاب “جاپان میں مذہب کی ایجاد” میں اسٹورم نے اپنے دلائل کو مزید بڑھاتے ہوئے میجی دور کے جاپانی دانشوروں کے دین، ابہام اور سائنس جیسی مغربی اصطلاحات کو اپنانے کے عمل پر غور کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے ریاستی شنٹو کی ابتدا کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب میں کوکو گا کو (kokugaku) جیسی تحاریک میں جاپانی مذہبی فکر، سیاسی نظریے، سائنس اور علم زبان کے ملاپ پر بھی نظرثانی کی گئی۔ [5]

کیون سکلبریک نے “جاپان میں مذہب کی ایجاد” کو “تنقیدی مذہب” یا “مذہب کے تنقیدی مطالعہ” سے منسوب کیا ہے، جو علومِ مذہبیات میں وہ نقطۂ نظر ہے جو مذہب کی ایک تجزیاتی اصطلاح سے حیثیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ اس تحریک کے دیگر دانشوروں میں طلال اسد اور رسل مککچن شامل ہیں۔ اس ضمن میں “جاپان میں مذہب کی ایجاد” نظریۂ ما بعد نوآبادیت کے چند نقاط پر انحصار کرتی ہے اور اسے ایڈ وارڈ سعید کی کتاب "استشراقیت" اور اور رچرڈ کنگ کی کتاب "استشراقیت اور مذہب" سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔[6] اس کے ساتھ ساتھ اسٹورم نے سعید کے نقاط کو مزید پچیدہ کرتے ہوئے یہ ظاہر کیا چاپانی دانشوروں نے مذہب کے تصور کو اپنے مفادات کے مطابق اپنایا اور استشراقی علم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا تاکہ جاپان کو مشرقی ایشیاء میں ایک ثقافتی اور علمی طور پر طاقتور قوت کی طرح پیش کیا جا سکے، خاص طور پر اس خطے میں جاپان کے قبضے کے دوران کوریا کی مخالفت میں۔

بینجمن شویول نے اپنی کتاب، جس میں وہ مذہب کے مختلف تصورات کا تعارف کراتے ہیں، میں یہ دعویٰ کیا کہ "جاپان میں مذہب کی ایجاد” میں اسٹورم کی تحقیق نے مذہب کی تعریف کے "تعمیراتی بیانیے" میں "اہم تصوراتی کردار" ادا کیا۔ [7]

"جاپان میں مذہب کی ایجاد” میں پیش کیے گئے دیگر خیالات کو عام سطح پر علومِ مذہبیات میں استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، درجہ بندی شمولیت اور خصوصی مماثلت جیسے تصورات، جنہیں اسٹورم نے مذہبی اختلاف کی طرف جاپانی طرزِ عمل کی وضاحت کرتے ہوئے وضع کیا، جنوبی ایشیا کے مذاہب پر تحقیق میں استعمال کیے جاچکے ہیں۔

جادو اور ازالۂ سحر

ترمیم

2017ء میں شائع ہونے والی اسٹورم کی کتاب "افسانۂ ازالۂ سحر" میں اسٹورم نے سماجی علوم میں ازالۂ سحر کے نظریے پر سوالیہ نشان اٹھایا۔ اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ سماجی سائنس کے اعداد و شمار مغرب میں جادو ٹونے میں یقین میں کوئی کمی پیش نہیں آئی۔[8] یہ کتاب سیکولریزیشن اور ازالۂ سحر کو دو علاحدہ نظریاتی اور سماجی مظاہر کے طور پر پیش کرتی ہے جو یورپی تاریخ میں مربوط نہیں ہیں۔ اسٹورم کے مطابق یہ دلائل جدیدیت کی روایتی تعاریف کے مخالف ہیں۔[8] اسٹورم کا دعویٰ ہے کہ ازالۂ سحر كا افسانہ ایک مثالی اصول کے طور پر کارفرما ہے جو انسانی رویے کو متاثر کرتا ہے اور لوگوں کو اس طرح کا برتاؤ کرنے پر مائل کرتا ہے جیسے کہ ازالۂ سحر ایک تاریخی حقیقت ہے، جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے۔

ازالۂ سحر کی حقیقت پر سماجیاتی تنقید کرنے کے علاوہ "افسانۂ ازالۂ سحر" میں ازالۂ سحر سے عمومی طور پر منسلک سماجیاتی دانشوروں کی منفرد تعبیرات پیش کی گئی ہیں۔ اس کتاب کے مطابق ان دانشوروں کی اکثریت، جن میں میکس ویبر، جیمز جارج فریزر اور سگمنڈ فرائڈ شامل ہیں، روحانیت اور جادوگری میں ملوث رہی۔ اس وجہ سے اسٹورم کا ماننا ہے کہ ازالۂ سحر کے وہ نظریات جو ان دانشوروں کے خیالات سے اخذ کیے گئے ہیں انھیں تبدیل کرنا ضروری ہے۔ "افسانۂ ازالۂ سحر" اور دیگر مضامین میں اسٹورم نے علومِ مذہبیات کی بطور ایک علم شروعات اور مغربی باطنیت کے درمیان ایک تعلق ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔[9]

"افسانۂ ازالۂ سحر" کے وقتِ اشاعت کے قریب سٹورم نے کتاب کے بنیادی نقاط اور دلائل کو aeon.com اور Immanent Frame پر مضامین کی شکل میں پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ رسالے اور پوڈکاسٹز میں انٹرویو بھی دیے۔ [10][11][12]

نظریہ

ترمیم

اسٹورم نے علومِ مذہبیات میں علمیات اور نظریے کے پچیدہ سوالات پر بھی لکھا ہے۔ اس ضمن میں ان کا کچھ کام "جاپان میں مذہب کی ایجاد" میں متعارف کروائے گئے خیالات کو مزید وضاحت سے بیان کرنے پر مرکوز ہے۔

اپنی 2012ء کی کتاب کی افکار سے شروع کرتے ہوئے اسٹورم نے مذہب، توہم پرستی اور سیکولرزم کے باہمی تعلق کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک سہ رخی طریقۂ کار تجویز کیا ہے، جسے وہ عمومی سطح پر موزوں گردانتے ہیں۔[13] یہ سہ رخی تصور سیکولریزیشن سے متعلق ان سماجی سائنس کے خیالات سے خاصی مختلف ہے جو مذہب اور سیکولرزم میں ایک ثنائی کو واضح حقیقت سمجھتے ہیں۔ سٹورم کے مطابق یہ فارمولا سیکولرزم، سیکولریزیشن اور جدیدیت کے متعلق نظریاتی غور و فکر کو بہتر بنا سکتا ہے۔ برل (Brill) کے رسالے "علومِ مذہبیات میں طریقہ اور نظریہ" میں اسٹورم کے خیالات کے متعلق متعدد مباحث اور علومِ مذہبیات سے ان کی مطابقت متعین کرنے کے لیے ایک خصوصی نمبر شائع کیا۔[14]

اسٹورم نے "ریفلیکسو (reflexive) علومِ مذہبیات" کی بھی حمایت کی ہے، جو پیئر بورڑیو اور لویک واکانٹ کی "ریفلیکسو سماجیات" سے اخذ کیا گیا، جہاں علمِ سماجیات کو خود سماجیاتی اصطلاحات میں بیان کیا جاتا ہے۔ ریفلیکسو علومِ مذہبیات اس عمل پر توجہ دیتی ہے جس کے ذریعے سماجی سائنسز عام ثقافت پر اثر انداز ہوکر اس سماجی نظام میں ایک ایسی ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں جس کا پھر مطالعہ کیا جاتا ہے۔[8] خاص طور پر ریفلیکسو علومِ مذہبیات ان معاشروں پر غور کرتے ہیں جہاں 'مذہب' کا لفظ اور اس کی متعلقہ تقریقات (جیسے کہ مذہب اور سیکولر میں فرق) تصور کے طور پر استعمال کیے جانے لگے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مذہب کا علمی مطالعہ کس طرح مذہبی معاشرے میں اثر انداز ہوتا ہے اور یہاں تک کہ نئے مذاہب کی تجدید کرتا ہے اور انھیں ایجاد کرتا ہے۔[8]

2020ء میں رسالے "علومِ مذہبیات میں طریقہ اور نظریہ" کے ایک مضمون میں اسٹورم نے تجزیاتی فلسفۂ سائنس کا اطلاق کرتے ہوئے علومِ مذہبیات کے طریقۂ تحقیق کو قدرتی سائنسز کے طرزِ عمل پر ڈھالنے کی کاوشوں پر تنقید کی۔ اسٹورم نے سماجی سائنسز کے لیے ایک نیا طریقۂ کار تجویز کرنے کا منصوبہ بھی ظاہر کیا، جسے وہ میٹا-موڈرنزم (metamodernism) کہتے ہیں۔[15]

پزیرائی

ترمیم

افسانۂ ازالۂ سحر کئی علمی مطبوعات میں سراہا گیا، جن میں “جادو، رسم، اور جادوگری”، فیڈل ایس ہسٹور یہ، رسالۂ امریکی انجمنِ مذہب شامل ہیں۔

تاریخِ مذاہب” میں لکھتے ہوئے ہیو اربن نے افسانۂ ازالۂ سحر کو ایک بااثر کتاب قرار دیا جو ہمیں تاریخِ خیالات کے بارے میں اپنے بنیادی مفروضوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرتی ہے، اگرچہ انھوں نے کہا کہ سٹورم جادو اور سرمایہ داری کے درمیان تعلق پر مزید وضاحت کرسکتے تھے۔

جاپان میں مذہب کی ایجاد کو نومن، رسالۂ جاپانی علوم، علومِ مذہبیات ریویو اور رسالۂ سائنسی مطالعۂ مذہب کے ساتھ ساتھ دیگر رسالاجات میں سراہا گیا۔

2019ء میں ایک ڈاکٹریٹ مقالے میں افسانۂ ازالۂ سحر میں پیش کیے گئے دلائل کو تفصیل سے جانچا گیا، جہاں ان کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے جادو اور یورپی استعمار کے باہمی تعلق پر گہری نظر ڈالی گئی۔[16] میتھیو ملون-کوشکی، جو اسلام اور اسلامی جادوگری کے مفکر ہیں، افسانۂ ازالۂ سحر کا حوالہ دیتے ہوئے اسلامی دنیا میں جادوگری کے متعلق استشراقی نقطۂ نظر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔[17]

2017ء میں بوسٹن میں AAR-SBL کے سالانہ اجلاس میں افسانۂ ازالۂ سحر کے لیے ایک “مصنف بمقابلہ ناقدین” پینل بھی وقف کیا گیا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ "Jason Josephson Storm"۔ williams.edu 
  2. "Racialization and modern religion: Sylvia Wynter, black feminist theory, and critical genealogies of religion" 
  3. "Jason Josephson Storm" 
  4. "When Buddhism Became a "Religion": Religion and Superstition in the Writings of Inoue Enryō" 
  5. Jason-Josephson Storm (2012)۔ The Invention of Religion in Japan 
  6. "What makes Critical Religion critical? A response to Russell McCutcheon" 
  7. "7 Ways of Looking at Religion The Major Narratives" 
  8. ^ ا ب پ ت Jason-Josephson Storm۔ The Myth of Disenchantment: Magic, Modernity, and the Birth of the Human Sciences 
  9. "God's Shadow: Occluded Possibilities in the Genealogy of "Religion"" [مردہ ربط]
  10. "Against disenchantment" 
  11. "The Myth of Disenchantment: An Introduction" 
  12. "Myth & Disenchantment" 
  13. "The Superstition, Secularism, and Religion Trinary: Or Re-Theorizing Secularism" 
  14. "Volume 30 (2018): Issue 1 (Jan 2018)" 
  15. "Revolutionizing the Human Sciences: A Response to Wiebe" 
  16. "The Disenchantment of the World and Ontological Wonder" 
  17. "Taḥqīq vs. Taqlīd in the Renaissances of Western Early Modernity"