آخری سواریاں معروف بھارتی مسلمان فکشن نگار سید محمد اشرف کا ایک ناولا ہے۔ جس پر ان کو ساہتیہ اکیڈمی نے اردو زبان کا ساہتیہ اکیڈمی اعزاز دیا۔ پہلی بار یہ ناول بھارت کے ادبی جریدے سوغات، بنگلور میں شائع ہوا۔ بعد میں یہ پاکستانی ادبی جریدے آج، کراچی میں 1999ء میں چھپا۔

آخری سواریاں (ناولا)
مصنف سید محمد اشرف   ویکی ڈیٹا پر (P50) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P364) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ناشر آج   ویکی ڈیٹا پر (P123) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ اشاعت 1999  ویکی ڈیٹا پر (P577) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صفحات 175   ویکی ڈیٹا پر (P1104) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے اردو زبان   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پلاٹ

ترمیم

یہ ناول مغلیہ تہذیب کے زوال کے تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔اس ناول کا انداز بیانیہ ہے۔ناول کا مرکزی کردار، ناول کا آغاز اپنے کالج کی چھٹیوں میں جب بھی گھر آتا ہے تو اپنے دادا کا لکھا ہوا ایک سفر نامہ یا روزنامچہ پڑھتا ہے۔جس میں اس کے دادا کے پردادا نے وسط ایشیا کی سیاحت کی تھی اور وہاں مقبرہ بی بی خانم سے واپسی پر ان کی ملاقات ،مغلیہ سلطنت کے بانی تیمور سے ہوئی تھی۔اور اس کے علاوہ انھوں نے بہادر شاہ ظفر کو معزول ہو کر رنگون جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔اس ناول میں مرکزی کردار کے دادا اسے وہ درخت بھی دکھاتے ہیں جہاں سے ان کے دادا نے آخری مغل فرمانروابہادر شاہ ظفر کو انتہائی بے بسی کی حالت میں سر جھکا کر،پہیوں والے تخت پر رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔[1]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "کتاب: آخری سواریاں"۔ ڈاکٹر تہمینہ عباس۔ جہان اردو۔ 22 نومبر 2017۔ 09 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 ستمبر 2019