سید محمد اشرف
سید محمد اشرف بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور آئی سی ایس افسر ہیں۔ ان کی تصانیف میں نمبردار کا نیلا کو عالمی سطح پر پزیرائی حاصل ہوئی اور اس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے۔ حال ہی میں ان کا ناول آخری سواریاں شائع ہوا ہے۔ انھیں ان کے افسانوی مجموعے بادِ صبا کا انتظار پر ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے 2003ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے اردو ادب عطا کیا گیا۔[1] 2018ء میں مجلس فروغ اردو قطر کی جانب سے عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ بھی دیا گیا۔[2]
سید محمد اشرف | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 8 جولائی 1957ء (67 سال) سیتاپور ، اتر پردیش ، بھارت |
شہریت | بھارت |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انڈین سول سروس |
تعلیمی اسناد | ایم اے |
پیشہ | ناول نگار ، افسانہ نگار |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
اعزازات | |
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (2003) |
|
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمسید محمد اشرف 8 جولائی 1957ء كو سیتاپور، اتر پردیش، بھارت میں پیدا ہوئے۔اتر پردیش کے ضلع ایٹہ کا قصبہ مارہرہ شریف ان کا آبائی وطن ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اوران دنوں انکم ٹیکس کے شعبے میں کمشنر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔
ادبی خدمات
ترمیمبیسویں صدی کی آخری دہائی میں اردو میں یکے بعد دیگرے کئی ناول لکھے گئے۔ ان میں کچھ مقبول ہوئے توکچھ کو قبولیت کا شرف حاصل نہ ہو سکا۔ کچھ ناولوں پر دیر تک گفتگو ہوئی مثلاً جوگندرپال کا ناول خوب رو، مظہر الزماں خاں کا ناول آخری داستان گو، حسین الحق کا ناول فُرات، غضنفر کا ناول پانی، علی امام نقوی کا ناول تین بتّی کے راما اور سید محمد اشرف کا ناول نمبر دار کا نیلا وغیرہ۔ یوں تو مذکورہ بالا تمام ناول اہمیت کے حامل ہیں تاہم اشرف کا ناول نمبردار کا نیلا اپنے موضوع، ٹریٹمنٹ، کردار نگاری اور زبان و بیان کے حوالے سے خصوصاً جانور کو بطور کردار پیش کرنے کے لحاظ سے زیادہ توجہ اور گفتگو کا تقاضا کرتا ہے۔
فکشن میں سیدمحمد اشرف کی ابتدائی پہچان جانوروں کے پیرائے اظہار سے قائم ہوئی لیکن ان کا طرز نگارش محض جانوروں تک محدود نہیں ہے۔ ان کے یہاں ایسے کئی کامیاب افسانے ہیں جن میں جانور نہیں ہیں۔ مثلاً کعبے کا ہرن، دوسرا کنارہ اور چمک وغیرہ۔ اشرف کو کچھ ان کے خاندانی پس منظر اور کچھ ان کے فکشن میں موجود مخصوص تہذیب و معاشرہ کی وجہ سے مذہبی تمدن کا فکشن نگار بھی قرار دینے کی کوشش کی گئی لیکن اس طرح کی کوششوں کے خلاف لکڑ بگھا ہنسا اور نمبر دار کا نیلا جیسی تخلیقات دیوار بن گئیں۔ پھر یہ کہا گیا کہ اُن کی فن کاری کا محور علامتی تکنیک ہے، تو یہاں بھی اشرف کا افسانہ ’قربانی کا جانور‘ ایک رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گیا۔ آخر سید محمد اشرف کے فن کا بنیادی رویہ کیا ہے؟ ان کے دونوں مجموعوں ڈار سے بچھڑے، بادِ صبا کا انتظار، ناولا نمبر دار کا نیلا اور ناول آخری سواریاں کے مطالعہ کے بعد ان کے فن کے تعلق کا یہ تاثر ابھرتا ہے کہ بنیادی طور پر وہ اپنے عہد کے فرد اور معاشرے کی زوال پذیری کے نباض اور ناقد ہیں۔ اشرف کے فن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ جس موضوع کا انتخاب کرتے ہیں اسی کی مناسبت سے کردار، زبان اور ماحول بھی خلق کرتے ہیں۔ انھوں نے فکشن میں عصری سچائیوں کے لیے علامت اور استعاروں کے درمیان سے راہ نکالی ہے۔ ان کے فکشن میں معاشرہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے منفرد تکنیکی و اسلوبیاتی انداز کی وجہ سے وہ اپنے دیگر معاصرین سے ممتاز نظر آتے ہیں۔
تصانیف
ترمیم- 1994ءڈار سے بچھڑے (افسانوی مجموعہ)
- 1997ءنمبر دار کا نیلا (ناولا)
- 2000ء باد صبا کا انتظار(افسانوی مجموعہ)
- 2016ء آخری سواریاں(ناول)
اعزازات
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "meet the author: Syed Mohammed Ashraf" (PDF)۔ 10 فروری 2024 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2024
- ↑ "Qatar: Majlis Announces 2018 Aalmi Frogh-e-Urdu Adab Awards – Asian Telegraph Qatar"۔ 26 مئی 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اپریل 2024