آرتھر ایشکن (2 ستمبر 1922ء- 2020ء) امریکی سائنس دان تھے۔[8][9][10] وہ بیل لیب اور لیوسنٹ ٹیکنالوجیز میں کام کرتے رہے ہیں۔ آرتھر کوکئی شعبہ جات کا بانی قرار دیا جاتا ہے جن میں بصری چمٹے نمایاں ہیں۔ اسی شعبہ میں تحقیق پر انھیں نوبل انعام برائے طبیعیات 2018 دیا گی۔وہ نیوجرسی کے علاقے رمسن میں رہائش پزیر ہیں۔[11]

آرتھر ایشکن
(انگریزی میں: Arthur Ashkin ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 2 ستمبر 1922ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بروکلن، نیویارک  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 21 ستمبر 2020ء (98 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ریاستہائے متحدہ امریکا[3]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن انسٹی ٹیوٹ برائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس انجینئرز،  قومی اکادمی برائے سائنس  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی کورنیل یونیورسٹی (–1952)[4]
جامعہ کولمبیا  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ طبیعیات دان،  محقق  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی[5]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل طبیعیات دان،  انجینئر  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

ایشکن نے 1960 کی دہائی میں اپنے تحقیقی کام کا آغاز کیا۔ لیزر ان کی تحقیقات کا اصل موضوع تھا۔ 1986 میں انھوں نے بصری چمٹہ ایجاد کیا۔انھوں نے بصری پھندا بھی ایجاد کیا جس کی مدد سے ایٹم، مالیکیول اور خلیات میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔انھوں تابکاری دباؤ کا مظہر دریافت کیا جس کی وجہ سے مادی اجسام کو حرکت دی جا سکتی ہے

ابتدائی زندگی ترمیم

آرتھر نیویارک کے علاقے بروکلین میں پیدا ہوئے[12]  اور جیمز میڈیسن ہائی اسکول سے 1940 میں گریجوئشن مکمل کی۔[13]

ان کے والدین کا نا م ایزاڈور اور اینا ایشکن تھا۔ ان کے بھائی جولیس ایشکن بھی طبیعیات دان تھے جبکہ ان کی ایک بہن رتھ کا نو عمری میں انتقال ہو گیا تھا [14] Iان کا خاندان یہودی مذہب سے تعلق رکھتا تھا جس  کا بنیادی تعلق اوڈیسا (موجودہ یوکرائن۔ سابقہ روس) سے تھا[15] ایزاڈور 18 سال کی عمر میں امریکا ہجرت کر آئے تھے۔ اینا جو ایزا ڈور سے پانچ برس چھوٹی تھیں کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ا نہوں نے بروکلین میں 983 ای گلی نمبر 27 میں رہائش رکھی[16][17][18][19] ایزا ڈور نے 139 ڈیلنسے مین ہیٹن میں دندان سازی کی دکان کھولی۔ امریکا آنے کے دس سال بعد انھیں یہاں کی شہریت مل گئی[20]

تعلیم ترمیم

ارتھر نے کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جہاں وہ کولمبیا ریڈی ایشن لیبارٹری میں ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتے رہے۔یہ ادارہ امریکی فوج کے ریڈار نظام کے لیے میگناٹورز بناتا تھا۔ وہ دوسری جنگ عظیم میں ریزرو فوجیوں کی فہرست میں بھی رہے۔اس عرصے میں ایشکن نے کم از کم تین نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں سے تعلیم حاصل کی۔[21]

ایشکن نے کولمبیا یونیوسٹی سے طبیعیات میں بی ایس  مکمل کیا جس کے بعد وہ کارنیل یونیورسٹی چلے گئے جہاں انھوں نے جوہری طبیعیات کی تعلیم حاصل کی۔ان کے بھائی جولیس ایشکن مین ہیٹن منصوبے میں شامل رہے۔ انھوں نے آرتھر کو ہنس بیتھ، رچرڈ فائن مین اور دیگر نامور اساتذہ سے متعارف کرایا

انھوں نے 1952 میں کارنیل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد بیل لیب میں ملازمت شروع کی جہاں کے لیے سڈنی ملمین نے شفارش کی تھی۔ ملمین کولمبیا یونیورسٹی میں ان کے سپروائز رہے تھے

ملازمت ترمیم

بیل لیب میں ملازمت کے دوران میں آرتھر نے 1960 میں خرد امواج پر تحقیقی کام کیا اور اس کے بعد شعبہ تبدیل کرکے لیزر میں چلے گئے۔ وہاں انھوں نے غیر خطی لیزر، بصری ریشوں، پیرا میٹرک آسیلیٹر اور پیرا میٹرک ایمپلی فائر پر درجنوں تحقیقی پرچے لکھے۔1960 کی دہائی میں وہ ضیا انعطافی اثر اور فشار برقی قلم نگاری کے دریافت کنندگان میں شامل تھے۔

آرتھر نے ایٹمی پھندوں اور ان کے ٹھنڈا کرنے کے اصولوں کو وضع کیا۔ یہ بہت بنیادی نوعیت کا کام تھا جسے بعد میں سٹیون چو نے آگے بڑھایا۔ چو کو 1997 میں طبیعیات کا نوبل انعام دیا گیا۔

آرتھر ایک سرگرم شخصیت تھے۔ انھیں آپٹیکل سوسائٹی آف امریکا، امیریکن فزیکل سوسائٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل  اینڈ الیکٹرانکس انجینئرز کی رکنیت دی گئی۔وہ 1992 میں بیل لیب سے ریٹائرڈ ہو گئے۔ ان کے نام پر 47 پیٹنٹ ہیں۔انھیں 2003 میں جوزف کیتھلے انعام برائے ایڈوانس میرمنٹ سائنسز دیا گیا۔ 2004 میں ہاروے انعام ملا۔ اسے پہلے 1984 میں نیشنل اکیڈمی آف انجینئرز اور 1996 میں نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے انعامات دیے گئے۔ 2013 میں انھیں ہال آف فیم برائے قومی موجدین میں شامل کیا گیا[22]

بصری چمٹوں کے علاوہ وہ ضیائی انعطاف، ثانوی موسیقائی پیداوار اور غیر خطی بصریات میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

ان کی تحقیق ک بنیاد پر خرد بصری تدوین، بوس آئن سٹائن  ٹھنڈک جس کی مدد سے ایٹم بھاپ میں تبدیل ہو کر سرد ترین کائناتی درجہ حرارت پر آجاتے ہیں اور موٹر مالیکیولز کی مزید تحقیق کی گئی ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000031525 — بنام: Arthur Ashkin — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. In Memoriam: Arthur Ashkin, 1922-2020
  3. Prize Winners
  4. او سی ایل سی کنٹرول نمبر: https://www.worldcat.org/oclc/803220847
  5. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 11 مئی 2020
  6. The Nobel Prize in Physics 2018 — اخذ شدہ بتاریخ: 5 مئی 2020 — ناشر: نوبل فاونڈیشن — شائع شدہ از: 2 اکتوبر 2018
  7. El Nobel de Física premia las innovaciones en el campo del láser — اخذ شدہ بتاریخ: 5 مئی 2020 — شائع شدہ از: 2 اکتوبر 2018
  8. "Arthur Ashkin (biography)"۔ LaserFest۔ American Physical Society، Optical Society، SPIE، and the IEEE Photonics Society۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2013 
  9. David McGloin، J.P. Reid (فروری 1, 2010)۔ "Forty Years of Optical Manipulation"۔ Optics and Photonics News۔ 21 (3): 20۔ ISSN 1047-6938۔ doi:10.1364/opn.21.3.000020۔ 08 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2018 
  10. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  11. Former Bell Labs scientist, 96, wins Nobel Prize for laser 'optical tweezers' اکتوبر 2, 2018
  12. "Arthur Ashkin"۔ The Optical Society۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 نومبر 2013 
  13. "2,291 Are Graduated by Boro High Schools"۔ Brooklyn Daily Eagle۔ جون 26, 1940۔ صفحہ: 6۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اکتوبر 3, 2018 
  14. "96-year-old Arthur Ashkin wins physics Nobel for laser 'tweezers'"۔ The Times of Israel۔ اکتوبر 2, 2018 
  15. "How the Ashkin Family Came to America" (PDF)۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 اکتوبر 2018 
  16. "United States Census, 1930," index and images, FamilySearch (https://familysearch.org/pal:/MM9.1.1/X7X3-3YL : accessed دسمبر 23, 2013)، Isadore Ashkin, Brooklyn (Districts 1251–1500)، Kings, New York, United States; citing enumeration district (ED) 1261, sheet ، family 298, NARA microfilm publication.
  17. "United States World War I Draft Registration Cards, 1917–1918," index and images, FamilySearch (https://familysearch.org/pal:/MM9.1.1/KXY5-7XY : accessed دسمبر 23, 2013)، Isadore Ashkin, 1917–1918; citing New York City no 86, New York, United States, NARA microfilm publication M1509, (Washington D.C.: National Archives and Records Administration, n.d); FHL microfilm 001765586.
  18. "United States World War II Draft Registration Cards, 1942," index and images, FamilySearch (https://familysearch.org/pal:/MM9.1.1/F3CQ-T4W : accessed دسمبر 23, 2013)، Isadore Ashkin, 1942.
  19. "United States Census, 1920," index and images, FamilySearch (https://familysearch.org/pal:/MM9.1.1/MJRV-1VW : accessed دسمبر 23, 2013)، Isdor Ashkin, Brooklyn Assembly District 18, Kings, New York, United States; citing sheet ، family 342, NARA microfilm publication T625, FHL microfilm 1821173.
  20. White-Orr's Reference Register۔ 1918۔ صفحہ: 139–۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اکتوبر 2018 
  21. Bell Labs – Murray Hill (نومبر 1997)۔ "He Wrote the Book on Atom Trapping"۔ Lucent Technologies 2002۔ 11 اپریل 2005 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اگست 2013۔ Retired Bell Labs scientist Arthur Ashkin discusses his years as a physicist and how he discovered that light could trap atoms -- the discovery that led Steven Chu and two others to the Nobel Prize 
  22. "Inductee Detail: Arthur Ashkin"۔ National Inventors Hall of Fame۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اکتوبر 2018