آر ایل کین

آر ایل کین بھارت میں حق معلومات کے لیے فعالیت پسند شخصیت ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ کے پاس پہنچے کہ 500 اور 1000 کے نوٹوں کا اسقاط زر غیر قانونی تھا،

آر ایل کین (انگریزی: R L Kain) بھارت میں حق معلومات کے لیے فعالیت پسند شخصیت ہیں۔ ان کی سرخیوں میں آنے کا بڑا سبب ملک میں کئی اہم معاملات وہ حکومت اور اس کے ذمے دار اداروں کو حق معلومات کے تحت سوالات دریافت کرتے رہے ہیں۔ وہ ان چند افراد میں تھے جو وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے 8 نومبر 2016ء کو 500 اور 1000 کے نوٹوں کے اسقاط زر کے اعلان کی اسی حق کے تحت چھان بین کی اور اس نتیجے پر ملک کے ذرائع ابلاغ کے پاس پہنچے کہ یہ پورا عمل غیر قانونی تھا، جس کے بر سر اقتدار وزیر اعظم خاطی تھے اور وہ سزا کے مستحق تھے۔

پس منظر ترمیم

500 اور 1000 کے نوٹوں کا اسقاط زر حکومت ہند کا ایک اقدام ہے جس کے نتیجے میں 9 نومبر 2016ء سے پانچ سو اور ایک ہزار کے بھارتی نوٹوں کا چلن ختم کیا گیا اور انھیں بے قیمت کر دیا گیا۔ 8 نومبر 2016ء کی رات کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے اچانک یہ اعلان کیا کہ آدھی رات سے ملک میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ منصوبہ چھ ماہ پہلے بننا شروع ہوا تھا، نریندر مودی کے بیان کے مطابق اس اچانک اعلان کا مقصد صرف کالے دھن پر قابو پانا ہی نہیں، بلکہ جعلی نوٹوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ہے۔[1]

تحقیق سے منظر عام پر آنے والے اہم نکات ترمیم

آر ایل کین کی بھارت کے وزیر اعظم کے دفتر، ریزرو بینک، وزارت مالیہ اور دیگر ادارہ جات پر جو حق معلومات کے تحت تحقیقات کیے تھے، اس سے جن معلومات کا انھوں نے پتہ چلا وہ اس طرح ہیں:
1۔ 500 اور 1000 کے نوٹوں کے اسقاط زر کا فیصلہ بغیر کسی کابینی منطوری کے لیا گیا، جو ایک غیر قانونی اقدام تھا۔ ان کے مطابق 8 نومبر کے پہلے کابینی اجلاس کی جو خبر ہے، اس کی کوئی اطلاع یا تفصیلات نہیں دیے گئے جس سے اس کے ہونے کو مشکوک سمجھا جا سکتا ہے۔
2۔ زیررو بینک قانون کی دفعہ 24 کے تحت حکومت دو، پانچ، دس، بیس، پچاس، سو، پانچ سو، ہزار، پانچ ہزار اور دس ہزار کی نوٹوں کو عند الضرورت چھاپنے کا اختیار ہے۔ حکومت مزید دیگر قیمت کی نوٹ چھاپ سکتی ہے، مگر اس کے لیے الگ سے قانون سازی یا حکم نامہ جاری کرنا ہوگا، جو بھارت سرکار نے نہیں کیا۔
3۔ حکومت نے 2000 روپیوں کے چھاپنے کا ریزرو بینک کو تحریری فیصلہ (حکم کی نقل) نہیں فراہم کی، جس سے یہ نوٹ کی قانونی نوعیت ہی مشکوک ہو جاتی ہے۔ حکومت نے 19 مئی 2016ء سے ریزرو بینک سے دو ہزار کی نوٹوں کے چھپوانے کا کام شروع کیا۔
4۔ ریزرو بینک کے مطابق نئی کرنسی نوٹ ستمبر 2016ء تک تیار ہو چکے ہیں۔ تب رگھو رام راجن ریزرو بینک کے گورنر تھے اور اُرجیت پٹیل ان کے نائب تھے۔ لہذا ارجیت پٹیل کی دستخط والے نوٹ بالکل ہی غیر قانونی ہیں۔[2]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم