بھارت میں 500 اور 1000 کے نوٹوں کا اسقاط زر

500 اور 1000 کے نوٹوں کا اسقاط زر حکومت ہند کا ایک اقدام ہے جس کے نتیجے میں 9 نومبر 2016ء سے پانچ سو اور ایک ہزار کے بھارتی نوٹوں کا چلن ختم اور انھیں بے قیمت کر دیا گیا۔ 8 نومبر 2016ء کی رات کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم کو خطاب کرتے ہوئے اچانک یہ اعلان کیا کہ آدھی رات سے ملک میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ منصوبہ چھ ماہ پہلے بننا شروع ہوا تھا، نریندر مودی کے بیان کے مطابق اس اچانک اعلان کا مقصد صرف کالے دھن پر قابو پانا ہی نہیں، بلکہ جعلی نوٹوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ہے۔[1]

ہوڑا میں 8 نومبر 2016ء کو ایک اے ٹی ام پر موجود قطار

تاریخ اور اعداد و شمار

ترمیم

حکومت ہند کے اس فیصلے کی معلومات صرف مٹھی بھر لوگوں کو تھی۔ جن میں چیف سکریٹری نرپیندر مشرا، سابق اور موجودہ آر بی آئی گورنر، خزانہ سیکرٹری اشوک لواسا، معتمد اقتصادی امور شكتی کانت داس اور وزیر خزانہ ارون جیٹلی شامل ہیں۔ چھ ماہ سے بنائے جا رہے اس منصوبہ کے نفاذ کا آغاز دو ماہ قبل شروع کیا گیا۔[1]

اس سے پہلے اس طرح کے اقدامات ہندوستانی کی آزادی کے وقت کیے گئے تھے۔ جنوری 1946ء میں 1000 اور دس ہزار روپے کے نوٹوں کو واپس لے لیا گیا تھا اور 1000، 5000 اور دس ہزار روپے کے نئے نوٹ 1954ء میں دوبارہ شروع کیے گئے تھے۔ 16 جنوری 1978ء کو جنتا پارٹی کی گٹھ بندھن حکومت نے پھر سے 1000، پانچ ہزار اور دس ہزار روپے کے نوٹوں کو ختم کر دیا تاکہ جعل سازی اور کالے دھن پر روک لگائی جا سکے۔[2]

28 اکتوبر 2016ء کو بھارت میں 17.77 لاکھ کروڑ (260 ارب امریکی ڈالر) کی کرنسی گردش میں تھی۔ قیمت کی بنیاد پر 31 مارچ 2016ء کو ریزرو بینک کی رپورٹ کے مطابق، گردش میں رہنے والے نوٹوں کی کل قیمت 16.42 لاکھ کروڑ (240 ارب امریکی ڈالت) ہے جس میں سے 86 فیصد (یعنی 14.18 لاکھ کروڑ (210 ارب امریکی ڈالر)) 500 اور 1000 کے نوٹ ہیں۔ حجم کی بنیاد پر رپورٹ کے مطابق، 9،026.6 کروڑ نوٹوں میں سے 24 فیصد (یعنی 2،203 کروڑ) بینک نوٹ گردش میں ہیں۔[3]

بینک نوٹوں کی تبدیلی کے قواعد و ضوابط

ترمیم
 
لوگ 500 اور 1000 کے نوٹوں کو تبدیل کروانے کے لیے بینک کے باہر قطار میں کھڑے ہیں۔ کولکاتہ، 10 نومبر 2016ء

ریزرو بینک آف انڈیا نے پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں کی تبدیلی کا مفصل طریقہ کار اور قواعد و ضوابط جاری کیے ہیں، جن کے کلیدی نقاط درج ذیل ہیں:

  1. اے ٹی ایم سے کسی ایک دن میں 2،000 روپے تک نکال سکتے ہیں
  2. ایک دن میں کوئی شخص بینک کاؤنٹر سے 10،000 روپے سے زیادہ نہیں نکال سکتا تاہم اس میں اے ٹی ایم سے حاصل کردہ رقم شامل نہیں ہے۔
  3. کسی ایک ہفتے میں ایک شخص 20،000 روپے تک بینک سے نکال سکتا ہے۔ اس میں بھی وہ رقم شامل نہیں ہے جو اے ٹی ایم سے حاصل گئی ہو۔
  4. ایک ماہ کے اندر کوئی بھی شخص 20،000 روپے تک ہی نقد بینک کاؤنٹر سے نکال سکتا ہے۔ آر بی آئی نے 30 دسمبر تک اس حد کو ختم کر دیا ہے جس میں اے ٹی ایم پر کیے گئے مہینے کے پانچ معاملات کے بعد کے استعمال پر فیس لگتی تھی۔
  5. ایک بار میں 4،000 روپے تک بینک میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے کسی بھی سرکاری شناختی کارڈ کی ایک فوٹو کاپی درکار ہوگی۔ اور بینک میں ایک فارم بھرنے کے بعد پرانے نوٹ تبدیل کر سکتے ہیں۔
  6. ایک دن میں ایک شخص ایک ہی بار 4،000 روپے کے نوٹ تبدیل کر سکتا ہے۔
  7. ایک شناختی کارڈ پر دو بار پیسے جمع نہیں ہوں گے۔
  8. کوئی بھی شخص اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ میں جتنا چاہے پیسے جمع کر سکتا ہے، جس میں 500، 1000 کے نوٹ شامل ہیں۔ لیکن اس عمل میں تھرڈ پارٹی ڈپاذٹ کی اجازت نہیں دی گئی ہے لیکن اگر مجبوراً کرنا پڑے تو جمع کرنے والے کی اور جس کا کھاتہ ہے اس کا اصلی شناختی کارڈ دکھانا لازمی ہے۔ تاہم حکومت نے کہا ہے کہ 250،000 روپے تک جمع کیے گئے 500 یا 1000 روپے کے نوٹوں تک کے بارے میں کوئی جواب نہیں مانگا جائے گا، لیکن اس سے زیادہ کی رقم پر اس بات کا امکان ہے کہ انکم ٹیکس محکمہ اس کی جانچ کرے اور اگر پرانے ٹیکس یا آمدنی سے یہ رقم غیر معمولی لگتی ہے اور تحقیقات میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہے تو اس پر 200 فیصد جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
  9. ای-بینکنگ معاملت پر کوئی روک نہیں ہے اور کوئی شخص آر ٹی جی ایس، این ای ایف ٹی، آئی ایم پی ایس، پے ٹی ایم، موبائل بینکنگ وغیرہ کے ذریعہ حسب مرضی پیسے دیے جا سکتے ہیں۔[4]

البتہ پیٹرول پمپ، سی این جی اڈوں، سرکاری ہسپتالوں اور ٹرین اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ گھروں میں پانسو اور ہزار کے پرانے نوٹ 11 نومبر تک بدستور قابل قبول ہونے کا اعلان کیا گیا، جسے بعد میں بڑھا کر 14 نومبر کر دیا گیا۔ بین الاقوامی ہوائی اڈوں کو بھی ہدایت دی گئی کہ وہ بیرونی سیاحوں کو پانچ ہزار (74 امریکی ڈالر) تک زر مبادلہ فراہم کرے۔[5]

نئے نوٹ

ترمیم

500 روپے کے نئے نوٹ کی چوڑائی 66 ملی میٹر اور لمبائی 150 ملی میٹر ہے۔ ساتھ ہی اس پر آر بی آئی کے گورنر ارجت پٹیل کے دستخط ہیں۔ بینک نوٹ کے پیچھے لال قلعہ کی تصویر اور "سوچھ بھارت" کا لوگو ہے۔ یہ نوٹ "مہاتما گاندھی نیو سیریز آف نوٹس" کہلائیں گے۔ اب نوٹ کے وسط میں مہاتما گاندھی کی تصویر ہے اور ہندی اعداد میں بھی ₹ 500 بھی لکھا جائے گا۔[6]

2000 روپے کا نوٹ گلابی رنگ کا ہے جس میں پیچھے کی طرف "منگل یان" کی تصویر ہے۔ اس کی چوڑائی 66 ملی میٹر اور لمبائی 166 ملی میٹر ہے۔ نوٹ کے سیریل نمبر کا فونٹ سائز بھی تبدیل کیا گیا ہے۔[6]

اثرات

ترمیم

بی ایس ای سن سیکس 651.49 پوائنٹس گرا، یہ کمی 2.36 فیصد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نفٹی میں بھی بھاری گراوٹ درج کی گئی۔ این ایس ای میں 2.64 فیصد یا 225.40 پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔[7]

9 نومبر کو بہت سی ریاستوں میں سونا انتہائی گراں فروخت ہونے لگا اور لوگوں نے اس رات چالیس ہزار تولہ کی قیمت تک سونا خریدا۔[8].[9] قومی شاہراہوں اور بڑی سڑکوں پر موجود ٹول ناکوں پر گاڑیوں کی قطاریں لگنی شروع ہو گئیں جب محصول وصول کنندگان نے پرانے نوٹ لینے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں وزیر نقل و حمل نتن گڈکرے نے 11 نومبر تک پرانے نوٹ کے قابل قبول ہونے کا اعلان کیا جسے بعد میں بڑھا کر 14 نومبر کر دیا گیا۔[10] اعلان کے بعد اے ٹی ایم پر بھی لمبی قطاریں لگنے لگیں۔ بازاروں میں بہت سی دکانیں آئی ٹی (انکم ٹیکس) محکمہ کے چھاپے کے ڈر کی وجہ سے نہیں کھل رہی ہیں۔ حوالہ آپریٹر بھی پریشان ہیں کہ اس طرح کی بھاری نقد رقم کے ساتھ کیا کرنا ہے۔

رد عمل

ترمیم
  • وزیر اطلاعات و نشریات ایم وینکیا نائیڈو نے ٹویٹ کیا کہ بدعنوانی اور کالے دھن کے خلاف مسٹر نریندر مودی جی کا انسدادی حملہ، بدعنوانی کے خلاف اس جنگ میں تعاون کریں۔ ان کی وزارت کے وزیر مملکت راجیہ وردھن سنگھ راٹھور نے بھی وزیر اعظم کے فیصلے کی تعریف کی۔
  • وزیر ترقی انسانی وسائل پرکاش جاؤڈیکر نے کہا کہ یہ عام آدمی کے لیے حقیقی آزادی ہے۔
  • وزیر ثقافت مہیش شرما نے ٹویٹ کیا کہ یہ بدعنوانی، کالے دھن اور دہشت گردی کے خلاف ایک تاریخی اقدام ہے۔
  • دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اس پر فوری طور پر رد عمل نہیں کیا لیکن مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کی ٹویٹس کو ریٹویٹ کر دیا جس میں ممتا نے مرکز کے اس فیصلے کو سخت کہا تھا۔ البتہ کچھ وقفے کے بعد ایک ویڈیو جاری کی جس میں انھوں نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ ان کے رد عمل کی بنیاد دو ہزار روپے کے نوٹ ہیں، اروند کیجریوال کے مطابق ان کے جاری کرنے سے کالا دھن ختم ہونے کی بجائے اسے فروغ ملے گا۔
  • جھارکھنڈ کے وزیر اعلی رگھوبر داس نے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے یہ بڑا قدم اٹھانا ضروری تھا۔
  • مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے اس اقدام کو قوم کی ترقی کی راہ کا ایک سنگ میل قرار دیتے ہوئے اسے جرات مندانہ قدم قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ کالے دھن کے خلاف اس جنگ میں بھارت کے عوام سچے فوجیوں کی طرح شریک ہوں گے۔
  • کیرالا کی سی پی ایم کی قیادت والی ایل ڈی ایف حکومت نے حکومت کے آرام دہ اور پرسکون اعلان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے ملک سے کالا دھن ختم نہیں ہوگا۔
  • کیرالا کے وزیر خزانہ ٹی ایم تھامس اساک نے کہا کہ 1000 اور 500 کے نوٹوں کو بند کرنا کالے دھن کے مسئلے کا سراغ لگانا نہیں ہے۔ پورا کالا دھن اس شکل میں نہیں ہوتا، بہت سارا پیسہ بیرون ملک میں جمع ہے اور حوالے کے راستے سے آتا ہے۔[11]
 
ہندوستان میں نریندر مودی کے نوٹ منسوخی کے اعلان کے بعد امریکی ڈالر کی مانگ میں ہونے والا اضافہ 88.38k تک پہنچ گیا تھا۔ اس سے پہلے 2016 ء میں سب سے بڑی مانگ 21 جنوری کو رہی تھی جو صرف 68.45k تھی۔[12]

8 نومبر 2016ء کو امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج میں خلاف توقع ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر ڈالر کی قیمت تیزی سے گرنے لگی تھی۔ نریندر مودی کی اس بروقت کارروائی نے ڈالر کو تباہی سے بچا لیا کیونکہ مودی کے اس اقدام نے بھارت میں ڈالر کی مانگ میں اچانک اضافہ کر دیا۔[13] اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں سونے کی قیمت بھی بہت بڑھ گئی۔ ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی لوگوں نے حفظ ماتقدم کے طور پر ڈالر خریدنے شروع کر دیے ہیں جس کی وجہ سے ایشیائی کرنسیوں کی قیمت گر گئی ہے اور ڈالر انڈیکس بہت بڑھ گیا ہے۔
ستمبر 2016ء کے شروع میں ہندوستان میں بٹ کوائن پر اضافی قیمت (پریمیئم) صرف 20 ڈالر تھا۔ بڑے نوٹ منسوخ ہونے کے اعلان کے بعد یہ پریمیئم 70 سے 100 ڈالر تک پہنچ گیا۔[14]

23 جون 2016ء کو برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی (Brexit) کے انتخابات ہوئے تھے اور اس میں بھی توقع کے خلاف نتیجہ آنے پر پاونڈ اسٹرلنگ کی قیمت تیزی سے گری تھی اور ڈالر کے مقابلے میں پاونڈ 14 فیصد گر کر 31 سال کی کم ترین شرح پر آ چکا ہے۔[15]

مکمل ناکامی

ترمیم

30 اگست 2017ء کو جاری ہونے والی ریزرو بینک آف انڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مودی کے نوٹ منسوخی کے اعلان کے وقت 15,440 ارب روپے بڑے نوٹوں کی شکل میں گردش میں تھے جن میں سے 15,280 ارب روپے واپس بینکوں میں جمع کرا دیے گئے۔ اس طرح 99 فیصد رقم قانونی ثابت ہوئی اور مودی کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا کہ انڈیا میں 33 فیصد کالا دھن موجود ہے۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کی سہہ ماہی معاشی ترقی دو سال کی پست ترین شرح پر پہنچ چکی ہے۔[16]

اقتباسات

ترمیم
  • "بھارت جلد ہی پولیس اسٹیٹ بن جائے گا"
India will rapidly become a police state.[17]
  • تمھاری حکومت تمھاری دولت اور بھلائی کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرنسی کنٹرول کے ذریعے لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ڈوبتے جہاز میں بیٹھے رہیں۔

Your government is by far the most serious threat to your money and wellbeing.....In effect, currency controls force people to stay with a sinking ship.[18]

  • جس ملک میں 90 فیصد لین دین نقدی کے ذریعے ہوتے ہیں وہاں حکومتی سرپرستی میں ڈیجیٹل کرنسی پر اعتبار کرنے کی توقع رکھنا کسی ڈھونگ یا مالیاتی جبر سے بڑھ کر مال و زر کی ڈکیتی بن جاتا ہے۔

Expecting a nation used to 90% cash transactions to ever trust government-sponsored digitzation is beyond farce and financial repression, it is monetray larceny.[19]

  • یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ انڈیا اب زیادہ عرصے تک ایک ہی ملک رہے گا۔۔۔ انڈیا میں اب بنیادی تبدیلی آئے گی جو اچھی نہیں ہو گی۔ انڈیا اب ٹوٹ بھی سکتا ہے جس کے لیے ہر کسی کو تیار رہنا چاہیے۔

It is hard to believe that India can continue to exist as a single unit for long...India will fundamentally change going forward, in a very negative way. It may eventually disintegrate, a possibility for which one should be prepared.[20]

  • (دنیا میں) جتنا سونا ہے اس سے زیادہ کرنسی ہے اور جتنی کرنسی ہے اُس سے زیادہ دولت ہے۔ سونا کرنسی کی بنیاد ہے۔ کرنسی دولت کو منتقل کرتی ہے۔ جو کوئی بھی کرنسی کو کنٹرول کرتا ہے وہ دنیا بھر کی دولت کی منتقلی کو کنٹرول کرتا ہے۔

There is more wealth than there is money; there is more money than there is gold; money exists at the pleasure of gold; wealth moves at the pleasure of money. Whoever sits at the neck of money, opening or closing as he will, controls the movement of the world’s wealth.[21]

  • بھارت کی نئی حکومت بے انتہا کرپٹ ہے اور One Bank کو ضرورت نہیں ہے کہ اس حکومت کو بلیک میل کرے کیونکہ One Bank ہی اس حکومت کا مالک ہے۔ یہ پہلے ہی اس بات سے واضح ہو چکا ہے جب اس پِٹھو حکومت نے سونا دو پیسے لو کی اسکیم (فراڈ) شروع کی تھی۔ یہ ہندوستانی عوام سے سونا ہتھیانے کی نہایت مضحکہ خیز اور واضح کوشش تھی جو ناکام رہی۔

There is a new regime in India, an extremely corrupt government which does not require blackmailing by the One Bank because the bankers already own this regime. This was previously demonstrated when this puppet government announced its “gold deposit scheme” (scam). It was such a laughably transparent attempt to steal the gold from the Indian people that it failed miserably.[22]

  • چین نے2016ء میں ہر مہینے اوسطاً 100 ٹن (86 لاکھ تولے) سونا درآمد کیا ہے۔ چین کی کانوں سے نکلنے والا سونا اس کے علاوہ ہے۔[23]
  • ترکی کے صدر طیب اردگان نے اپنے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے ڈالر سے سونا یا لیرا خرید لیں۔

Erdogan Demands Turks Exchange Their Dollars To Gold, Lira[24]

  • "سونا سچ بولتا ہے اس لیے یہ ان لوگوں کا دشمن ہے جو اپنے عوام کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔"

Gold tells the truth so it is an enemy of those who wish to deceive their populations.[25]

  • قحط کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ اناج کا قحط اور کرنسی کا قحط۔ (جب کسی ملک کے عوام سے سونا چاندی اگلوانا ہو تو عالمی بینکارجان بوجھ کر وہاں کرنسی کا قحط پیدا کر دیتے ہیں۔ ایسے موقع پر لوگ اپنے زیور بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔)

Nightingale become aware that there were two kinds of famine, a grain famine and a "money famine."[26]

  • آزادی کے ادارے اب غلامی کے اداروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔۔۔ بھارت میں دلیل اور اخلاقی اقدار کی بجائے تشدد اور دکھ سے استحکام آتا ہے۔۔۔ اگر وہ عقل استعمال کریں تو وہ تشدد کے مرحلے سے بچ سکتے ہیں۔

Institutions of liberty have mutated into institutions of slavery...In India, suffering and violence — not reason or moral instincts — bring stability...If they could reason, they would be able to bypass the phase of violence.[27]

  • عام جنگ اور کرنسیوں کی جنگ میں فرق یہ ہے کہ کرنسیوں کی جنگ خود کو مارنے کے لیے ہوتی ہے۔ جو ملک اپنے ہی عوام کوبد ترین نقصان پہنچا سکتا ہے وہ کرنسی کی جنگ جیت جاتا ہے۔

A currency war is different from any other kind of conventional war in that the object is to kill oneself. The nation that succeeds in inflicting the most damage on its own citizens wins the war.[28]

  • "معاشی مشکلات کسی ملک کوکمزور اورغیر مستحکم بھی کر سکتی ہیں اور اس کی سیاست کو تباہ بھی کر سکتی ہیں اور اس کی کرنسی پر حملہ کر کے ایسا بحران پیدا کیا جا سکتا ہے۔
کرنسی توپ یا بم کی طرح نہیں ہوتی مگر بعض حالات میں یہ انتہائی کارآمد ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سستی ہونے کے باوجود نہایت موثر ہوتی ہے اور یہ دشمن کو اس حد تک کمزور یا معذور کر سکتی ہے کہ اپنی حفاظت کرنا تو درکنار، وہ اپنے معمول کے کام بھی انجام نہ دے سکے۔
عین صحیح وقت پر کرنسی کا حملہ کسی ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے یا پہلے سے نرغے میں آئے دشمن کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔ اگرچہ کرنسی کا کوئی بھی حملہ انتشار پیدا کر سکتا ہے لیکن یہ کسی کمزور اور ترقی پزیر معیشت والے ملک کی بقا کا مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔"
A state may be compromised, destabilized, weakened, or even politically devastated by economic hardship, and an attack on its currency is one means of creating such turmoil....
Currency is not like guns and bombs, but it can be an extremely useful weapon in certain circumstances. It is efficient and comparatively inexpensive, and it can weaken or cripple a targeted state in its ability to function, much less to maintain its own security.
A currency attack at the precisely right (or wrong) moment may help push a state in a destructive direction, or may weaken an opponent already besieged.
While any currency attack might be disruptive, in a vulnerable, emerging economy one could threaten a country's security.[29]
  • اگر انڈیا میں ریزرو بینک کے علاوہ بھی کوئی کرنسی جاری کرنے والا ہوتا تو آر بی آئی اس طرح اچانک کرنسی نوٹ منسوخ نہ کر سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سینٹرل بینک کی کرنسی پر اجارہ داری ہونی چاہیے؟ جواب ہے کہ نہیں۔ مسابقت اچھی چیز ہے اور یہ کرنسی کے معاملے میں بھی درست ہے۔

If India had another currency issuer, the RBI could not have demonetised the currency in one go... whether central banks should have a monopoly on money?The answer is no. Competition will be good even in the business of creating money and managing its ebbs and flows.[30]

  • جب کیش ختم ہو جائیگا تو ہر حکومت امریکا کی غلام ہو گی۔

Every internationally active bank can be blackmailed by the U.S. government into following their orders, since revoking their license to do business in the U.S. or in dollar basically amounts to shutting them down.... If you have the power to bankrupt the largest banks even of large countries, you have power over their governments, too.[31]

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی ربط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب صرف چھ لوگوں کو تھی پانسو اور ہزار کے نوٹوں کے بند ہونے کا علم - نوبھارت ٹائمز - 9 نومبر 2016ء
  2. Gopika Gopakumar, Vishwanath Nair (8 نومبر 2016ء)۔ "Rs500, Rs1000 notes may be back, if history is a guide"۔ Live Mint۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 نومبر 2016ء 
  3. Damodaran, Harish (9 نومبر 2016ء)۔ "Are banks equipped to replace 2,300 crore pieces of Rs 500 and Rs 1,000 notes?"۔ انڈین ایکسپریس۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 نومبر 2016ء 
  4. بنکوں اور 500-1000 کے نوٹ پر پندرہ اہم نقاط -بی بی سی - 10 نومبر 2016ء
  5. "Outlets that will accept Rs 1,000 and Rs 500 notes in next 72 hours"۔ ایکونامک ٹائمز۔ 8 نومبر 2016ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 نومبر 2016ء 
  6. ^ ا ب 10 خاص باتیں: 500 اور 2000 روپے کے بئے نوٹ پرانے نوٹس سے کیسے مختلف ہوں گے، جانیں آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ khabar.ndtv.com (Error: unknown archive URL) - این ڈی ٹی وی - 9 نومبر 2016ء
  7. 500 اور 1000 کے نوٹ بند ہونے سے بازار حصص میں کہرام - بی بی سی - 9 نومبر 2016ء
  8. ہندوستان ٹائمز https://web.archive.org/web/20181225050123/http://www.newindianexpress.com/business/2016/nov/10/gold-price-recovers-on-renewed-demand-1536940.html۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2016ء  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  9. Langa, Mahesh (9 نومبر 2016ء)۔ "Scramble for gold in Gujarat after demonetisation"۔ دی ہندو۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 9 نومنر 2016ء 
  10. "Toll tax suspended on national highways till Nov 11, banks open this weekend"۔ ہندوستان ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 نومبر 2016ء 
  11. 500, 1000 کے نوٹ بند ہونے پر سیاست دانوں کے رد عمل[مردہ ربط] - این ڈی ٹی وی - 9 نومبر 2016ء
  12. "investing.com"۔ 19 نومبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2016 
  13. Dollar Rise In Huge Demand
  14. India’s rupee restrictions are boosting demand for bitcoin
  15. دی وال اسٹریٹ جرنل
  16. Modi's Demonetization Called "Colossal Failure That Ruined Economy" As India GDP Growth Slumps To 2-Year Lows
  17. When Money Dies
  18. Casey Research’s Handbook for Surviving the Coming Financial Crisis.
  19. India’s Modi Admits Plan Shifting Nation To “Cashless Society”[مردہ ربط]
  20. Money Monopoly
  21. کرنسی کا قحط
  22. Indian ‘Gold Ban’ a Portent of Major Events?
  23. Q1 – Q3 2016 China Net Gold Import Hits 905 Tonnes
  24. Troy Oz Silver[مردہ ربط]
  25. The Death Of Paper Money
  26. The Bengal Famine: How the British engineered the worst genocide in human history for profit
  27. Gold Price Skyrockets in India after Currency Ban – Part V
  28. "Cash Is No Longer King: The Phasing Out Of Physical Money Has Begun"۔ 10 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2016 
  29. "Currency as a weapon: Blunt but Potent"۔ 22 جولا‎ئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2016 
  30. “Never interrupt your enemy when he is making a mistake.”
  31. Raghuram Rajan- Reserve Bank of India’s IMF-Chicago Boy

بیرونی روابط

ترمیم