آزاد آسام
آزاد آسام کی اصطلاح بھارت کے صوبہ آسام میں تحریکِ آزادی چلانے والے استعمال کرتے ہیں۔ اسے متحدہ محاذِ آزادیِ آسام (United Liberation Front of Asom) آسام کی مستقبل قرار دیتے ہیں۔ اسے الفا بھی کہا جاتا ہے۔ الفا تنظیم 1979 میں آسام کی آزادی کے لیے تشکیل دی گئی تھی جو ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں سب سے زیادہ سرگرم علیحدگی پسند تنظيم ہے۔ لیکن یہ تحریک 1971ء سے جاری ہے۔ ’لبریشن فرنٹ آف آسام‘ یعنی الفا کے سربراہ کا کا نام اروند راج کھووا ہے جن کے مطابق ان کی ان کی تنظیم حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن خود حکومت کی جانب سے مذاکرات کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہے۔ یہ گروپ ایک اپنے ایک آزاد وطن کے لیے لڑ رہا ہے۔ ا س گروپ کا کہنا ہے کہ قومی حکومت آسام کے قدرتی وسائل کا استحصال کر رہی ہے اور یہاں کے مقامی باشندوں کے مفاد کے لیے بہت کم کام کرتی ہے۔ ۔[1] علاحدگی کی اس پُرتشدد تحریک میں 1979ءسے اب تک 20 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔[2] ریاست آسام گھنے جنگلوں سے، بالخصوص سرسبز پہاڑیوں سے بھری ریاست ہے اس لیے گوریلا جنگ آسان ہے اور اسے کنٹرول کرنا ہمیشہ مشکل رہا ہے۔
اروند راج کھووا نے مرکزي حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ جہاں مرکزی حکومت دیگر علیحدگي پسند گروپوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کی شرط بغیر بات چیت کر رہی ہے وہیں الفا پر ہتھیار چھوڑنے کے بعد بات چیت کی شرط لگائی جا رہی ہے۔ فی الوقت یہ واضح نہیں ہے کہ کیا الفا کا شدت پسند دھڑا بھی بات چیت کی تجویز کی حمایت کر رہا ہے یا نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی جب بات چیت کی شروعات ہوئی تھی تو شدت پسندوں نے مذاکرات کی حمایت نہیں کی تھی۔ اروند راج کھووا نے کہا کہ ’مذاکرات شروع کرنے کے لیے مرکزی حکومت دوہرا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے، ایک طرف وہ ناگا باغی تنظیم سے بنا اس شرط کے بات کر رہی ہے کہ وہ پہلے ہتھیار چھوڑيں لیکن ہم سے بات چیت کے لیے پہلے ہتھیار چھوڑنے کی شرط رکھی جا رہی ہے ‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ہمیشہ سے آسام میں پرامن سمجھوتے کی حمایت کرتے رہے ہیں لیکن مرکزي حکومت یہ اشارے کر رہی ہے کہ مذاکرات سے مسئلے کا حل نکالنے میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے ‘۔ سنہ 1992 میں بھی ایک مرتبہ اروند راج کھووا کی صدارت میں الفا رہنماؤں نے بھارتی حکومت سے مذاکرات کیے تھے لیکن تنظیم کے شدت پسند دھڑے کے سربراہ پریش بروا نے ان مذاکرات کی مخالفت کی اور وہ کوشش ناکام ہو گئی تھی۔[3]
آسام کے لوگ
ترمیمآسام میں 35 فی صد مسلمان، ساٹھ فی صد ہندو اور باقی دیگر مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ کل آبادی ڈھائی کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بعد مسلمانوں کی تعداد کے حساب سے یہ دوسرا بڑا علاقہ ہے۔ زیادہ لوگ زراعت بالخصوص چائے کی کاشت سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ پیٹرول کی ریفائنریاں ہیں۔ چائے کے باغات پر کنٹرول کے لیے اکثر بھارتی افواج مقامی باشندوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے۔
آسام کے ٹیکس
ترمیمیونائٹیڈ لیبریشن فرنٹ آف آسام (الفا) نے شمال مشرقی ریاست آسام کے عوام کو حکم دیا ہے کہ وہ الفا کی کارروائیوں کو انجام دینے کے لیے اسے ٹیکس ادا کریں۔ الفا کا کہنا ہے کہ آسام کے مقامی لوگ یہ ٹیکس رضاکارانہ طور پر ادا کر سکتے ہیں لیکن باقی عوام کو یہ ٹیکس ادا کرنا لازمی ہوگا۔ آسام بھارت میں چائے پیدا کرنے والی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں چائے کے آٹھ سو سے زیادہ باغات ہیں اور یہاں پر کئی بڑی کمپنیاں چائے پیدا کرنے کے کاروبار میں مصروف ہیں جب کہ ان کمپنیوں میں آسام کے باہر کے کافی لوگ کام کرتے ہیں۔ الفا یہ الزام لگاتا ہے کہ وفاقی حکومت آسام کے کے قدرتی وسائل کا استعمال کرتی رہی ہے لیکن اس کا فائدہ آسام کے لوگوں کو نہیں ہو تا۔[4]
چین کی تجویز
ترمیمچین کے ایک نیم سرکاری تجزیہ کار کی تجویز ہے کہ بھارت کو کئی ٹکڑوں میں توڑ دیا جائے۔ مضمون کے مطابق ’ چین کو آسام میں آزادی حاصل کرنے کے لیے شدت پسند تنظیم الفا اور تمل و ناگا گروپوں کی قوم پرستی کی تحریک کی حمایت کرنی چاہیے۔ بنگلہ دیش کی مدد کی جائے تاکہ وہ مغربی بنگال کے ساتھ ایک یو نائٹیڈ بنگالی قومیت پر مبنی علحیدہ مملکت قائم کر سکے اور اس طرح چین جنوبی تبت کی نوئے ہزار مربع کلومیٹر زمین ہندستان سے واپس لے سکے جس پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے ۔‘ مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان ایک ملک کے طور پر کبھی بھی وجود میں نہیں رہا ہے ۔[5]
بھارت کا خوف
ترمیمبھارتی حکومت نے ملک کی شمال مشرقی ریاست آسام اور دیگر جگہوں میں علیحدگی کی تحریکوں کو دبانے کے لیے پولیس کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے 2007ء کے دوران میں تین ارب 46 کروڑ 28 لاکھ روپے فراہم کیے۔ اتوار کو بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارت کی 24 ریاستوں میں پولیس فورس کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کے لیے 5 ارب 37 کروڑ سے زائد رقم طلب کی تھی تاہم بھارتی حکومت نے مالی سال 2006-07ء کے دوران میں ان ریاستوں کو تین ارب 46 کروڑ 28 لاکھ روپے فراہم کیے۔ شمال مشرقی ریاست آسام کو سب سے زیادہ فنڈز فراہم کیے گئے۔ ۔[6] اس کے علاوہ بھارت نے 1950ء کے بعد آسام میں سے مختلف علاقوں پر مبنی نئے صوبے نکالے تاکہ آسام کو چھوٹا کیا جاسکے۔
آسام رائفلز کو تحریک دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ آسام رائفلز کی بنیاد ایک سو تہتر سال قبل برطانوی سامراج کے دور میں ڈالی گئی تھی تاکہ ہندوستان کے شمال مشرق کے خود مختار قبائلیوں کو دبایا جاسکے۔ آزادی کے بعد شمال مشرقی ریاستوں میں باغی گروہوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے حکومت نے آسام رائفلز کو مؤثر بنانے کی کوشش کی اور اب اس کے چھیالیس بٹالین ہیں۔ ہر بٹالین میں لگ بھگ ایک ہزار فوجی ہوتے ہیں۔ آسام رائفلز کے جوانوں میں ایچ آئی وی اور ایڈز کی بیماری پھیل رہی ہے۔ آسام رائفلز کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل کرن سنگھ یادو نے صحافیوں کو بتایا کہ چھ سو سے زائد فوجی ایچ آئی اور ایڈز کے شکار ہیں۔ لیفٹننٹ جنرل کرن سنگھ یادو کے مطابق اس بیماری کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں کئی سو فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ آسام رائفلز کے فوجیوں نے مقامی خواتین کے ریپ کیا اور کئی خواتین کو کھلے عام بچوں کی پیدائش پر مجبور کیا۔ سن انیس سو نواسی میں آسام رائفلز کے فوجی ریاست تریپورا میں قبائلی خواتین کے ریپ کے مرتکب پائے گئے تھے۔ جبکہ سن دو ہزار چار میں منی پور کی ایک لڑکی تھنگجم منوراما کے ریپ کا الزام بھی آسام رائفلز پر لگایا گیا تھا۔ حقوق انسانی کی امریکی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اس ریپ کیس میں فوجیوں کو بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس واقعے کے بعد منی پور کی درجنوں بزرگ خواتین نے امپھال شہر میں آسام رائفلز کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے ’برہنہ مظاہرہ‘ کیا تھا۔[7]
2008ء میں ایک ہی دن آسام میں اٹھارہ بم دھماکے ہوئے۔ آسام کے دھماکوں کے بعد مشتعل افراد اور پولیس میں تصادم ہوئے۔ ان واقعات میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو ہوائی فائر کرنے پڑے۔ خبروں کے مطابق ان افراد نے پولیس اور آگ بجھانے کے عملے کی دھماکے کے بعد کی کارروائیوں مین بھی رکاوٹ ڈالی۔ دھماکوں کے بعد آسام اور اطراف کے علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ اس دوران میں پولیس نے عام افراد پر بہت ظلم کیے جس سے آزادی کی تحریک کو مزید ہوا ملی۔
بیرونی روابط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ وائس آف امریکا[مردہ ربط]
- ↑ وائس آف امریکا[مردہ ربط]
- ↑ بی بی سی نیوز کلکتہ 26 اکتوبر 2009ء
- ↑ بی بی سی نیوز کلکتہ 25 ستمبر 2006ء
- ↑ بی بی سی دلی، بھارت 12 اگست 2009ء
- ↑ القمر آن لائن اخبار[مردہ ربط]
- ↑ "اردو مجلس"۔ 28 نومبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 نومبر 2009