آسمانی بجلی کا سب سے زیادہ متاثر ملک

گذشتہ سال مارچ میں بھارت کے دار الحکومت دہلی کے مضافاتی علاقے گڑگاؤں میں اپنے کام میں مصروف 4 مالیوں (باغبان) نے تیز بارش کے دوران ایک درخت کے نیچے پناہ لی تھی۔ چند ہی منٹوں میں کڑکتی بجلی کی ایک نارنجی لہر درخت کے تنے سے نیچے دوڑ گئی اور اس کے بعد گھن گرج نے کانوں کو بہرا کر دیا۔ بجلی کے گرنے کا دورانیہ عام طور پر ایک سیکنڈ سے کم ہوتا ہے۔ ایک عام آسمانی بجلی کی چمک تقریباً 300 ملین وولٹ اور 30,000 ایمپئر ہوتی، جو اپنی زد میں آنے والی کسی بھی جاندار شے کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ زمین پر گرنے والی آسمانی بجلی اپنے ارد گرد کی ہوا کو سورج کی سطح کے درجۂ حرارت سے پانچ گنا زیادہ گرم کر سکتی ہے۔ جیسے ہی پر بجلی گری چاروں مالی زمین پر گر گئے۔ ان میں سے ایک کی موقع پر ہی موت ہو گئی، جب کہ باقی اگرچہ جھلس گئے مگر زندہ رہے۔زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک نے مقامی اخبار کو بتایا کہ ’مجھے یاد نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ چند سیکنڈ میں سب کچھ تباہ ہو گیا[1]

‎آسمانی بجلی

1967ء سے 2019ء کے درمیان ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک

ترمیم

بھارت میں ہر سال 2500 سے زیادہ افراد آسمانی بجلی گرنے سے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 1967ء سے 2019ء کے درمیان ملک میں آسمانی بجلی گرنے سے ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ اس عرصے کے دوران قدرتی آفات سے ہونے والی اموات کا ایک تہائی حصہ ہے۔ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں زندہ بچ جانے والوں کو جسمانی کمزوری، چکر آنے اور یادداشت میں کمی جیسی علامات کے ساتھ باقی زندگی گزارنا پڑ سکتی ہے انڈیا کے محکمہ موسمیات نے 3 سال قبل آسمانی بجلی کی پیش گوئی کرنے والے نظام کا آغاز کیا تھا، تاہم اب موبائل ایپس کے ذریعے بھی بجلی گرنے کو ٹریک کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو ریڈیو، ٹی وی اور میگا فون اور رضاکاروں کے ذریعے اس حوالے سے خبردار کیا جاتا ہے[2]

لائٹننگ انڈیا ریزیلیئنٹ کیا ہے ؟

ترمیم

لائٹننگ انڈیا ریزیلیئنٹ نامی ایک مہم تین سال قبل شروع کی گئی تھی، جس کے ذریعے بجلی کی زد میں آنے کے خطرات سے دو چار دیہاتوں میں بیداری پیدا کرنے اور اموات کو کم کرنے کے لیے بہت محنت کی جا رہی ہے۔ لیکن اس عرصے میں بجلی گرنے کے واقعات کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک خیراتی تنظیم کلائمیٹ ریزیلیئنٹ آبزرونگ سسٹمز پروموشن کونسل کی ایک تحقیق کے مطابق انڈیا میں اپریل 2020ء اور مارچ 2021ء کے درمیان بجلی گرنے کے جو واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں وہ گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 34 فیصد زیادہ ہیں۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹراپیکل میٹرولوجی کے ذریعے حاصل کیے گئے سیٹلائٹ ڈیٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سنہ 1995ء اور 2014ء کے درمیان بجلی گرنے کے واقعات میں 'تیزی سے اضافہ' ہوا ہے[3]

کھیتوں میں کام کرنے والے مرد آسمانی بجلی کا سب سے زیادہ نشانہ

ترمیم

اگرچہ بجلی گرنے کے زیادہ تر واقعات بھارت کی نصف درجن ریاستوں میں ریکارڈ کیے گئے ہیں لیکن 70 فیصد اموات ملک کی تین ریاستوں اوڈیشا ، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال میں ہوئیں۔ تحقیق کے مطابق کھیتوں میں کام کرنے والے مرد آسمانی بجلی کا سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔مغربی بنگال کے ایک اسکول سے منسلک سندھیا رانی گری کہتی ہیں کہ ’ہمارے علاقے میں بہت زیادہ آسمانی بجلی گرتی ہے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ایک سات سالہ لڑکا اس وقت مارا گیا تھا جب وہ طوفان کے دوران اپنی بھینسیں لینے نکلا تھا۔ اب ہم ایسی صورت حال میں صرف گھر پر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ مزگری ریاستی دار الحکومت کولکتہ سے تقریباً 120 کلومیٹر جنوب میں خلیج بنگال سے متصل ایک گنجان آبادی والے ماہی گیروں کے گاؤں میں رہتی ہیں۔ یہ ایک لحاظ سے سب سے زیادہ آسمانی بجلی گرنے کا مقام ہے۔ بجلی گرنے کی وجہ سے ہر سال یہاں تقریباً 60 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں[4]

سمندر کے قریب رہنا خطرناک

ترمیم

ساحلی دیہات زمین اور پانی کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں کھیتوں، تالابوں اور ٹین کی چھتوں والے گھر اور جھونپڑیاں نظر آتی ہیں۔ سمندر کے قریب رہنا خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں ہر وقت طوفان اور سمندری لہروں کا خطرہ رہتا ہے۔ آسمانی بجلی گرنے کا امکان زمین پر زیادہ ہوتا ہے، لیکن ساحل سے دور پانی والا علاقہ بھی متاثر ہوتا ہے۔بجلی کا گرنا بنیادی طور پر بجلی کے زیادہ اخراج کی صورت میں ہوتا ہے جو زیادہ تر طوفانی بادلوں کے اندر عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے دیہات کے لوگوں نے بجلی کی لہر کو براہ راست زمین میں لے جانے کے لیے سستے، گھریلو بجلی کے کنڈکٹر بنا کر بیداری پیدا کرنے اور بجلی گرنے سے ہونے والی اموات کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔ان کنڈکٹرز کو بنانے کے لیے گاؤں والے پرانی سائیکل کے پہیوں، بانس اور دھاتی تاروں کا استعمال کرتے ہیں۔ سائیکل کے رِم کو بانس کے کھمبے کے اوپر لگایا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ کھمبا 30 فٹ تک بلند ہوتا ہے جو عمارتوں، خاص طور پر کمیونٹی سینٹرز اور مقامی اسکولوں پر لگایا جاتا ہے۔ کنڈکٹر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ گرنے والی آسمانی بجلی بغیر کسی کو نقصان پہنچائے زمین کے اندر جذب ہو جائے[5]

لائٹننگ ریزیلیئنٹ انڈیا نامی مہم کا اثر

ترمیم

لائٹننگ ریزیلیئنٹ انڈیا نامی مہم کے زیر اہتمام کی گئی تحقیق کے مطابق، انڈیا میں آسمانی بجلی کے متاثرین کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور ان کی موت اونچے درختوں کے نیچے پناہ لینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ قبائلی لوگ جو کھیتی باڑی کرتے ہیں، مچھلیاں پکڑنے، روزی روٹی اور چارہ لانے کے لیے باہر نکلتے ہیں، وہ خاص طور پر اس کی زد میں آتے ہیں۔ اس مہم کی وجہ سے کچھ ریاستوں میں آسمانی بجلی گرنے سے ہونے والی اموات میں 60 فیصد کمی ہو گئی ہے۔ تاہم، اس مہم کے رابطہ کار کرنل سنجے سریواستو کہتے ہیں کہ ’حکومتوں کی طرف سے کمیونٹی کی سطح پر کھیتوں، جنگلوں، سمندروں، ساحلوں، تالابوں، جھیلوں اور ندیوں جیسے مقامات پر متاثرہ لوگوں تک پہنچنے کے لیے واقعی حفاظت سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے۔'

سنہ 2022ء تک انڈیا کا ہدف

ترمیم

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی بجلی گرنے میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ زمین اور سمندر کی سطح کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت اوپر کی ہوا کو گرم کرتا ہے اور گرج چمک کے طوفان کو زیادہ توانائی مہیا کرتا ہے جہاں سے بجلی نکلتی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدانوں کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اوسط درجۂ حرارت میں اضافے پر امریکا میں آسمانی بجلی گرنے کی شرح میں 12 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ عشروں میں انڈیا میں، شہروں میں بڑھتی آبادی اور درختوں کے کم ہونے سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے ’تھنڈرسٹرام ڈائنیمکس‘ کے ڈائریکٹر ایس ڈی پوار کا کہنا ہے کہ ’زمین پر گرمی کا بڑھنا اور ہوا کی آلودگی کی وجہ سے پانی اور ایروسول پر نمی گرج چمک کے لیے سازگار حالات پیدا کرتے ہیں۔ انڈیا میں موسم جتنا گرم ہو گا اور آلودگی جتنی بڑھے گی، بجلی گرنے میں بھی اضافہ ہو گا۔‘ اس کے علاوہ وہ یہ بھی کہتے ہیں بجلی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ’حال ہی میں، سائنسدانوں نے تقریباً 500 میل طویل کڑکتی بجلی کی لہر کی تصدیق کی ہے جس نے تین امریکی ریاستوں میں آسمان کو روشن کر دیا اور اس کی وجہ سے طویل ترین چمک کا نیا ریکارڈ قائم ہوا۔‘انڈیا کا ہدف یہ ہے کہ سنہ 2022 تک آسمانی بجلی گرنے سے ہونے والی اموات کی تعداد کو کم کرکے 1,200 سے نیچے لایا جائے۔ رضاکار لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کیمپ لگا رہے ہیں اور دور دراز کے دیہاتوں میں لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گھروں کے اندر رہیں اور طوفان کے دوران مویشیوں کو چرانے کے لیے کھلے میدانوں میں جانے سے گریز کریں۔ رضاکار لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ درختوں کے نیچے جمع نہ ہوں اور بجلی کی تاروں اور دھاتی باڑوں سے دور رہیں۔

آسمانی بجلی گرنے پر کیا کریں؟

ترمیم
  • کسی بڑی عمارت یا کار کے اندر پناہ حاصل کریں
  • کھلی جگہوں اور پہاڑی چوٹیوں سے دور رہیں
  • اگر آپ کے پاس پناہ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو اپنے گھٹنوں اور کہنیوں کو تہ کر کے بیٹھ جائیں اور سر کو اپنی گود میں چھپا لیں تاکہ آپ ممکنہ حد تک چھوٹا ہدف بنیں
  • اونچے اور الگ تھلگ درختوں کے نیچے پناہ نہ لیں
  • اگر آپ پانی پر یعنی سمندر یا دریا میں ہیں تو ساحل پر پہنچیں اور جتنی جلدی ممکن ہو کھلے ساحلوں کی طرف بھاگیں[6]

حوالہ جات

ترمیم