سید آصف مسعود شاہ انگریزی:Syed Asif Masood Shah (پیدائش: 23 جنوری 1946ء لاہور، پنجاب) پاکستان کے کرکٹ کھلاڑی ہیں جنھوں نے 1969ء سے 1977ءتک 16 ٹیسٹ اور 7 ایک روزہ میچ کھیلے۔انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔

آصف مسعود ٹیسٹ کیپ نمبر58
ذاتی معلومات
مکمل نامسید آصف مسعود شاہ
پیدائشError: Need valid birth date: year, month, day
لاہور, پنجاب، پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا میڈیم گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 57)21 فروری 1969  بمقابلہ  انگلینڈ
آخری ٹیسٹ1 جنوری 1977  بمقابلہ  آسٹریلیا
پہلا ایک روزہ (کیپ 2)11 فروری 1973  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
آخری ایک روزہ16 اکتوبر 1976  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ
میچ 16 7
رنز بنائے 93 10
بیٹنگ اوسط 10.33 5.00
100s/50s -/- -/-
ٹاپ اسکور 30* 6
گیندیں کرائیں 3038 402
وکٹ 38 5
بولنگ اوسط 41.26 46.79
اننگز میں 5 وکٹ 1
میچ میں 10 وکٹ n/a
بہترین بولنگ 5/111 2/9
کیچ/سٹمپ 5/- 1/-
ماخذ: [1]، 4 فروری 2006

ٹیسٹ کرکٹ میں کارکردگی ترمیم

آصف مسعود کو 1969ء میں انگلستان کے خلاف ہوم سیریز میں ٹیسٹ کھیلنے کے لیے میدان میں اتارا گیا۔ بلے بازی میں انھوں نے صرف 11 رنز بنائے لیکن بائولنگ میں 59 رنز دے کر انھوں نے جان ایڈریچ کو اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ بنایا۔ دوسری اننگز میں انھوں نے 68 رنز دے کر جان ایڈرچ' کولن کائوڈرے اور ایلن ناٹ کو پویلین کی راہ دکھائی۔ اس طرح انھوں نے میچ میں 127 رنز دے کر 4 وکٹوں کو اپنے قبضے میں کرکے اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دیا۔ کراچی کے دوسرے ٹیسٹ میں 94/2 کے بعد کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میں وہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔ 2 سال کے بعد 1971ء کو انگلستان کے دورے میں وہ پاکستانی ٹیم کا حصہ تھے۔ برمنگھم کے پہلے ٹیسٹ میچ میں انھوں نے انگلستان کی ٹیم کو فالوآن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان جو پہلی اننگ میں 608 رنز 7 وکٹ پر اننگ ڈکلیئر کرکے ایک بہتر پوزیشن میں نظر آرہا تھا وہاں آصف مسعود نے بائولنگ کے شعبے میں پہلی اننگ میں 34 اوورز میں سے 6 میڈن پھینک کر صرف 111 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ ان میں جان ایڈرچ 0' کولن کائوڈرے 16' ڈینس ایمس 4' ایلن ناٹ 116 اور پیٹر لیور 47 پر ان کے ہاتھوں اپنی وکٹیں گنوا بیٹھے تھے۔ فالو آن کے بعد دوسری اننگ میں بھی آصف مسعود نے جان ایڈرچ 15' کولن کائوڈرے34 ' ڈینس ایمس 22' رے النگورتھ 1 کی وکٹیں 49 رنز کے عوض اپنے کھاتے میں جمع کرلی تھیں یوں مجموعی طو پر اس میچ میں آصف نے 160 رنز کے عوض 9 برطانوی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ تاہم لارڈز کے میدان میں کوئی بھی انگلش کھلاڑی ان کے ہتھے نہ چڑھ سکا تاہم لیڈز کے تیسرے ٹیسٹ میں انھوں نے پہلی اننگ میں 75/2 اور دوسری اننگ میں 46/2 کے ساتھ انگلش کھلاڑیوں کو پریشان کیا۔ اگلے سال 1972ء میں وہ آسٹریلیا کے دورے پر تیز وکٹوں کو دیکھتے ہوئے کچھ الگ کرنے کی تیاریوں میں تھے تاہم پورے دورے میں وہ صرف 5 وکٹیں ہی حاصل کر پائے۔ اسی سیزن میں انھوں نے کراچی میں انگلستان کے خلاف ایک ٹیسٹ کھیلا مگر صرف دو وکٹ ہی حاصل کرسکے جس کے لیے انھیں 52 رنز کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ 1974ء میں وہ قومی ٹیم کے ساتھ انگلستان کے دورے پر روانہ ہوئے تو ان سے خاصی امیدیں وابستہ تھیں اور انھوں نے کسی حد تک اس کو پورا بھی کیا۔ لیڈز کے پہلے ٹیسٹ میں 113/3 اور لارڈز کے دوسرے ٹیسٹ میں 56/3 اور اوول کے آخری ٹیسٹ میں 66 رنز کے عوض ایک وکٹ حاصل کرکے انھوں نے 7 وکٹ کے ساتھ کچھ بہتر اختتام کیا۔ اگلے سال 1975ء میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کے دورئہ پاکستان میں لاہور اور کراچی کے دو ٹیسٹوں میں شرکت کا موقع ملا۔ لاہور میں انھوں نے 133/3 اور کراچی میں 76/2 کی عمدہ کارکردگی دکھائی۔ لاہور کے ٹیسٹ میں انھوں نے پہلی اننگ میں کھیلتے ہوئے ناقابل شکست 30 رنز سکور کیے جو ان کے ٹیسٹ کیریئر میں کسی ایک اننگ کا بہترین انفرادی سکور ہے۔ 1977ء میں وہ اپنی آخری ٹیسٹ سیریز کے لیے قومی ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا کے دورے پر گئے جہاں انھیں صرف ایک ہی ٹیسٹ کھیلنے کا موقع ملا جو میلبورن کرکٹ گرائونڈ پر تھا لیکن بدقسمتی سے وہ اپنے ٹیسٹ کو یادگار نہ بنا سکے اور 79 رنز دے کر بھی وکٹ سے محروم رہے۔

ون ڈے کیریئر ترمیم

آصف مسعود کو 1973ء میں کرائسٹ چرچ کے میدان پر نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے کیپ سے نوازا گیا۔ پہلے میچ میں وہ کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ اسی طرح 1974ء میں انگلستان کے خلاف 2 ون ڈے میچوں میں ان کے حصے میں صرف 2 ہی وکٹ آئے جہاں انھوں نے مائیک سمتھ 0 اور کیتھ فلیچر 2 کو پویلین بھجوا کر پاکستان کی 8 وکٹوں سے فتح کو ممکن بنایا۔ انگلستان کی ٹیم 35 اوورز کے اس میچ میں 9 وکٹوں پر صرف 81 رنز بنا سکی تھی جسے پاکستان نے 18 اوورز میں 2 وکٹوں کے نقصان پر پورا کر لیا۔ آصف مسعود نے 7 اوورز میں 2 میڈن کے ساتھ صرف 9 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تھا۔ انھیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ پاکستان کی فتح میں ظہیر عباس 57 کا کردار نمایاں تھا جنھوں نے 61 بالوں پر 7 چوکوں کی مدد سے ہدف حاصل کرنے کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد میچوں میں آصف مسعود بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے' خصوصاً 1976ء میں سیالکوٹ میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں انھوں نے 38 رنز کے عوض گیلن ٹرنر کی وکٹ حاصل کی جو ون ڈے کرکٹ میں ان کی آخری وکٹ ہے۔

اعداد و شمار ترمیم

آصف مسعود نے 16 ٹیسٹ میچوں کی 19 اننگ میں 10 رتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 30 ناقابل شکست سب سے زیادہ رنزوں کے ساتھ 93 رنز سکور کیے جس کی اوسط 10.33 تھی جبکہ 7 ون ڈے میچوں کی 3 اننگز میں ایک دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 10 رنز بنائے۔ 6 ان کا سب سے زیادہ سکور اور 5.00 اوسط رہی جبکہ فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 121 میچوں کی 119 اننگز میں 46 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 635 رنز سکور کیے جس میں ان کا ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور 34 رہا۔ 8.69 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں کے انھوں نے 38 کیچز بھی پکڑے تھے جبکہ باولنگ میں آصف مسعود نے 16 ٹیسٹ میچوں کی 27 اننگز میں 1568 رنز دے کر 38 وکٹوں کے حصول کو ممکن بنایا تھا۔ 111/5 ان کی کسی ایک اننگ کی بہترین کارکردگی تھی جبکہ ایک میچ کی بہترین کارکردگی 160/9 تھی۔ ان کو 41.26 کی اوسط حاصل ہوئی تھی اور انھوں نے ایک اننگ میں 5 وکٹوں کا کارنامہ ایک دفعہ اور 4 وکٹوں کے شکار کا موقع ایک دفعہ حاصل کی جبکہ ون ڈے میں انھوں نے 234 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ 9 رنز کے عوض 2 وکٹیں ان کی بہترین کارکردگی تھی جبکہ انھیں قدرے مہنگی اوسط 46.80 حاصل ہوئی تھی۔ اسی طرح فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 8854 رنز دے کر 305 وکٹیں حاصل کی تھیں جس میں 97/8 کسی ایک اننگ کی بہترین بائولنگ پرفارمنس تھی۔ اسی طرح انھیں 29.02 کی اوسط حاصل ہوئی تھی۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں انھوں نے 9 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کی تھیں[1]

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ترمیم

1977ء میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے کر انھوں نے برطانیہ میں شادی کی اور وہیں کے ہو کر رہ گئے اور پھر آصف مسعود ایک کامیاب بزنس مین بن گئے، پہلے ٹریول ایجنسی کے مالک تھے پھر لنکا شائر میں انھوں نے ایک پوسٹ آفس کھول لیا۔ وہ فی الحال اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ بری میں ہی مقیم ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم