آقنجی
آقِنجی(ترکی: akıncı، حالت جمع: akıncılar، عثمانی ترکی: آقنجی) سلطنت عثمانیہ کی ابتدائی صدیوں میں غیر منظم اور بے قاعدہ گھڑسوار فوج تھی جسے یورپ میں اِستعمال کرنے کی غرض سے تیار کیا گیا تھا اور یہ فوج سلطنت عثمانیہ کے یورپی ممالک و مقبوضات میں چھاؤنیوں میں رہتی تھی۔
تاریخ
ترمیمآقنجی دراصل ترکی زبان کے ایک اسم فعل یعنی ’’آقِن‘‘ سے مشتق ہوا ہے جس کا مصدر آق مَق ہے۔ آق مَق کے معنی ہیں: بہنا، گرانا، گرایا جانا یا اُنڈیلنا۔ آقنجی کے معنی ہوتے ہیں: غزوہ، دشمن کے علاقے پر ناگہانی حملہ کرنے والا دستہ، یعنی سَیل کی تیز رفتاری سے دشمن پر حملہ کرنے والا فوجی دستہ۔ اِس دستے میں وہ لوگ شامل ہوتے تھے جو دشمن کے علاقوں میں تیز رفتاری سے حملہ کیا کرتے تھے، اِس غرض سے کہ وہ دشمن کی طرز اور وضع کی اِطلاعات حاصل کرسکیں یا دشمن کے علاقے میں لوٹ مار کرسکیں یا علاوہ اِس کے اُس علاقے میں تباہی و بربادی کرسکیں۔ آقنجی کے دستوں کی دشمن پر حملہ آوری کا تذکرہ اوزون حسن کے خلاف سلطان محمد فاتح کی لشکرکشی اور فوجی مہم میں ملتا ہے۔ آقنجی کو باقاعدہ تنخواہ نہیں دی جاتی تھی بلکہ وہ لشکرکشی کے عوض فتح یاب ہونے پر مالِ غنیمت میں حصہ دیا جاتا تھا یا وہ مال جسے وہ قزاقانہ طور پر خود لوٹ مار کرتے ہوئے حاصل کرلیتے تھے۔ یہ لوگ باقاعدہ فوج کی طرز پر کسی مقام پر پڑاؤ نہیں کرتے تھے بلکہ دشمن کے علاقوں میں لوٹ مار مچاتے ہوئے تاخت و تاراج کرتے پھرتے تھے۔البتہ یہ لوگ مالِ غنیمت کی باہمی تقسیم اور اپنی بے باکانہ اِقدامات کی سی سوچ لیے اپنے دستوں میں اندرونی طور پر بہت عمدہ نظم و ضبط رکھتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے اوائل کی فتوحانہ مہمات میں آقِنجیوں کی تعداد یا جمعیت تیس ہزار اعلیٰ درجہ کے شہ سواروں پر مشتمل ملتی ہے۔[1] روایات کے مطابق اِن اِمدادی افواج کی تشکیل میں اناطولیہ سے تعلق رکھنے والے ترکمان قبائل کے دستے بھرتی کیے جاتے تھے جنہیں سلطنت سلجوقی کی طرز پر منسوب کیا جاتا ہے۔آقین کی اصطلاح عثمانی فوج کی بحری مہمات کے متعلق بھی مستعمل رہی ہے۔[2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد اول، صفحہ 112۔
- ↑ انوری: ینانچ، صفحہ 24، مطبوعہ استنبول، 1928ء