آچاریہ پاننی سنسکرت کے صرف و نحو کا سب سے بڑا عالم ہے۔ اس کی تصنیف اشٹ ادھیائے (آٹھ ابواب) ہے جس میں چار سو اقوال ہیں۔ پاننی کے گرو کا نام آپ ورشی اور ماں کا نام داکش تھا۔ موضع سلاپور میں پیدا ہوا۔ یہ مقام دریائے قابل اور دریائے سندھ کے سنگم پر واقع ہے۔ اپنی تصنیف مذکورہ میں اس نے اپنے نام پتہ اور وجہ و ترتیب کی صراحت کی ہے۔ پاننی سے پہلے اس علم کے کئی عالم گذر چکے تھے۔ ان کی کتابوں کو پڑھ کر ان کے باہمی اختلافات کو دیکھ کر پاننی کو خیال ہوا کہ قواعد زبان سنسکرت پر ایک جامع کتاب مرتب کرنا چاہیے۔ اس نے متقدمین کی ویدک تصانیف، برہمن، آرینہ وغیرہ کے ترقی یافتہ ادب سے الفاظ کا تحقیقی مواد لیا۔ ویدوں کی لغت اور قواعد زبان کا مواد جو پہلے سے موجود تھا اس کو جمع کر کے انکا گہرا مطالعہ کیا۔

1:شاکائین 2:بھاردواج 3:گارکیہ 4:سینک 5:اُپیشلی 6:گالوا 7:سپھوناین

جیسے اساتذہ کی تصانیف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاکائین ضرور پاننی سے پہلے قواعد داں تھے۔ شاکائین کا قول ہے کہ سب الفاظ کسی نہ کسی مادے سے بنتے ہیں۔ پاننی اس کی تائید کرتا ہے اور یہ بھی صاف کہتا ہے کہ بہت سے الفاظ ایسے ہی ہیں جو عوام کی بول چال میں آ گئے ہیں۔ جن کے مادے کا لفظ گرفت میں نہیں آتا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس نے خود اپنے ملک میں پیدل گھوم کر دیکھا اور کئی بولیاں سن کر تلفظ اور لب و لہجہ سے معلومات حاصل کیں۔ پھر لفظ کی چھان بین کی، الفاظ کو جمع کیا اور ان سب کی اصناف وار فہرستیں تیار کیں۔ ایک فہرست لفظ کے مادے کی تھی جس کو پاننی نے اپنے اشٹ ادھیائے سے الگ رکھا۔ اس میں 1943 مادے انکوری ہیں۔ یہ دو قسم کے ہیں : پاننی سے پہلے کے اساتذہ کی مرتبہ اور دوسری لوگوں کی بول چال سے مرتبہ جس میں ویدوں کے کئی اچاریہ تھے۔ اس فہرست سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس اچاریہ سے کونسا چرن ثابت ہوتا ہے اور اس مکتب کے طلبہ کس نام سے مشہور تھے۔ ان کے نصاب اور سبق میں کونسے چھند کی شاخ تھی۔ پاننی نے ان سب الفاظ میں لاحقے لگا دیے۔ ایک اچاریہ تیتریہ تھے۔ انکا چرن (حصہ) تیتریہ کہلایا۔ اس مکتب کی شاخ بھی تیتریہ کہلاتا تھا۔ تیسری فہرست گوتروں کی ہے۔ اصل میں ویدی عہد سے یہ سات چلے آتے تھے۔ پاننی کے عہد تک ان میں کافی ترقی ہو گئی تھی۔ پاننی نے قدیم اور مروجہ عوامی دونوں زبانوں کے خاندانوں کے نام دیے ہیں۔ ایک خاندان میں بوڑھے دادا۔ چاچا(ہم نسل باپ بیٹا پوتا) ابتدائی افراد کے نام کیوں کر رکھے جاتے تھے، پاننی نے اس کا تفصیلی بیان کیا۔ یہ گھن پاٹھ کتاب میں درج ہے۔ چوتھی فہرست جغرافیائی ہے۔ پاننی کی جائے پیدائش کے شمال مغرب میں گندھار (قندھار) ہے۔ اسی طرح پنجاب کے پانچ سو گاؤں کے نام دیے۔ ان ناموں کی تحقیق اور پہچان ٹیڑھا سوال تھا۔ لیکن محنت سے تحقیق کی کہ قبیلوں کے نام پر گاؤں کے نام دیے گئے یا جہاں سے ان کے مورث اعلٰی آئے تھے، اسی طرح مقامی یا موروثی نام منسوب ہوئے۔ پاننی نے پناب میں دیکھا کہ مغرب و مشرق میں پہاڑی ہے۔ ایکطرف قندھار کی راجدھانی ٹیکسلا، شمال میں گلگت، دکن میں سندھ ہے۔ دیہاتی علاقوں کے نام، قبیلوں کے نام راج دیہاتی عہدے ھکومتی مجلسوں کو جرگہ کہتے ہیں، سنگھ یاگن کہے جاتے تھے۔ آپریتا اور مدھومت کو آفرید اور محمد کہا گیا۔ وسطہ علاقہ کموج، جن پد، مغرب میں سوراشٹرا، دکن میں گوداوری کے کنارے پٹن ھولوگوں کی سیاسی زندگی زبان اور بولیوں پر حکومتوں کا اثر پڑا اور لفظ تراشے گئے۔ یہ چوتھے اور پانچویں ادھیائے میں ہے۔ برہمن، چھتری، ویش، فوجی، بیوپاری، کسان، رنگریز، بڑھئی، باورچی، موچی، گولی، چرواہے، گڈریے، جولاہے اور کمھار وغیرہ سے ملکر پاننی نے مخصوص پیشوں کی اصطلاحات اکٹھی کیں اور یہ بتلایا کہ لفظ سابقے لاحقے کیا ہیں۔ حروف تہجی اور حروف علت کیا ہیں جو ان سے مرتب ہوئے۔ یہ باب پرلطف ہے۔ پاننی کے چھان بین پر تعجب ہوتا ہے۔ ویاس ندی کے شمال میں کنارے کی سخت زمیں میں پکے اور دکن کی طرف کچے کنویں بنائے جاتے تھے۔ ان کے ناموں کا تلفظ مختلف تھا۔ اس کا مطالعہ بہت گہرا ہے علمی ادبی زبان اور عوامی روزمرہ دونوں سے بخوبی واقف تھا۔ اس بنیاد پر زبان کی قواعد مرتب کی لیکن ان میں عوامی زبان کو ہی برتری حاصل رہی۔ پاننی کا تعلق ٹیکسلا کی جامعہ سے رہا ہے جہاں تمام مواد جمع کر کے تنہائی میں اشٹ ادھیائے کی تکمیل کی۔ پاننی کا تعلق کسی مذہبی فرقے سے نہ تھا وہ صرف ادب کو پیش نظر رکھتا تھا۔ اسم کا لفظ خود سے نہیں بلکہ پورے جنس سے بھی ہے۔ واسیہ اور ویادی کے اساتذہ میں اختلاف پایا تھا۔ پاننی نے دونوں کو بلا اعتراض قبول کیا۔ ایک قواعد داں اندر تھا جس نے الفاظ کو حلق سے ادائیگی کے متعلق لکھا تھا۔ اس سے اور بھاردواج کے ذخیرے سے بھی بہت کچھ لیا۔ پاننی کے سوتر کی روانی مختصر ہے۔ لیکن اس میں جو نکھار ہے دوسروں میں نہیں ہے۔ ابجد کو چودہ سوتروں میں بانٹا ہے بعد میں اس سلسلہ میں بیالیس اور اضافے کیے۔ پاننی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے نہایت جامع اور مانع رائے لکھی ہے، اشٹ ادھیائے کے حروف 3995 ہیں۔ ایک سوتر سنسکرت، ایک اشلوک کے برابر ہوں گے۔ پاتنجلی کا کہنا ہے کہ جو سوتر ایک بار لکھ دیا پھر اس کو کاٹا نہیں۔ ویاکرن (قواعد) میں اس کا ثبوت ملتا ہے اس کا نام چاروں طرف نور پھیلانے والا ہے۔