ابراہیم بن ادہم
خواجہ ابراہیم بن ادہم بادشاہ بلخ جنھوں نے اللہ کی خاطر سلطنت کو خیرباد کہہ دیا
ابراہیم بن ادہم | |
---|---|
(عربی میں: إبراهيم بن أدهم) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 13 مئی 718ء بلخ [1] |
وفات | سنہ 776ء (57–58 سال)[2] جبلہ [2] |
مدفن | جبلہ |
شہریت | سلطنت امویہ (–750) دولت عباسیہ (750–) |
عملی زندگی | |
استاذ | فضیل ابن عیاض |
تلمیذ خاص | خواجہ حذیفہ مرعشی |
پیشہ | الٰہیات دان ، صوفی |
درستی - ترمیم |
نام
ترمیمپورا نام: خواجہ ابو اسحاق ابراہیم بن ادہم بن سلیمان بن منصور بن یزید بن جابر
کنیت: ابو اسحق
ولادت
ترمیمالقابات
ترمیمامام الارض،مرشدِ خلق،مقتدائے قوم،پیشوائے امت اور منبعِ فیوض وبرکات،سیدالاصفیاء ،سرخیل صوفیا،سلطان التارکین، برہان السالکین ،مقرب بارگاہِ رب العلمین،حضرت سیدناابو اسحاق ابراہیم بن ادہم جودولتِ علم سے مالا مال ،معرفت وطریقت میں باکمال، آسمانِ ولایت کے گوہرِ تابدار، حقائق وکمالات میں بے نظیر ،تقوی میں بے مثال تھے جنید بغدادی آپ کو مفاتیح العلوم فرماتے ،امام اعظم آپ کو سید العرفاء’’سیدنا ‘‘کہہ کر پکارتے ہیں۔
حالاتِ زندگی
ترمیمصوفی بزرگ، پورا نام ابراہیم بن ادہم بن منصور بن یزید بلخ کے بادشاہ تھے مگر انھوں نے تمام عیش و عشرت کو چھوڑ کر مسکینی اور خدا طلبی کی راہ اپنا لی تھی اور تارک الدنیا ہو گئے اور صحرا نوردی کرتے ہوئے نیشا پور کے نواح میں پہنچ گئے وہاں ایک غار میں نو سال تک مصروف ریاضت رہے پھر مکہ معظمہ چلے گئے اور کچھ عرصہ تک وہیں عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔ آپ کو بہت سے بزرگان دین سے شرف نیاز حاصل رہا سفیان ثوری، امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف سے آپ کی ملاقاتیں رہیں۔
بیعت و خلافت
ترمیمبیعت و خلافت آپ نے فضیل بن عیاض سے پائی۔ اسی کے ساتھ امام باقر ،خواجہ عمران بن موسی بن زید الراعی،شیخ منصور السلمی اورخواجہ اویس قرنی سے بھی خرقہ خلافت پایا تھا۔ جنید بغدادی کے بقول آپ فقراء کے تمام علوم و اسرار کی کنجی ہیں۔ آپ کا مشہور قول ہے کہ جب گناہ کا ارادہ کرو تو خدا کی بادشاہت سے باہر نکل جاؤ۔ چار، پانچ روز کا روزہ ان کا بھی معمول تھا۔گھاس وغیرہ سے افطار کرتے تھے۔بہت کم سوتے تھے۔پیوند کے کپڑے اکثر پہنتے تھے۔[3]
وصال
ترمیمآپ کے سال وفات کے بارے میں اختلاف ہے بہرحال مختلف روایات کی روشنی میں آپ کی وفات (160ھ / 876ء اور 166ھ/894ء) کے عرصہ کے دوران قرار پاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق26 جمادی الاولی 161ھ کو وصال فرمایا، آپ کے مزار کے متعلق بھی اختلاف ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ شام میں مدفون ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ کو بلاد روم کے ایک بحری جزیرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ ایک روایت کے مطابق آپ کا مزار بغداد ( عراق) میں ہے ایک خیال یہ بھی ہے کہ آپ بلاد روم کے ایک قلعہ’’ سوقین‘‘ میں مدفون ہیں۔ شہزادہ دارا شکوہ قادری نے آپ کا شام میں مدفون ہونا زیادہ درست تسلیم کیا ہے۔ ایک جگہ آپ کا مزار مبارک شام میں حضرت لوط علیہ السلام کے مزارپرانوارکے قریب زیارت گاہِ خواص وعوام ہے۔[4][5][6]
ارشادات
ترمیم- کسی نے بطور نذرانہ آپ کو ایک ہزار درہم پیش کرتے ہوئے قبول کرنے کی استدعا کی ، لیکن آپ نے فرمایا کہ میں فقیروں سے کچھ نہیں لیتا۔ اس نے عرض کیا کہ میں تو بہت امیر ہوں۔ فرمایا: کیا تجھے اس سے زائد دولت کی تمنا نہیں ہے اور جب اس نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ اپنی رقم واپس لے جا کیونکہ تو فقیروں کا سردار ہے۔
- روایت ہے کہ جب آپ کے اوپر واردات غیبی کا نزول ہوتا تو فرمایا کرتے کہ سلاطین عالم آکر دیکھے یہ کیسی واردات ہے اور اپنی شوکت و سلطنت پر نادم ہوں۔
- پھر فرمایا کہ خواہشات کا بندہ کبھی سچا نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا کے ساتھ اخلاص کا تعلق صدق و خلوص نیتی سے ہے۔
- پھر فرمایا جس کو تین حالتوں میں دلجمعی حاصل نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس کے اوپر باب رحمت بند ہو چکا ہے۔ اول تو تلاوت قرآن کے وقت ، دوم حالت نماز میں ، سوم ذکر و شغل کے وقت۔ اور عارف کی شناخت یہی کہ وہ شے میں حصول عبرت کے لیے غور و فکر کرتے ہوئے خود کو حمد وثنا میں مشغول رکھے ،اور اطاعت الہی میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارے۔
- پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ راہ میں مجھے ایک ایسا پتھر ملا جس پر یہ تحریر تھا کہ اس کو الٹا کرو اور جب میں نے پڑھا تو اس پر تحریر تھا کہ اپنے علم کے مطابق اس پر عمل کیوں نہیں کرتے اور جس کا تمھیں علم نہیں اس کے طالب کیوں ہوتے ہو ؟
- پھر فرمایا کہ حشر میں وہی عمل وزنی ہوگا جو دنیا میں گراں محسوس ہوتا ہے۔
- پھر فرمایا کہ تین حجابات رفع ہو جانے کے بعد قلب سالک پر سارے خزانے کشادہ کر دیے جاتے ہیں اول یہ کہ کبھی دنیا کی سلطنت قبول نہ کرے۔ دوم اگر کوئی شے سلب کر لی جائے تو غمزدہ نہ ہو کیونکہ کسی شے کے حصول پر اظہار مسرت کرنا حریص ہونے کی علامت ہے اور غم کرنا غصہ کی نشانی ہے سوم یہ کہ کسی طرح کی تعریف و بخشش پر کبھی اظہار مسرط نہ کرے کیونکہ اظہارِ مسرت کرنا احساس کمتری کی علامت ہے اور احساس کمتری والا ہمیشہ ندامت کا شکار ہوتا ہے۔ (تذکرۃ الاولیا صفحہ ٦٨ تا ٦٩) [7]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ اشاعت: الاہرام — تاریخ اشاعت: 18 جنوری 2017 — Ibrahim Ibn Adham: The prince of Sufis — اخذ شدہ بتاریخ: 2 جنوری 2022
- ^ ا ب اشاعت: الاہرام — تاریخ اشاعت: 18 جنوری 2017 — Ibrahim Ibn Adham: The prince of Sufis
- ↑ تاریخ مشائخ چشت http://www.elmedeen.com/read-book-5168&&page=174&viewer=text#page-145&viewer-text[مردہ ربط]
- ↑ اردو دائرۃ المعارف اسلامیہ جلد1 ،صفحہ354،جامعہ پنجاب لاہور
- ↑ سفینۃ الالیاء از دارا شکوہ قادری
- ↑ اردو انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز
- ↑ https://archive.org/details/Tazkirat-ulAuliyaByAttarurduTranslation/page/n72/mode/1up