ابن درستویہ
ابن دَرُستَویہ — ابو محمد عبد اللہ بن جعفر بن دَرُستَویہ بن معرزبان الفارسی الفَسَوِی (پیدائش: 872ء— وفات: 16 مئی 958ءّ) چوتھی صدی ہجری میں عربی زبان کے عالم، مصنف ، محدث، لغوی اور نحوی تھے۔
ابن درستویہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 872ء فسا |
وفات | سنہ 958ء (85–86 سال) بغداد |
شہریت | ایران |
عملی زندگی | |
پیشہ | فرہنگ نویس |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمنام و نسب
ترمیمابن درستویہ کا نام عبد اللہ بن جعفر، کنیت ابو محمد اور شہرت ابن درستویہ سے ہے۔ والد کا نام جعفر بھی درستویہ بن معرزبان ہے۔ شہر فسا سے تعلق کی بنا پر فَسَوِی کہلاتے ہیں جبکہ نسلاً فارسی ہیں۔ نام درستویہ دو فارسی الفاظ ’’درست‘‘ اور ’’ویہ‘‘ کا مرکب ہے اور نسبت فارسی اور فَسَوِی مولد و مسکن کی بنا پر ہے۔ ابن درستویہ کے والد جعفر اپنے زمانہ کے نامور اور معروف محدثین میں سے تھے [1]۔ جعفر نے علی بن محمد المدائنی اور اُس زمانے کے دوسرے محدثین سے روایت کی ہے۔
پیدائش
ترمیمابن درستویہ کی پیدائش 258ھ مطابق 872ء میں شہر فسا میں ہوئی جو اُس وقت شیراز سے بھی بڑا اور خوشگوار آب و ہوا والا شہر تھا۔[2]
تحصیل علم
ترمیمابن درستویہ ابھی کم عمر ہی تھے کہ انھوں نے اپنے والد گرامی کے ساتھ مختلف محدثین کی خدمت میں حاضری دینے اور تحصیل علم حدیث کا سلسلہ شروع کر دیا۔ [3] جب پندرہ سال عمر ہوئی تو اپنے والد کے ہمراہ بغداد آگئے اور وہاں کے محدثین عباس بن محمد الدوزی، یحییٰ بن ابی طالب، عبد الرحمٰن بن محمد کریزان اور محمد بن الحسین الحسینی سے ملاقات کی اور اُن سے حدیث پڑھی۔ علاوہ ازیں انھوں نے اُس دور کے ماہرین لغت و ادب ثعلب نحوی (متوفی 291ھ) ، محمد بن یزید المبرد (متوفی 210ھ) اور ابن قتیبہ دینوری کو دیکھا اور اُن سے استفادہ کیا۔ ابن درستویہ نے ابن قتیبہ دینوری سے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی مگر اُن کی ذات ابن درستویہ کے لیے دلچسپی کا باعث ضرور بنی۔[4]
وفات
ترمیمابن درستویہ بچپن ہی میں اپنے والد کے ساتھ اپنے آبائی شہر فسا سے نقل مکانی کرکے بغداد چلے گئے تھے اور تا دمِ آخر انھوں نے وہیں 24 صفر 347ھ مطابق 16 مئی 958ء کو وفات پائی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ابن خلکان: تاریخ ابن خلکان، جلد 3، صفحہ 44۔
- ↑ خطیب بغدادی: تاریخ بغداد، جلد 9، صفحہ 428۔
- ↑ شمس الدین ذہبی: سیر اعلام النبلاء، جلد 15، صفحہ 531/532۔
- ↑ اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1 تکملہ، صفحہ 143۔