ابو الحسن اشعری
ابو الحسن اشعری عباسی دور کے مشہور مسلمان عالم دین اور علم کلام کے بانی تھے۔
ابو الحسن اشعری | |
---|---|
(عربی میں: أبو الحسن الأشعري) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 873ء [1][2][3][4][5][6][7] بصرہ [1][8] |
وفات | سنہ 935ء (61–62 سال)[2][3] بغداد [1][8] |
عملی زندگی | |
استاذ | ابو علی الجبائی [9]، ابو اسحاق مروزی [9]، ابن سریج [10] |
پیشہ | متکلم ، فلسفی ، مفسر قرآن ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [11][12] |
شعبۂ عمل | اسلامی الٰہیات ، علم کلام |
کارہائے نمایاں | رسالہ استحسان الخوض فی علم الکلام |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمزمانہ اعتزال
ترمیمان کی والدہ نے ان کے والد اسمٰعیل کے انتقال کے بعد ابو علی الجبائی سے نکاح کر لیا تھا، جو اپنے وقت میں معتزلہ کے امام اور مذہب اعتزال کے علمبردار تھے، شیخ ابو الحسن نے ان کی آغوش میں تربیت پائی اور بہت جلد ان کے معتمد اور دست راست بن گئے، ابو علی الجبائی اچھے مدرس اور مصنف تھے، مباحثہ پر زیادہ قدرت نہیں رکھتے تھے، ابو الحسن اشعری شروع سے زبان آور ، حاضر جواب تھے ابوعلی بحث و مناظرہ کے مواقع پر انھی کو آگے کر دیتے تھے، بہت جلد وہ سرحلقہ اور مجالس بحث کے صدر نشین بن گئے ۔
معتزلہ سے علیحدگی
ترمیمانھوں نے اپنے استاد ابو علی جبائی سے کلامی مناظرات کیے جس کا وہ جواب نہ دے سکے اور اسی وجہ سے ابو الحسن اشعری ، مذہب معتزلہ سے الگ ہو گئے
چالیس برس تک معتزلی عقائد کے حامی رہے۔ پھر مسئلہ تقدیر کے بارے میں معتزلہ سے اختلاف ہو گیا۔
اسی طرح وہ شافعی فقیہ ابو اسحاق مروزی (متوفی 350ھ) کے درس میں حاضر ہوتے رہے،
اشاعرہ کی بنیاد
ترمیماس فرقے کا اس دور کے دوسرے فرقوں کے برعکس خیال تھا کہ انسان کچھ مجبور ہے اور کچھ مختار۔ اور یہی مسلک عام مسلمانوں کا تھا۔ ان کے علاوہ دوسرے فرقوں میں معتزلہ انسان کو مختار کل مانتے تھے اور جبریہ مجبور محض۔
اس فرقے نے معتزلہ کی شدید مخالفت کی اور کوئی تین صد کتب لکھیں۔ جن میں سے آج بہت کم موجود ہیں۔ بہت سے مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے۔ خصوصا شافعیوں میں اس فرقے نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ امام غزالی اسی کے مقلدین میں سے تھے۔ ابو الحسن کو علم کلام کا بانی کہنا چاہیے۔ اس نے مقابل فرقوں کا چراغ گل کر دیا۔ بعد میں آنے والے علما نے اُسی کے اقوال کی تشریح کی ہے۔ حنبلیوں میں اُسے قبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ غزالی کی تصانیف نے اس فرقے کو بڑی قبولیت بخشی معتزلہ کے خلاف کئی کتب لکھیں۔ اسلام کے علمی عروج کے زمانے میں فلسفے کے دو مکاتب فکر کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ ایک مکتب فکر معتزلہ کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسرا اشاعرہ یا اشعرئیین کے نام سے۔ آخرالذکر مکتب فکر اپنے بانی ابو الحسن اشعری کی طرف منسوب ہے۔ اشعری نے تقریباً اپنی تمام تصانیف میں معتزلہ کا جواب دیا ہے اور ان کے دلائل کو بے بنیاد ثابت کیا ہے۔ ان کی تصانیف بے شمار تھیں مگر بیشتر ضائع ہوگئیں۔
ابو الحسن اشعری نے پوری قوت اور وضاحت کے ساتھ معتزلہ پر تنقید کی کہ انھوں نے دین کے اخذ و فہم میں اپنی خواہشات کی پیروی اور اپنے فرقہ کے پیشواؤں کی تقلید کی اور کتاب و سنت کو اس کا ماخذ نہیں بنایا، بلکہ جہاں قرآن کی آیات اور اپنے عقائد میں تعارض دیکھا، بے تکلف اس کی تاویل اور توجیہ کر لی ۔ " کتاب الا بانہ من اصول الدیانہ " میں جو اعتزال سے علٰیحدگی کے بعد کی اولین تصنیفات میں سے ہے
ابو الحسن اشعری، فن خطابت اور مناظرہ میں بہت زیادہ ماہر تھے ، ابوعلی جبائی کے ساتھ مناظرہ اور جمعہ کے روز بصرہ کی جامع مسجد میں تقریروں کی وجہ سے ان کو بہت زیادہ شہرت ملی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے قلم کے میدان میں بھی کافی محنت کی اور اپنے عقائد و نظریات کو منتشر کیا ، ابن عساکر نے 320 ہجری تک ابو الحسن اشعری کی 98 تالیفات کا ذکر کیا ہے،
علم الکلام
ترمیماسلامی عقائد اور نظریات کی صداقت ثابت کی اور ایک نئے علم کی بنیاد ڈالی جو علم کلام کہلاتا ہے۔ جس کا مقصد عقلی دلائل سے اسلام کی سچائی ثابت کرنا ہے۔
شیخ ابو الحسن نے بڑے ہی دلچسپ اور منطقی انداز میں ان لوگوں کو جواب دیا جو علم کلام میں غور و خوض کو ناپسند کرتے تھے او رعلم کلام میں غور و خوض کی ضرورت پر مدلل گفتگو کی ہے ۔
تصانیف
ترمیموہ تقریباًً ڈھائی سو کتب کے مصنف تھے جن میں اَلاِبَانہ عن اصول الدیانۃ، مقالات الاسلامیین ہے (اس کتاب کا اردو ترجمہ مسلمانوں کے عقائد و افکار کے نام سے شائع ہوا ہے،) اور کتاب اللمع فی الرد علی الزیع والبدع مشہور ہیں۔
استحسان الخوض فی علم الکلام: یہ کتاب ان ظاہر پرستوں کے رد میں لکھی گئی ہے جو علم کلام اور عقلی استدلال کو حرام سمجھتے تھے۔ الابانۃ عن اصول الدیانۃ: اس کتاب میں اشعری نقلی روش استعمال کرتے ہوئے اہل حدیث کے عقائد و آراء کی تائید کرتے ہیں؛ یہ کتاب بظاہر اشعری نے معتزلہ سے روگردانی کے آغاز میں لکھی ہے۔ اللمع فی الرد علی اهل الزیغ والبدع: اس کتاب میں اشعری عقلی استدلال کی روش سے اپنے عقائد کے اثبات کی کوشش کرتے ہیں اور اہل حدیث کے عقائد و آراء کی طرف توجہ نہیں دیتے؛ یہ کتاب کافی شافی تدبر کے ساتھ لکھی گئی ہے اور کافی حد تک عمق اور گہرائی سے بہرہ ور ہے اور اشعری کی زندگی کے آخری برسوں میں تالیف ہوئی ہے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ 1953ء میں ہوا
تلامذہ
ترمیماشعری مکتب فکر کے مبلغین میں امام غزالی کا نام سرفہرست ہے۔
وفات
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ عنوان : Новая философская энциклопедия
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12184603x — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب ناشر: کتب خانہ کانگریس — ربط: کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی — اخذ شدہ بتاریخ: 9 نومبر 2017
- ↑ عنوان : Nationalencyklopedin — NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/abu-al-hasan-al-ashari — بنام: Abu al-Hasan al-Ashari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6sz0hkf — بنام: Abu al-Hasan al-Ash'ari — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/aschari-abu-l-hasan-al- — بنام: Abu l-Hasan al- Aschari
- ↑ عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana — گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0005569.xml — بنام: al-Aš’arī
- ^ ا ب عنوان : Histoire de la philosophie en Islam — جلد: 60 — صفحہ: 263 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.google.fr/books/edition/Histoire_de_la_philosophie_en_Islam/I0ANAAAAIAAJ?hl=fr&gbpv=0&kptab=overview
- ↑ عنوان : Histoire de la philosophie en Islam — جلد: 60 — صفحہ: 264 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.google.fr/books/edition/Histoire_de_la_philosophie_en_Islam/I0ANAAAAIAAJ?hl=fr&gbpv=0&kptab=overview
- ↑ https://books.openedition.org/puam/988?lang=fr
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12184603x — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/229186915