پیدائش:19 اگست 1910 انتقال:31 مارچ 1977

اختر اورینوی اردو زبان کے مشہور ناقد، افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر، ڈراما نگار اور خاکہ نگار گذرے۔

ابتدائی زندگی

ترمیم

اختر اورینوی کی پیدائش 1910ء کو بہار کے ایک تاریخی قصبہ اورین میں ہوئی جو ضلع مونگیر میں واقع ہے۔ وہ بچپن سے ہی بلا کے ذہین تھے، اس لیے ان کے والدین انھیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ ان کا داخلہ بھی میڈیکل کالج میں ہو گیا لیکن اسی دوران ان پر ٹی بی کا حملہ ہوا اور ان کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ کئی مہینوں تک سینی ٹوریم میں رہنے کے بعد جب وہ واپس لوٹے تو ڈاکٹری کا شعبہ کہیں پیچھے چھوٹ گیا کیوں کہ انھیں تو کسی دوسرے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑنے تھے۔

اردو ادب

ترمیم

انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور پٹنہ یونیورسٹی میں لکچرر ہو گئے۔ بعد میں انھوں نے بہا رمیں اردو ادب کے ارتقا کے موضوع پر ڈی لٹ کی ڈگری لی اور بہا رمیں یہ سند حاصل کرنے والے اولین اسکالر تھے۔ اختر اورینوی جب ادب کی شاہراہوں پر چلے تو انھوں نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ دو درجن سے زائد کتب شائع ہوئیں اور کتنی ہی کتب کی انھوں نے تدوین کی۔ ان کی تنقیدی کتب میں قدر و نظر، تحقیق و تنقید، کسوٹی، مطالعہٴ اقبال، مطالعہ نظیر، سراج و منہاج اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈراموں میں شہنشاہ حبشہ اور زوال کینٹن افسانوی مجموعوں میں منظر و پس منظر، کلیاں اور کانٹے، انار کلی اور بھول بھلیاں، سیمنٹ اور ڈائنامنٹ، کیچلیاں اور بال جبرئیل اور سپنوں کے دیس میں ہیں۔ ان کے علاوہ ان کا مجموعہ کلام انجمن آرزو بھی ان کی زندگی میں شائع ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ ایک ناو ل حسرت تعمیر بھی شائع ہوا اور اس ناول کا ادبی حلقوں میں بہت عرصے تک ذکر رہا،کیوں کہ چھوٹا ناگپور کی آدیباسی زندگی پر لکھا جانے والا یہ پہلا ناول تھا۔ ان کے ڈاکٹریٹ کا مقالہ ”بہار میں اردو ادب کا ارتقا“ بھی ایک سنگِ میل ثابت ہوا۔ اورینوی کی اہلیہ شکیلہ اختر بھی بلند پایہ افسانہ نگار تھیں اور ان کے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔

نمونہ کلام

ترمیم

تجھ کو معلوم ہے دل پر مرے کیا گذری ہے
وادیِ غم سے دعا آبلہ پا گذری ہے
تیرے کاکل کی مچلتی ہوئی یادوں کی قسم
آہ نکلی ہے ترے بن جو صبا گذری ہے
کوئی اختر کو بھلا دے گا تسلی ہم دم
زندگی اس کی خود اپنے سے خفا گذری ہے

مزید دیکھیے

ترمیم