مونگیر ضلع
اس آلاتی ترجمہ استعمال کیا گیا ہے۔ میں ویکیپیڈیا کے معیار کے مطابق صفائی کی ضرورت ہے، (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
مونگیر ایک تاریخی شہر ہے جہاں انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والے محب وطن جانباز میر قاسم جیسے عظیم شہسوار کا یہ پایہ تخت بھی رہا ہے، آج بھی میرقاسم کے قلعہ کی فصیل موجود ہے جو میرقاسم کی شجاعت و دلاوری کی کہانی سناتی ہے۔ یہ بہت ہی قدیم ضلع ہے اس ضلع سے جموئی، سہرسہ، لکھی سرائے ،بیگوسرائے، کھگڑیا جیسے اضلاع قائم ہوئے ہیں۔ یہ شہر اس لیے بھی تاریخی حیثیت کا حامل ہے کہ یہاں معروف دینی ادارہ جامعہ جامعہ رحمانی اور معروف خانقاہ خانقاہ رحمانی بھی ہے، جہاں لاکھوں اور کروڑوں بھٹکے ہوئے افراد ہدایت پاتے ہیں۔ اس خانقاہ کے اولین سجادہ نشیں قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری تھے ،مولانا محمد علی مونگیری حضرت مولانا فضل رحماں گنج مراد آبادی گنج کے خلیفہ تھے،اپنے مرشد گنج مرادآبادی کے حکم پر مونگیر اور بہار و بنگال کی سر زمین کو اصلاح و تربیت کا میدان بنایا تھا۔مولانا مونگیری دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانی اور ناظم اول تھے ۔ آپ نے مونگیر اور اس کے اطراف میں قادیانیت اور عیسائیت کا قلع قمع کیا تھا اور قادیانیت کی حقیقت کی نقاب کشائی کی تھی۔ اسی خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ نے اس خانقاہ سے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جس کی مثال ملنی مشکل ہے ایک طرف جہاں وہ رشد وہدایت کی راہ دکھا رہے تھے وہیں ایوان سیاست میں بھی اہل سیاست کو’ سیاست‘کے مفہوم پڑھانے میں پیش پیش رہے تھے، ان کے کئی عظیم کارنامے ہیں جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، ان کے ہی ایماء پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی فعال تنظیم وجود میں آئی تھی۔ نسبندی اور ایمرجنسی کے دنوں میں انھوں نے ایک جانباز کی طرح حکومت وقت کے آگے ڈٹ گئے تھے اور اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ یونیفارم سول کوڈ کے ہنگامے میں ان کی ہمت اور جوش کی داد دینی چاہیے کہ ا نہوں نے بلا خوف و خطر شرعی موقف کے تحت کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ فی الوقت اسی خانقاہ کے سجادہ نشیں مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی جو فی الوقت امارت شرعیہ کے امیر شریعت ہیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں موروثی جوش و خروش اور ہمت کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ مولانا محمد ولی رحمانی نے قوم میں عصری تعلیم و تربیت کی ایک نئی کرنرحمانی 30 کے نام سے قائم کی ہے، جہاں غریب مسلم طالب علموں کو مفت میں کوچنگ اور دیگر سہولیات کے سا تھ اعلیٰ امتحانات میں شریک ہونے کا زریں موقع پیش کرر ہے ہیں۔ علاوہ ازیں جامعہ رحمانی خود ا یک مثالی ادارہ ہے جو مذہبی تعلیم و تربیت میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے، جہاں ہر سال طلبہ کی ایک معتدبہ تعداد فارغ ہو کر قوم کی خدمت میں مصروف ہے۔
بانی اہل حدیث (جنوبی ایشیائی تحریک) مشہور محدث مولانا سید نذیر حسین دہلوی مونگیری اسی مونگیر ضلع کی تاریخی جگہ سورج گڑھا کے رہنے والے تھے،امیر المومنین سید احمد شہید بریلوی کی تحریک اور اصلاح و تربیت سے متاثر ہو کر دہلی میں مقیم ہو گئے تھے جہاں آپ نے تاحیات درس و تدریس ، تصنیف و تالیف اور تحریکی خدمات انجام دیا۔
حوالہ جات[1]