اختر عبد الرحمن ایک مشہور پاکستانی فوج جرنیل تھے۔

اختر عبد الرحمن

مناصب
چیئرمین مشترکہ رؤسائے عملہ کمیٹی [1]   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
29 مارچ 1987  – 17 اگست 1988 
معلومات شخصیت
پیدائش 11 جون 1924ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رام پور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 اگست 1988ء (64 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہاولپور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ریاست کار ،  سرمایہ کار ،  فوجی افسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ جرنیل   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں دوسری جنگ عظیم   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی حالات

11 جون 1924ء کو پشاور میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد ڈاکٹر عبد الرحمن سرکاری ملازم تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس سے قبل افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان کے ذاتی معالج رہ چکے تھے۔ 1928ء میں والد کی وفات کے بعد اختر عبد الرحمان کی تعلیم و تربیت والدہ کی نگرانی میں ہوئی۔

تعلیم

1945ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے معاشیات کی ڈگری لینے کے بعد اختر فوج میں ملازم ہو گئے۔

ملازمت

فروری 1947ء میں فوج میں باقاعدہ کمیشن ملا۔ قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب میں تعینات رہے۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کے قریب برکی کے محاذ پر تعینات رہے۔ 1971ء کی جنگ میں قصور کی سرحد پر ایک بریگیڈ کی قیادت کرتے رہے۔ 1978 میں پاک آرمی کے ایجوٹنٹ جنرل اور 1979ء میں ڈائرکٹر انٹلجینس مقرر ہوئے۔

کارہائے نمایاں اور تنازعات

کارنامے

روس افغانستان کی جنگ کے دوران امریکا نے طالبان کی اسلحہ اور پیسے سے مدد کی، پاکستان کے انٹیلی جنس چیف اختر عبد الرحمان نے سوئٹزر لینڈ میں بینک اکاؤنٹس کھولے۔ ان اکاؤنٹس میں امریکا ڈالر بھیجتا تھا اور اس کے بعد اختر عبد الرحمان فیصلہ کرتے تھے کہ یہ کیش کہاں خرچ کیا جائے گا۔ [2]

الزامات

جنرل ضیا کے دور میں راولپنڈی، اسلام آباد کے سنگم پر واقع اوجھڑی کیمپ میں اسلحے کے ذخیرے میں خوفناک آتشزدگی کا الزام عام طور پر انھیں دیا جاتا ہے۔[3]

برطرفی

بریگیڈیئر یوسف کے مطابق جب افغان جنگ عین فیصلہ کن مرحلے پر تھی جنرل اختر کو آئی ایس آئی سے ہٹا کر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بنا دیا گیا۔[4]

تنازعات

او سی سی آر پی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس وقت امریکا اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو بھیجی جانے والی رقم سوئٹزر لینڈ میں سی آئی اے کے اکاؤنٹس میں جمع کی جاتی تھیں۔

او سی سی آر پی نے پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اختر عبد الرحمان نے امریکا کی جانب سے افغان جہاد کے لیے دیے گئے فنڈز میں کرپشن کے ذریعے اپنی جیبوں میں ڈالا۔[5] اختر عبد الرحمان کے صاحبزادوں اکبر، غازی اور ہارون کے نام پر یکم جولائی سنہ 1985 کو ایک مشترکہ اکاؤنٹ کھولا گیا جس میں سنہ 2003 تک 3.7 ملین امریکی ڈالر موجود تھے۔


ایک دوسرا اکاؤنٹ اختر کے بیٹے اکبر کے نام پر جنوری 1986 میں کھولا گیا جس میں نومبر 2010 تک 9.2 ملین ڈالر کی رقم موجود تھی۔ اکبر اور ہارون نے ان اکاؤنٹس کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا البتہ غازی خان نے کہا ہے کہ ان کی فیملی کے سوئس اکاؤنٹس کے بارے میں سامنے آنے والی اطلاعات درست نہیں ہیں

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی زمانے یعنی 1985 میں اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے افغان جہاد کے لیے مختص فنڈ کے حوالے سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ یہ فنڈ کہاں جا رہا ہے۔[6]

انتقال

17 اگست 1988ء کو بہاولپور کے قریب ہوائی جہاز کے حادثے میں صدر مملکت جنرل ضیاء الحق اور دوسرے اکابرین کے ساتھ جاں بحق ہوئے۔ ان کے صاحب زادے ہمایوں اختر خان نے عملی سیاست میں حصہ لیا ہے اور کئی مرتبہ وزیر بھی رہ چکے ہیں۔

مزید پڑھیے

حوالہ جات

  1. بنام: Akhtar Abdur Rahman — اخذ شدہ بتاریخ: 27 اپریل 2022
  2. "امریکی امداد" 
  3. "اوجھڑی کیمپ" 
  4. "افغان جنگ" 
  5. "کرپشن" 
  6. "صدر ریگن"